ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی
سرسید کی اس حد تک مخالفت ہوئی کہ بات کفر کے فتوے تک پہنچ گئی۔
ٹری بیون ایکسپریس نے اپنے صفحۂ اول پر ملالہ یوسفزئی کا ایک بیان نقل کیا ہے۔ کہتی ہے کہ ''میں ایک ایسے دیس کا خواب دیکھ رہی ہوں جہاں تعلیم کا بول بالا ہوگا۔''
یہ بیان پڑھ کر ہم چونکے۔ ارے ایسا خواب تو اٹھارہ سو ستاون کی ابتلا کے بعد سرسید احمد خاں نے دیکھا تھا۔ اتنی بڑی تباہی کے بعد جس میں مغلیہ سلطنت کا نام و نشان مٹ گیا۔ مسلمانوں کے اندر کسی نہ کسی سطح پر خود تشخیصی کا عمل شروع ہونا ہی تھا اور حساس افراد نے بھی اس شکست کے بعد اغیار کو الزام دینے کے ساتھ ساتھ اپنا محاسبہ بھی کیا ہوگا۔ مگر سرسید احمد خاں سب سے آگے نکل گئے۔ انھوں نے مسلمانوں کے امراض کی تشخیص اس طرح کی کہ ان کا اصلی روگ جہالت ہے۔ سو اگر وہ تعلیم سے بہرہ ور ہو جائیں تو ان کے سارے روگ دور ہو جائیں گے اور سارے دلدّر جاتے رہیں گے۔
مگر یہ خواب سرسید پر بہت بھاری پڑا۔ یوں بھی بعض بعض خواب، خواب دیکھنے والے پر بہت بھاری پڑتا ہے۔ سو ہوا یہ کہ ادھر سرسید کی زبان پر تعلیم کا نام آیا ادھر قدامت پسندوں کے گروہ، خاص طور پر مولوی ملا حضرات، ان کے خلاف صف آرا ہو گئے۔ وہ زور بھی تو انگریزی تعلیم پر دے رہے تھے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ نئے علوم کی کنجیاں انگریزی زبان کے پاس ہیں۔ یہ زبان پڑھو اور نئے علوم تک رسائی حاصل کرو۔ پھر تمہارے دلدّر دور ہوں گے۔
سرسید کی اس حد تک مخالفت ہوئی کہ بات کفر کے فتوے تک پہنچ گئی۔ مگر سرسید بھی ہٹ کے پکے نکلے۔ اپنے مؤقف سے سرِمو انحراف نہیں کیا۔ پھر انھیں پرخلوص رفقا بھی میسر آ گئے۔ سو بالآخر علی گڑھ میں اینگلو مسلم کالج قائم ہو گیا جسے اب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہونے کا شرف حاصل ہے۔
ارے اب جس نے یہ خواب دیکھا تھا وہ تو 14 سالہ لڑکی ہے۔ چہ پدی چہ پدی کا شوربہ۔ ذات چھوٹی اور خواب بڑا۔ خواب تو جیسا کہ ابھی کہا گیا سرسید پر بھی بھاری پڑا تھا۔ مگر عمر اور تجربہ ان کی کمک پر تھا۔ وہ اسے سہار گئے۔ ہمت تو اس معصوم روح نے دکھائی تھی۔ مگر خواب اس پر کچھ زیادہ یہ بھاری پڑا، اب اس کی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
اے ہاں ایک خواب اور بھی تو بیچ میں آتا ہے۔ سرسید احمد خاں کے مرید خاص شیخ عبداللہ (علی گڑھ والے شیخ عبداللہ) نے مرشد سے چار قدم آگے بڑھ کر ایک خواب دیکھا۔ لڑکیوں کی تعلیم کا خواب۔ سرسید تو اس معاملے میں مذبذب تھے۔ لڑکوں کی تعلیم کی مہم چلا کر انھوں نے کتنی بڑی مخالفت مول لی تھی۔ لڑکیوں کی تعلیم کا تصور تو لڑکوں کی تعلیم سے بڑھ کر ناقابل برداشت تھا۔
ادھر شیخ عبداللہ کا استدلال یہ تھا کہ ''میں سمجھتا ہوں کہ عورتوں کو سماجی جبر سے نجات دلانے کی صورت یہی ہے کہ انھیں تعلیم دلائی جائے۔ لڑکوں کو تو تعلیم دلائی جائے اور لڑکیوں کو اس سہولت سے محروم رکھا جائے یہ ایسا ہی ہے کہ کمرے کے ایک گوشے میں روشنی کا اہتمام کیا جائے اور دوسرے گوشے کو تاریک رکھا جائے۔''
رفتہ رفتہ بالآخر زمین ہموار ہوئی اور 1906ء میں علی گڑھ میں لڑکیوں کا اسکول کھل گیا۔ اولاً وہاں نو طالبات تھیں۔ ان میں سے تین خود شیخ عبداللہ کی بیٹیاں تھیں۔ اور ان میں سے ایک وہ تھی جو آگے چل کر ایک افسانہ نگار بن کر مشہور زمانہ باغیانہ مجموعہ 'انگارے' میں نمودار ہوئی۔
لڑکیوں کے اسکول کی مخالفت تو بہت ہوئی مگر ابھی مسلمانوں کی سیاست میں تشدد کا عنصر داخل نہیں ہوا تھا اس لیے زبانی کلامی مخالفت اور دشنام طرازی تک معاملہ محدود رہا۔ مگر اس زمانے میں اسی رنگ کی مخالفت بہت معنی رکھتی تھی۔ سو شیخ عبداللہ پر یہ تجربہ بہت بھاری پڑا۔ مگر بہرحال وہ اسکول کھڑا رہا اور چلتا رہا۔ اسے کسی نے جلانے کی کوشش نہیں کی۔ ہمارے زمانے میں آ کر مخالفتوں اور احتجاجوں کی لے تیز ہو گئی ہے۔ اب بہت جلدی نوبت آتش زدگی اور قاتلانہ حملوں تک پہنچ جاتی ہے۔ سوات میں لڑکیوں کے کتنے اسکول جلا دیے گئے۔ اس پر زہرا نگاہ کی ایک نظم ملاحظہ کیجیے۔
گل زمینہ
سنو/تودۂ خاک پر
اپنی انگلی سے/کیا لکھ رہی ہو
گل زمینہ نے شربت بھری آنکھیں اوپر اٹھائیں
اور کہنے لگی/کچھ ہی دن قبل
یہ تودۂ خاک ہی میرا اسکول تھا/میں نے اللہ کا نام
یا حافظ/اس کی دیوار پر لکھ دیا تھا
میرے کاغذ، قلم، اور کتابیں
میرے کنبے کے ہمراہ سب مٹ چکے ہیں
میں یہاں روز آتی ہوں/اپنی یادوں کے بستے سے
پچھلے سبق ڈھونڈتی ہوں/صفحۂ خاک پر ان کو لکھتی ہوں
اور لوٹ جاتی ہوں/میری قسمت میں پڑھنا نہیں ہے
نہ ہو/میرا آموختہ/میرا لکھنا تو جاری رہے
نظم میں وہ معصوم لڑکی گل زمینہ تھی کہ راکھ کے ڈھیر پر کتنی بیچارگی کے ساتھ اپنا سبق لکھتی نظر آتی ہے۔ مگر حقیقت میں یہ ہوا کہ گل زمینہ کا کردار کچھ سے کچھ ہو گیا۔ اب اس خاکستر سے ایک نئی گل زمینہ نمودار ہوئی ملالہ یوسف زئی کے نام سے اور عقل حیران کہ؎
ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی
نو برس کی جان اور باتیں کر رہی ہے عمر رسیدہ عاقلوں کی سی۔ اور نمودار کہاں سے ہوئی۔ نہ علی گڑھ سے، نہ لاہور سے، نہ کراچی سے، دور افتادہ علاقہ سوات سے۔ یوں تو اس وقت ہمارے یہاں بالعموم نسوانی شعور زیادہ بیدار نظر آ رہا ہے۔ مگر اس کے مظاہرے تو لاہور، کراچی، اسلام آباد میں ہو رہے ہیں۔ تعلیم یافتہ خواتین کی ریل پیل بالعموم انھیں شہروں میں ہے۔ مگر نسوانی بغاوت کا گل سب سے بڑھ کر کہاں جا کر کھلا ہے۔ سوات میں جہاں نسوانی تعلیم کا انتظام بس لڑکیوں کے اسکول تک ہے۔ اور وہ بھی اب جل پھنک چکے ہیں۔ یہ گل کھلا ہے یا خاکستر سے چنگاری برآمد ہوئی ہے؎
ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہئے
خیر یوں بھی تو ہوتا ہے کہ زندگی کی مشکلات بھی آدمی کو بہت کچھ سکھاتی ہیں۔ اور جو علاقے کم ترقی یافتہ ہوتے ہیں اور جہاں زندگی کی سہولتیں کم میسر آتی ہیں وہاں رہتے ہوئے کوئی کوئی روح زیادہ حساس ہو جاتی ہے اور ذہن جلدی بالغ ہو جاتا ہے۔