آپریشن ضرب عضب ۔۔۔۔ کامیابی کا سفر

ضرب عضب اب حتمی مرحلے میں داخل ہونے کو ہے، یہ وقت صرف فوج ہی نہیں بلکہ قوم کیلئے بھی بہت اہم ہے۔


سالار سلیمان June 15, 2015
فوج نے اس ایک سال میں انٹیلی جنس اطلاعات کی بنیاد پر 9 ہزار سے زائد آپریشن کئے ہیں۔ ایک ہزار سے زائد شدت پسند اور اُن کے سہولت کاروں کو ملک بھر سے گرفتار کیا گیا ہے۔

16 دسمبر 2014ء کو جب تاریخ ایک مرتبہ پھر سے خون میں نہلائی گئی تو ہر ذی شعور کا دل غم سے پھٹ رہا تھا۔ پشاور میں آرمی پبلک سکول کے معصوم سے بچوں کو چن چن کر شہید کیا گیا تھا۔ 16 دسمبر 1971ء کے انمٹ زخم کے نشان کے ساتھ ہمارے سینوں پر ایک نیا زخم لگ چکا تھا۔ اس سانحے نے پوری قوم کو متحد کر دیا اور یکجہتی کی فضاء بنی چکی تھی۔ میں نے اس حملے کے بعد طالبان کے نام کھلا خط لکھا تھا۔ اور آج ایک پھر تحریر لکھ رہا ہوں جب اِس آپریشن کو ایک سال مکمل ہوچکا ہے اور اب اس کے حتمی مرحلے کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔

موجودہ حکومت کیلئے بہت سے چیلنجز میں سے ایک چیلنج امن و امان کی صورتحال بھی تھی۔ گزشتہ دور میں امن و امان کی صورتحال اس حد تک مخدوش تھی کہ آئے دن پاکستان میں کہیں نہ کہیں دھماکہ ضرور سنائی دیتا تھا۔ شدت پسند حد سے گزر چکے تھے اور پاکستان کے امن کا اللہ ہی حافظ تھا۔ موجودہ حکومت کیلئے امن و امان کی صورتحال کو قابو میں رکھنا بہت ضروری تھا۔ اس مقصد کیلئے پہلے مرحلے میں شدت پسندوں سے مذاکرات کی میز سجائی گئی۔ جہاں تک میرا علم ہے حکومت کی مذاکرات کے حوالے سے نیت بالکل صاف تھی اور وہ چاہتی تھی کہ اگر شدت پسند اپنی حدود میں واپس چلے جاتے ہیں تو پھر کوئی درمیانی راستہ نکالا جائے گا لیکن اُس وقت بھی یہی اطلاعات تھی کہ یہ سب کچھ اہتمام حجت ہے اور اگر مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو پھر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھا جائے گا۔

دوسری جانب مزاحمت کاروں اور شدت پسندوں نے شاید حکومت کی اس پیش کش کو کمزوری سمجھا اور باز نہ آنے کی روش پر قائم رہے۔ اسی دوران نومبر 2013ء میں امریکی ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود قتل ہوا اور مذاکرات کا سارے سارا عمل رُک گیا۔ چند ماہ کے بعد دوبارہ سے مذاکرات کی میز سجائی گئی لیکن وہ بھی شدت پسندوں کی غیر سنجیدگی کے باعث ناکامی کا دوچار ہوئے۔

https://twitter.com/SSP_PRESS/status/432191871063175168

اہتمام حجت ہوچکا تھا اور فوج کے پاس اب آپریشن کے سواء کوئی انتخاب بھی موجود نہ تھا۔ آپریشن شوقیہ نہیں کیا جاتا ہے بلکہ آپریشن تو آخری حل ہوتا ہے اور وہ مجبوری کے تحت ہی کیا جاتا ہے۔ ضربِ عضب کا آغاز ہوا تو پوری قوم یکجہ تھی اور اِس مرحلے پر میڈیا نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

ضرب عضب کو شروع ہوئے ایک سال ہوچکا ہے اور اس دوران افواج نے بہت سی کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ سب سے پہلی کامیابی امن و امان کی صورتحال ہے جو کہ ماضی کی نسبت بہت بہتر ہوچکی ہے اور تجزیہ کاروں کے مطابق یہ آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے ہی ہے۔ اس آپریشن میں شدت پسندوں کو اُن کے ٹھکانوں سے نکال کر مارا گیا، اُن کے ٹھکانے تباہ کئے گئے ہیں۔

فوج نے اس ایک سال میں انٹیلی جنس اطلاعات کی بنیاد پر 9 ہزار سے زائد آپریشن کئے ہیں۔ایک ہزار سے زائد شدت پسند اور اُن کے سہولت کاروں کو ملک بھر سے گرفتار کیا گیا ہے۔ 2763 شدت پسند مارے گئے ہیں۔ اِن کی خفیہ کمین گاہوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے جس میں 873 خفیہ ٹھکانے تباہ کئے گئے ہیں۔ ضرب عضب میں 253 ٹن کا بارودی مواد بھی برآمد کرکے تحویل میں لیا گیا ہے۔



یہ آپریشن ہرگز بھی آسان نہیں تھا۔ فوج کے 347 قیمتی افسران اور جوان جام شہادت نوش کر گئے تھے۔ ایک طرف فوج ضرب عضب میں مصروف تھی تو بیرونی خطرات کا بھی سامنا تھا، آئی ڈی پیز کے اپنے مسائل تھے۔ یقیناً یہ آئی ڈی پیز بھی ہمارے محسن ہیں کہ جنہوں نے اپنا سکون اور چین، گھر بار، مال مویشی ہمارے لئے قربان کردیے ہیں۔ وہ میلوں پیدل چلنے کے بعد کئی طرح کی مشکلات کو عبور کر لینے کے بعد بنوں کے کیمپس تک پہنچتے تھے۔ اُن کے مسائل ہماری ذمہ داری تھے، ہماری حکومتوں کی ذمہ داری تھے لیکن نہ تو وفاقی حکومت اس معاملے میں کامیاب ہو سکی اور نہ ہی صوبائی حکومت۔ اگرچہ الخدمت فاونڈیشن اور فلاح انسانیت فاونڈیشن کے کیمپس تو نظر آتے تھے لیکن وہ بھی ناکافی ہی تھے، اور کافی ہوتے بھی کیسے کہ یہ تو ریاست کے سطح کے معاملات تھے۔



ضرب عضب اب اپنے حتمی مرحلے میں داخل ہونے کو ہے۔ یہ وقت صرف فوج ہی نہیں بلکہ قوم کیلئے بھی بہت اہم ہے۔ ہمیں اپنی دعاؤں میں فوج کے ساتھ ساتھ آئی ڈی پیز کو بھی یاد رکھنا ہے۔ پاکستان ایک بار پھر تاریخ ساز دور سے گزر رہا ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جو کہ بیک وقت مختلف چیلنجز کا سامنا کر رہا ہو۔ ہمیں جہاں پر اندرونی دشمنوں کا سامنا ہے تو دوسری جانب بیرونی دشمنوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ دنیا کی پانچ ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیاں مل کر اس ارض پاک کو کمزور کرکے صفحہ ہستی سے مٹانے کے در پے ہیں۔ ان کے مقابلے میں صرف آئی ایس آئی ہی ہے جو اپنے محدود وسائل کے باوجود نا قابل یقین اور حیرت انگیز کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ جنہوں نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے وہ تو گمنامی میں بھی اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔ قوم کو اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔ دشمن اپنی چالیں چلتا رہے گا اور ہم نے اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئے اِن کا بھرپور مقابلہ کرنا ہے کہ بے شک دشمن اپنی چالیں چلتا ہے اور اللہ اپنی چال چلتا ہے اور بے شک اللہ سب سے بہترین چال چلنے والا ہے۔ انشاللہ اس عرض وطن پر امن کا پھول دوبارہ ضرور کِھلے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔