چوری اور سینہ زوری
کشمیر کے مسئلے کو اتنا پکانے کے بعد بھی ہزاروں، لاکھوں مسلمانوں کے خون کی بے عزتی کی جاتی ہے
زخموں کو بار بار کریدنے سے تکلیف کا احساس تازہ ہوتا رہتا ہے، مٹتا نہیں، لیکن ہماری قوم کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ بہت بھلانے کی کوششیں کی جاتی ہے کہ پھر سے کریدنے کا عمل تازہ کرکے تکلیف کی شدت جو پہلے ہی گوناگوں مسائل کی وجہ سے خاصی ہے مزید تیز ہوجاتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری قوم کے ساتھ جس گندے کھیل کی ابتدا کی گئی تھی جس سے ہزاروں بے گناہوں کا خون بہا اس پر شرمندہ ہونے کے بجائے اپنے اپنے کرداروں کی مہر ثبت کرکے احساس دلایا جاتا ہے کہ چوری بھی ہم نے کی اور اب سینہ زوری بھی ہم کررہے ہیں۔ پر آپ کیا کررہے ہیں؟ یہ بات ایک ایسا سچ ہے جسے مٹی ڈالو کہہ کر ہرگز چھپایا نہیں جاسکتا۔
پاکستان کو دولخت کردینے کے عمل میں بھارت کی جانب سے جو اقدامات کیے گئے جس چالاکی، عیاری سے اس پورے گھناؤنے اسکرپٹ کو تحریر کرکے اس پر شاندار اداکاری کے جوہر دکھاکر دنیا کے پردہ پر مشرقی اور مغربی پاکستان کو الگ کرکے علیحدہ شناخت سے متعارف کروایا گیا، اس میں ان کی اعلیٰ قیادت کا اہم کردار ابھر کر سامنے آیا کہ وہ دل سے پاکستان کی مسخ شدہ حالت دیکھنا چاہتی تھیں، اندرا گاندھی جی کے والد جواہر لال نہرو جو اپنے دور کے مشاق سیاست دان تھے اس وقت بالکل حواس باختہ ہوچکے تھے جب اہل کشمیر نے بھارتی فوج کی کارروائی کے خلاف شدید مزاحمت کی۔
19 جولائی 1947 کو مسلم کانفرنس میں جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے اپنے نمایندہ اجلاس میں پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد پاس کردی تھی، اس وقت جموں و کشمیر کی واحد نمایندہ جماعت مسلم کانفرنس تھی، کشمیر تو اسی روز بھارتی سرکار کے ہاتھ سے پھسل گیا تھا، پاکستان کے ساتھ کشمیری عوام ذہنی و جذباتی وابستگی قائم کرچکے تھے، نہرو نے 8 نومبر 1948 کو لیاقت علی خان کے نام ایک تار بھیجا جس سے ظاہر ہورہا تھا کہ بھارتی سرکار اب خوشامدی انداز پر اتر آئی ہے۔
بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کو اقوام متحدہ میں ایک مشترکہ عرضداشت پیش کرنی چاہیے کہ جتنی جلدی ممکن ہو کشمیر میں رائے شماری کروالی جائے۔ نہرو نے اس وقت سوچا بھی نہ تھا کہ اس کے اس گیم کو ان کی صاحبزادی کتنی عیاری اور چالاکی سے کسی اور سرزمین پر کھیلنے کی تیاری کرے گی۔ وہ سرزمین پاکستان کی تھی اور عرضی صرف یہ تھی کہ پاکستانی حکومت کشمیر کے مسئلے کو بھول کر اپنی اندرونی خلفشاریوں میں ایسے الجھے کہ اسے کچھ اور نہ سوجھے۔
یوں اندرا گاندھی نے ہماری ماضی کی خود غرض حکومتوں کو پوری طرح اس کھیل کے لیے پہلے آمادہ کیا اور پھر اپنی ڈوروں سے انھیں کھلاتے گئے، ایک کے بعد ایک مہرے گرتے گئے، عیار دشمن کی ساری چالیں تیر بہدف ثابت ہوئیں اور بخیے ادھڑتے گئے۔ اندرا گاندھی اچھی طرح جانتی تھیں کہ بنگلہ دیش کسی بھی طرح بھارت کا حصہ بننے پر آمادہ نہیں ہوگا لیکن اس کی علیحدگی سے دو بڑے مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ نمبر ایک پاکستان کے وسیع رقبے میں سکڑاؤ پیدا کرکے اس کے کس بل ذرا نکل جائیںگے، ایک چھوٹا کمزور پاکستان ایک بڑے رقبے کے ملک کے سامنے حیثیت بھی کیا رکھتا ہے، دوسرے کشمیر کے مسئلے کو برف کی سلوں کے نیچے دباکر سکون کا سانس مل سکتا ہے اور یہ دونوں کام ہوگئے۔
اندرا گاندھی نے نہایت چالاکی سے بھارتی بنگالیوں کو مشرقی پاکستانی کے بنگالی ظاہر کرکے پوری دنیا کے سامنے پاکستان کی سنگ دلی کا ڈرامہ پیش کیا اور یہ بھی کہ دو کروڑ بنگالی انڈین معیشت پر بوجھ ہیں، گو انسانی ہمدردی کے تحت وہ یہ سب برداشت کررہی ہے لیکن اس کا حل ضرور ہونا چاہیے، بنگالی اپنے لیے علیحدہ آزاد ملک چاہتے ہیں انھیں ان کا حق ملنا چاہیے، انھوں نے اپنے اس نئے پرچار کی پبلسٹی کے لیے دنیا بھر میں دورے کیے اور یوں پاکستان کی ہمدردی کے لیے کوئی بھی دوست نہ بچا جو اس کے لیے آواز اٹھاتا اور یوں بقول اندرا گاندھی کے ''ہم نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبودیا ہے اور ہم نے ہندوستان میں مسلمانوں کی ہزار سالہ حکمرانی کا بدلہ لیا ہے''۔
یہ سب کچھ گزرچکا ہے لیکن حال ہی میں مودی کے بنگلہ دیش بننے کے عمل میں ان کے اپنے کردار کے حوالے سے جو گلفشانیاں سامنے آئی ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی بس نہیں ہوا ہے، کشمیر کے مسئلے کو اتنا پکانے کے بعد بھی ہزاروں، لاکھوں مسلمانوں کے خون کی بے عزتی کی جاتی ہے، بھارت کہتا ہے کہ کشمیر ان کا ہے۔
پہلے حیل و حجت سے بات کی جاتی ہے لیکن اب کھل کر کہا جاتا ہے کہ 1948 سے نہرو کی جو چال جسے وہ شاید چند برسوں تک کے لیے ٹالنا چاہ رہے تھے ایسی کامیاب ہوئی جس پر ان کی صاحبزادی نے پاکستان کے ایک حصے کی قربانی بھی ڈال دی کہ اب کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہا جاتا ہے جب کہ کشمیری مسلمان کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہیں۔ ایک طویل عرصے کشمیر کے مسئلے پر پاکستانی حکومتوں کی جانب سے متنازع کے تیکھے حروف بھی جڑے نظر آئے جس میں خدا جانے کیا مصلحت تھی۔ لیکن ایک متنازع ریاست کو اپنا بناتے اور کہتے بھارت تو نہ جھجکا۔
وقت اب کافی سرک چکا ہے، بات اب خاصی پرانی ہوچکی ہے، 1947 سے 2015 تک بہت سا پانی کشمیر کے پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہے، بہت سی نسلیں اس سرزمین کی نگہبانی پر قربان ہوچکی ہیں، لیکن سازشوں کا عمل اب بھی برقرار ہے، بلکہ احساس دلایا گیا ہے کہ سنو کان کھول کے ہم تمہارے خلاف سازش کررہے ہیں تمہارے سینوں پر مونگ دل رہے ہیں اور تم کیا کررہے ہو، سقوط بنگلہ دیش سے لے کر اب تک ہم مصلحتوں، علتوں، اشاروں، کنایوں اور ذاتی دشمنی اور عناد کے دائروں میں گھومتے رہے ہم بنگلہ دیش قائم کرواچکے ہیں، خدانخواستہ ہم اس کے دشمن تو نہیں ہیں کیوں کہ ہم تو دشمنوں کے بھی دشمن نہیں ہیں۔
اس معاملے میں ہم پکے نیک پروین ثابت ہوئے ہیں، اب معاملہ بلوچستان سے ہوتا پورے ملک میں سرائیت کرنے کے درپے ہے، ہم کیا کررہے ہیں، کیا ہم واقعی اتنے معصوم ہیں یا بننے کی کوششیں کرتے ہیں، عملی طور پر ہم اب تک کیا کرچکے ہیں، اندرا گاندھی کے ساتھ قدرت نے کیا کیا وہ ایک مسلمہ حقیقت ہے لیکن ہم اپنے اپنے حصے سے کیا ڈال رہے ہیں۔ ہم تو کچھوے کی چال بھی نہیں چل رہے، خدارا جاگیے، بس بہت ہوگیا پارٹی پارٹی کھیل۔ اب اپنے ملک کو بچانے اور دفاع کے لیے بھی سوچیے کہ کیا حکمت عملی ہونی چاہیے، اب کاغذی بیانات کا نہیں عملی بیان کا زمانہ آچکا ہے، جس نے جو کرنا تھا کرلیا اور کررہاہے اب آپ کی باری ہے آپ کیا کرتے ہیں؟