نئی یونیورسٹیوں میں نئے نئے گل پھول

ایک زمانہ وہ تھا کہ ہمیں پاکستان میں اس ایک علمی جنس کا، جسے یونیورسٹی کہتے ہیں، بہت توڑا نظر آتا تھا۔


Intezar Hussain June 15, 2015
[email protected]

PESHAWAR: ایک زمانہ وہ تھا کہ ہمیں پاکستان میں اس ایک علمی جنس کا، جسے یونیورسٹی کہتے ہیں، بہت توڑا نظر آتا تھا۔ ڈھائی تین ناموں پر آ کر ہم اٹک جاتے تھے۔ اور وہ ڈھائی تین یونیورسٹیاں بھی ایسی تھیں کہ جیسے گنبد بے در۔ پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ وہاں علم و ادب کے نام پر کیا ہو رہا ہے اور کچھ ہو بھی رہا ہے یا نہیں۔

اب یہ عالم ہے کہ یونیورسٹیوں کی ریل پیل ہے۔ کیسی ہیں' کس درجہ کی ہیں' یہ سوال ابھی مت اٹھائیے۔ لو آج ہی ہم نے ایک خبر پڑھی ہے ایشیا میں یونیورسٹیوں کے اعداد و شمار اس زاویے سے جمع کیے گئے ہیں کہ ان میں ایسی یونیورسٹیاں کتنی ہیں جنھیں معیاری یونیورسٹیاں کہا جا سکے۔ حساب لگا کر بتایا گیا کہ معیاری یونیورسٹیاں سو ہیں۔ رپورٹر نے اس پر یہ ٹکڑا لگایا ہے۔ ان سو معیاری ایشیائی یونیورسٹیوں میں پاکستان کی کوئی یونیورسٹی شامل نہیں ہے۔

بیشک یہ سن کر اپنا سر پیٹ لیں مگر ہم کچھ اور کہنے لگے ہیں۔ یہ جو نئی نئی یونیورسٹیاں کھلی ہیں ان کے اردو شعبے بہت سرگرمی دکھا رہے ہیں۔ بوجھو کہ ہمیں اس کا کیسے پتہ چلا۔ بس ایسے کہ ان یونیورسٹیوں کے اردو شعبوں کے زیر اہتمام جو علمی تحقیقی رسالے شایع ہو رہے ہیں کہ وہ اکیلے ہمارے گھر میں اتنے اکٹھے ہو گئے ہیں کہ اب ہمارے اپنے کمرے میں ان کا اتنا انبار لگ گیا ہے کہ بس ہم زبردستی اس میں ٹکے ہوئے ہیں۔ اور ایک سے بڑھ کر ایک ضخیم۔ ان میں سے کسی ایک یونیورسٹی کے اس ذخیرہ مطبوعات سے آپ سرسری گزر جائیں تو آپ کو محقق بننے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔

آج ہی ہم نے ایک نظر اس سارے انبار پر ڈالی۔ اور سوچا کہ ان میں سے ایک دانہ منتخب کر کے چکھ لیں تو کیا مضائقہ ہے۔ اس سے پوری دیگ کا پتہ چل جائے گا۔

بس یہ سوچ کر ہم نے فوراً سر پہ کفن باندھا آنکھیں بند کیں اور اس انبار میں سے ایک جلد اٹھا لی۔ وہ ایک جلد اتنی بھاری تھی کہ لگتا تھا کہ ایک من اس کا وزن ہے۔ خیر ہم نے اس کے ٹائٹل پر نظر ڈالی اور کانپ اٹھے۔ ارے اس کی مدیر تو نجیبہ عارف ہیں۔ علاماؤں سے بڑھ کر علامہ۔ اس جلد کا عنوان تھا اشاریہ اردو جرائد۔ شایع کیا اسے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) کے مرکزی اشاریہ سازی نے۔ یہ مرکز اشاریہ سازی کیا ہے۔ رسالہ کا پیش لفظ پڑھا تو پتہ چلا کہ اس یونیورسٹی میں ''شعبہ اردو (خواتین) کے زیر اہتمام ایک مرکز اشاریہ سازی قائم کیا گیا ہے جس کے تحت ہر سال شایع ہونے والے اردو کے تحقیقی جرائد کا جامع اشاریہ تیار کیا جائے گا۔ اس کی پہلی جلد پیش خدمت ہے''۔ صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے کہ علمی ادبی تحقیقی مقالات کی اس فہرست پر نظر ڈالیں۔ ان کے خلاصے پڑھیں اور مہینوں کے اندر اندر خود محقق بن جائیں ہر مقالہ نگار کے نام کے سامنے اس کے مقالے کا مکمل عنوان خلاصہ' اور کلیدی الفاظ درج کر دیے گئے ہیں۔

ہم نے پھر آنکھیں بند کیں اور اس جلد کو بیچ میں سے کھولا۔ مقالہ کا عنوان تھا' استاد امام دین گجراتی کی پیروڈی نگاری۔ ایک مطالعہ۔ ہم انگشت بدنداں سوچ رہے ہیں کہ ہمارے یار استاد امام دین کے انمل بے جوڑ شعر دلگی کے طور پر سناتے اور استاد پر غائبانہ داد کے ڈونگرے برساتے۔ مگر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے مرکز اشاریہ سازی میں یہی انمل شاعری سنجیدہ تحقیق کا موضوع بن گئی۔ تھوڑی معذرت کی گئی ہے کہ ''کچھ غیر معیاری' سطحی اور بیہودہ شاعری ان سے منسوب ہے۔'' ورنہ یہ سمجھئے کہ ان کے شعری مجموعے 'بانگ دہل' میں طنز و مزاح کے اعلیٰ نمونے موجود ہیں جو استاد امام دین کے فنی اور شعری شعور کا منہ بولتا ثبوت ہیں''۔

واضح ہو کہ بانگ دہل بانگ درا کے جواب میں شاعر نے پیش کی تھی۔ خیر آگے چل کر محمد حسن عسکری کے حوالے سے استاد امام دین کی انملوں کی تلافی کر دی گئی ہے۔ مگر یہاں ہم ایک اور دبدا میں گرفتار ہو گئے۔ محمد حسن عسکری کے تہذیبی تصورات کا مطالعہ قیام پاکستان کے تناظر میں۔ بجا۔ درست۔ مگر مقالہ نگار ہیں غلام عباس۔ ارے غلام عباس تو نخالص افسانہ نگار تھے۔ صحیح کہ عسکری صاحب کے گہرے دوست تھے۔ مگر اس قسم کے تحقیقی مطالعہ کا شوق انھیں کب پیدا ہوا۔ یہ مقالہ کہاں سے دستیاب ہوا۔ کچھ نہیں بتایا گیا۔

ایک اور مقام پر آ کر ہم پھر ٹھٹکے۔ رشید امجد کتنے سالوں تک تجریدی افسانے کے زور پر اردو افسانے کی دنیا میں کوس لمن الملکی بجاتے رہے مگر یہاں وہ افسانہ نگار کے طور پر نہیں افسانے کے نقاد کی حیثیت میں زیر بحث ہیں۔ دلچسپ موضوع ہے۔

سید آل رضا بالعموم اپنے مرثیوں اور تخصیص سے اپنے لکھے نوحوں کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ یہاں انھیں لکھنؤ اسکول کا آخری شاعر قرار دے کر موضوع مطالعہ بنایا گیا ہے۔

ڈاکٹر آفتاب احمد نے عسکری صاحب کے ان خطوط کو مرتب کیا اور ان کے بارے میں لکھا جو ان کے نام لکھے گئے تھے۔ ایک مقالہ نگار سید شبیر نے اس کتاب پر اپنا تحقیقی مقالہ باندھا ہے۔

مختصر یہ کہ اردو کے رسالوں میں جو رنگ رنگ کے مضمون لکھے گئے ہیں ان کے خلاصے یہاں پیش کیے گئے ہیں۔ مگر یہ تو پہلی جلد ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ آگے کتنی جلدیں بروئے کار آئیں گی۔ ہاں اور آخر میں ایک مقالہ اس موضوع پر بھی ہے کہ اردو میں جو خشک مضامین ملتے ہیں وہ ناکافی ہیں۔ اردو ابھی مزید خشک مضامین کی متحمل ہو سکتی ہے تو اردو کو ضرورت ہے مزید ایسے مقالوں کی جو اردو کی خشکی میں اضافہ کر سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں