پولنگ سسٹم اور دھاندلی کے الزامات
الیکشن2013ء میں مبینہ منظم دھاندلیوں کے بارے میں جوڈیشل کمیشن تحقیق کر رہا ہے۔
www.facebook.com/shah Naqvi
لاہور:
الیکشن2013ء میں مبینہ منظم دھاندلیوں کے بارے میں جوڈیشل کمیشن تحقیق کر رہا ہے۔ جوڈیشل کمیشن میں جو حقائق پیش کیے جا رہے ہیں ان کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کس حد تک منظم دھاندلی کے زمرے میں آتے ہیں تاہم لگتا ہے کہ جوڈیشل کمیشن ایسا فیصلہ دے گاجو مستقبل کے حوالے سے دوررس اثرات کا حامل ہو سکتا ہے۔اب تک جو باتیں سامنے آئی ہیں ان سے یہی لگتا ہے کہ کہیں نہ کہیں بے ضابطگیاں ضرور ہوئی ہیں۔ کمیشن کے حکم پر کھولے گئے تھیلوںمیں سے متعدد میں فارم 15 غائب پائے گئے ہیں۔ تحریک انصاف کے قومی اسمبلی کے حلقوں میں 40 سے 98 فیصد تک فارم 15 غائب ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ فارم پندرہ میں یہ تفصیلات درج ہوتی ہیں کہ کتنے بیلٹ پیپرز ریٹرننگ افسروں نے وصول کیے۔ کتنے استعمال ہوئے اور کتنے بچ گئے۔
تحریک انصاف کی دھاندلی سے متعلق ٹاسک فورس کے سربراہ اسحاق خاکوانی کا استدلال ہے کہ فارم 15 سے متعلق یہ رپورٹ حیرت انگیز ہے۔ انکوائری کمیشن کو انتخابی عمل کے دوران قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کی ذمے داری کا تعین کرنا چاہیے۔ عمران خان نے کہا کہ چاہے ساری نشستیں چلی جائیں۔ آیندہ الیکشن شفاف ہونا چاہیے۔ بہر حال اس سارے معاملے میں حکومت مطمئن ہے کہ فیصلہ اس کے حق میں آئے گا اور منظم دھاندلی ثابت نہیں ہو سکے گی۔ادھر تحریک انصاف والوں کا خیال ہے کہ فیصلہ ان کے حق میں آئے گا۔بہر حال یہ معاملہ چونکہ جوڈیشل کمیشن میں ہے اس لیے اس پر مزید بات نہیں کروں گا۔
عمران خان کا کہنا ہیکہ پاکستان میں جوڈیشل کمیشن کا بننا بہت بڑی کامیابی ہے۔ کمیشن نہ بنتا تو عوام کو پتہ ہی نہیں چلنا تھا کہ ہوا کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں تاریخ بن رہی ہے۔ چاہے پی ٹی آئی کی ساری سیٹیں چلی جائیں لیکن اگلا الیکشن شفاف ہونا چاہیے۔
اس سارے معاملے کا پس منظر یہ ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے دو سال پہلے الیکشن کے بارے میں دعویٰ کیا تھا کہ ان میں منظم دھاندلی ہوئی ہے۔انھوں نے چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا' لیکن حکومت نے اس پر کان نہیں دھرے۔ پھرعمران خان نے اپنا مطالبہ منوانے کے لیے اسلام آباد میں دھرنا دیا ۔اس وقت مسلم لیگ ن' پیپلز پارٹی اور دیگر پارلیمانی پارٹیوں نے ان پر شدید تنقید کی گئی۔ یہ بھی کہا گیا کہ دھرنے سے بے پناہ معاشی نقصان ہوا۔بہر حال معاملہ خواہ کچھ بھی تھا۔ اگر حکومت عمران خان کے چار حلقے کھولنے کا مطالبہ مان لیتی تو نہ دھرنے ہوتے اور نہ ہی ان سے پیدا ہونے والے معاشی نقصانات ہوتے۔
پاکستان میں الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ 1977ء کی تحریک بھی دھاندلی کے الزامات کی وجہ سے ہی چلی تھی جس کے نتیجے میں ملک میں مارشل لاء نافذ ہوا ۔ اس کے بعد جمہوری حکومتوں کا یہ فرض تھا کہ وہ الیکشن کے نظام کو نقائص سے پاک کرتے تاکہ دھاندلی کے معاملے کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جا سکے۔ویسے بھی یہ بڑے دکھ کی بات ہوتی ہے کہ اگرعوام کے مینڈیٹ میں ردوبدل کیا جائے۔ الیکشن میں دھاندلی کے الزامات 1977ء سے 90ء کی دہائی میں ہمیں مسلسل نظر آتے ہیں۔دھاندلی کے الزامات سے ہی اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ ووٹر بھیڑ بکریوں کی طرح ہوتے ہیں اور انھیں طاقتور امیدوار ہانک کر پولنگ اسٹیشنوں پر لے آتے ہیں اور یوں مرضی کے نتائج لیے جاتے ہیں۔ کسی حکومت نے اس صورت حال کو بدلنے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔
ملکی ہوں یا بین الاقوامی قوتیں کس قدر طاقتور تھیں اور آج بھی ہیں۔ عوام کچھ بھی چاہیں فیصلہ انھی قوتوں نے کرنا ہے کہ اس دفعہ کس کی باری لگے گی۔پاکستان کے جاگیردارانہ کلچر میں بھی عوام کو آزادانہ رائے اظہار کرنا خاصا مشکل ہے۔دیہات میں عموماً دھڑے بندیوں کو سامنے رکھ کر ووٹ دیے جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہر الیکشن میں پرانے چہرے جیت کر اسمبلیوں میں آ جاتے ہیں۔ درمیانے طبقے کے امید وار کے لیے الیکشن جیتنا انتہائی مشکل کام ہے' پیپلز پارٹی ہو 'مسلم لیگ ن ہو یا تحریک انصاف 'اے این پی ہو یا جے یو آئی 'الیکشن کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں انھی جماعتوں کے آزمائے ہوئے چہرے ہی الیکشن لڑتے ہیںاور وہ جیت کر اسمبلیوں کے رکن بن جاتے ہیں۔ایک طاقتور امید وار ایک الیکشن میں ہارا ہے تو اگلے الیکشن میں یہی ہارا ہوا جیت کر اسمبلی میں پہنچ جائے گا۔یہ سارا معاملہ دراصل طبقاتی ہے۔
موجودہ سیاسی صورت حال میںخیبرپختونخوا کے الیکشن بھی بہت سے سبق لیے ہوئے ہے۔بلدیاتی الیکشن میں تحریک انصاف کی حکومت پربڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات عائد ہوئے ہیں۔ عمران خان نے خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگنے کے بعدپیش کش کی ہے کہ ان کی حکومت ان تمام حلقوں میں دوبارہ الیکشن کرانے کے لیے تیار ہے۔ جہاں دھاندلی ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ نئے سرے سے دوبارہ الیکشن کرانے پر اپنی رضا مندی بھی ظاہر کر دی۔ خیبرپختونخوا میں اگر دھاندلی اور بدنظمی ہوئی تو اس کی وجوہات بھی تھیں کہ یہاں چند گھنٹوں میں عوام نے سات مرحلوں میں 42 ہزار نمایندگان کو منتخب کرنا تھا۔ جب کہ جنرل الیکشن قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے کم و بیش ہزار کے قریب ارکان منتخب ہوتے ہیں۔ کہاں 42 ہزار اور کہاں ہزار نمایندے۔ یہ صرف روایتی لوکل باڈیز انتخابات نہیں تھے بلکہ عوام کو حق حکمرانی گاؤں کی سطح پر سات مرحلوں میں منتقل کرنے کا عمل بھی تھا جس کا عمران خاں کو اس سے پہلے کوئی تجربہ نہیں تھا۔ اس طرح خیبرپختونخوا میں دھاندلی ہوئی تو اس کے سب ذمے دار ہیں۔ کیونکہ اتنے بڑے الیکشن کم از کم دو سے تین مرحلوں میں ہونے چاہیے تھے۔