یہ اسلام آباد ہے
جن میں دیہاتی ماحول میں پلنگ پر گاؤ تکیے کے علاوہ میز کرسی اور چھوٹے چھوٹے فیملی روم وغیرہ کا بھی انتظام ہ
اسلام آباد کے گلی،کوچے، بازار، ہوٹل، ریسٹورنٹ، سڑکیں، شاہراہ دستور، مارگلہ روڈ کے علاوہ بلو زون سے باہر ادھر ادھر پھیلی مختلف بستیوں میں بھی کئی جگہ جانا ہوا۔ مگر نہ کہیں کچرے کے ڈھیر اور ان پر بھنکتی مکھیاں، کتے، بلیاں اپنی خوراک کی تلاش میں کچرا پھیلاتے نظر آئے اور نہ ان بستیوں میں خالی میدان یا پلاٹ پر خود رو جھاڑیوں کی ہر شاخ میں رنگین پولی تھین بیگ یوں اٹکے ہوئے کہ جیسے یہ ان جھاڑیوں پرکھلے رنگ برنگے پھول ہوں نظر آئے۔ نہ ہی ہمیں کہیں کمر پر بڑا سا تھیلا اٹھائے کچرا جمع کرتے بچے دکھائی دیے۔
یوں تو ہمیں اسلام آباد ریڈ زون سے باہر کئی علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اسلام آباد کے قریب کئی تفریحی مقامات مثلاً مری، نتھیا گلی، بھوربن وغیرہ ہیں جہاں ایک دن میں جاکر واپس اسلام آباد آیا جاسکتا ہے مگر ہم کیونکہ اپنا سفر نامہ نہیں لکھ رہے بلکہ ان چیزوں کا ذکر کر رہے ہیں جو ہم کراچی والوں کے لیے ذرا ہٹ کر ہیں ، اسلام آباد میں تفریحی مقامات مثلاً دامن کوہ پیرسوہاوا کے علاوہ شاہراہ دستور سے ذرا ہٹ کر اندر کی جانب سیدپور ولیج (دیہات) جوکہ ایک قدیم دیہات ہے اور نسبتاً اونچی پہاڑی پر آباد ہے اس میں مسجد اور گردوارہ بھی کسی زمانے کی یادگار ہے اب ان پہاڑیوں کو تراش خراش کر فوڈ اسٹریٹ بنادیا گیا ہے۔
جن میں دیہاتی ماحول میں پلنگ پر گاؤ تکیے کے علاوہ میز کرسی اور چھوٹے چھوٹے فیملی روم وغیرہ کا بھی انتظام ہے لیکن سروس کا انداز وہی شہری حتیٰ کہ مینوبک بھی انگریزی میں پنجاب کی روایتی لسی بڑے بڑے اسٹیل کے چمکدار گلاسوں میں مگر ان میں بھی اسٹرابری ڈلی ہوئی یعنی روایتی لسی جدید انداز سے نوش فرمائے (ہم اس قدر مغرب زدہ ہوچکے ہیں کہ گاؤں کے ماحول سے بھی پوری طرح لطف اندوز نہیں ہوسکتے) قطع نظر اس کے ہم جہاں بھی گئے جس چیز نے ہماری توجہ بحیثیت کراچی کے شہری ہونے کے اپنی جانب مبذول کرائی وہ صفائی ستھرائی تھی۔
اسلام آباد کی مختلف بستیوں کی سڑکیں تو مکمل طور پر بہترین نہیں کہلائی جاسکیں مگر پھر بھی اتنی زیادہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں جتنا ہماری کراچی کی سڑکوں کا حال خراب ہے کہ کسی بھی علاقے اور کسی بھی سڑک پر روانی کے ساتھ ایک خاص رفتار سے گاڑی چلانا ممکن ہی نہیں۔ اسلام آباد میں بسوں، چنگ چی رکشے(بہت ہی کم ویگنیں) کہیں نظر نہیں آئے۔ سڑکوں پر صبح و شام کے وقت گاڑیوں کا رش ہوتا ہے کہیں کہیں ٹریفک جام ہوجاتا ہے مگر گھنٹوں کے لیے نہیں بلکہ تھوڑی دیر کے لیے وہ بھی اگر کوئی مسئلہ ہوجائے مثلاً کوئی گاڑی خراب ہوگئی یا موٹرسائیکل سلپ ہوگئی تو جلد ہی اس صورتحال پر قابو پاکر فوراً ٹریفک رواں دواں کردیا جاتا ہے۔
سگنل کی خلاف ورزی کم ازکم ہماری نظروں سے تو نہیں گزری حتیٰ کہ کئی بار ہم رات بارہ بجے بھی کہیں سے واپس آئے اسلام آباد کی سڑکیں بالکل سنسان مگر جو اکا دکا گاڑیاں سڑک پر تھیں انھوں نے بھی باوجود کسی بھی طرف سے ٹریفک نہ آتے ہوئے سگنل توڑنے کی کوشش نہ کی پورے صبر و تحمل سے سبز بتی کا انتظار کیا۔ یہاں کئی مارکیٹوں، بازاروں اور ریسٹورنٹ میں جانے کا اتفاق ہوا مگر وہاں غلط پارکنگ سے واسطہ نہیں پڑا کہ ہم خریداری سے فارغ ہوجائیں مگر دیر تک گاڑی نہ نکال سکیں۔ ریس لگانے اور اورٹیک کا رجحان بھی نظر نہیں آیا البتہ چند جوشیلے اور لاابالی نوجوانوں کو برق رفتاری کا مظاہرہ کرتے ضرور دیکھا۔ اس عمر میں جوش و خروش کا مظاہرہ بھی ایک فطری جذبہ ہے۔
دوپہر، شام اور رات کے اوقات میں مارکیٹ، بازار، ہوٹل، ریسٹورنٹ جانے کا اتفاق ہوا چہل پہل ہے لوگ خریداری میں کھانے پینے میں مصروف ہیں مگر جس کو ''رش'' کہتے ہیں وہ کہیں نظر نہیں آتا البتہ پہاڑ کی چوٹی پر بنے ہوٹل ریسٹورنٹ اور ٹی ہاؤس میں کچھ کراچی جیسی رونق نظر آئی وہاں پر آئے ہوئے لوگوں میں زیادہ تر کراچی سے چھٹیوں میں بچوں کو سیر کرانے اور ملک کے دیگر علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں کی تھی۔ مقامی افراد بے حد اطمینان سے خرید و فروخت میں مصروف، نہ چیخ و پکار نہ دھکم پیل نہ جلد بازی ایسا لگتا ہے کہ شاید آج انھیں سوائے اس کام کے اور کوئی کام نہیں کرنا، جب کہ کراچی میں لگتا ہے کہ جو سبزی خریدنے آیا ہے اس کو فوراً کپڑے، جوتے خریدنے بھی جانا ہے۔
اس کے بعد بینک پھر بچوں کو اسکول سے بھی لانا ہے اور شاید کسی عزیز کی عیادت کے لیے اسپتال بھی پہنچنا ہے کہ وہاں ملاقات کا وقت ختم نہ ہوجائے۔ غرض یہ کہ ہر جگہ ہر آدمی یہ چاہتا ہے کہ پہلے اس کا کام ہوجائے مگر اسلام آباد میں سب سکون سے ہیں پورا پورا کنبہ چھوٹے بڑے بچوں سمیت خریداری کر رہا ہے بیگم صاحبہ اپنے مطلب کی چیزیں دیکھ رہی ہیں صاحب اپنے لیے کچھ پسند کر رہے ہیں اور بچے اپنی اپنی ضرورت اور پسند کی اشیا کی طرف متوجہ مگر نہ ماں گھبرائی ہوئی ہے نہ بچے والدین کو بار بار اپنی چیزوں کی طرف متوجہ کر رہے ہیں نہ دکاندار چیزیں دکھانے میں کوئی جلدی کر رہا ہے غرض یہ کہ سب کاروبار حیات اطمینان و سکون سے جاری ہے۔
اسلام آباد میں قیام کے دوران جو کچھ مشاہدے میں آیا، جو جہاں یاد آتا جا رہا ہے قلم بند کرتی جا رہی ہوں۔ ایک چیز جس سے میں بہت متاثر ہوئی وہ یہ کہ شاہراہوں کی دونوں جانب جو رہائشی عمارتیں، دفاتر وغیرہ ہیں ان کے اور سڑک کے درمیان اتنا فاصلہ ضرور ہے کہ گاڑی گیٹ سے نکلتے ہی سڑک پر نہیں آجاتی ہے بلکہ گیٹ سے نکل کر ٹریفک کی روانی میں موقع دیکھ کر سڑک پر آتی ہے جب کہ کراچی میں ڈیفنس جیسے پوش علاقے میں سڑکوں کے کنارے بنے ہوئے بڑے بڑے بنگلوں تک کو یہ سہولت حاصل نہیں سوائے خیابان شہباز کے باقی جگہ پر گاڑی نکالنے کے لیے ایک آدمی نکلوانے کے لیے ہونا ضروری ہے جو ہاتھ کے اشارے سے نکل جانے اور رکنے کے اشارے کرتا ہے، ہنگامی صورتحال میں آپ جلدی سے گاڑی گیٹ سے نکال ہی نہیں سکتے کم و بیش یہی صورتحال پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی کی ہے۔ مجھے روزانہ ڈاکٹر محمود حسین روڈ سے گزرنا ہوتا ہے (یہ سڑک شاہراہ فیصل کو طارق روڈ سے ملاتی ہے) صبح کے وقت وہاں یہی صورتحال ہوتی ہے کیونکہ اس سڑک کے دونوں جانب کئی تعلیمی ادارے اور بیشتر کوٹھیوں میں دفاتر ہیں، ان کوٹھیوں سے نکلنے والی گاڑیوں سے آتی جاتی سواریوں کو بار بار رکنا پڑتا ہے۔
گھروں سے نکلنے والی اور رواں ٹریفک دونوں ہی کو مسئلہ ہوتا ہے۔ یہ صورتحال اسلام آباد میں کم ازکم بڑی شاہراہوں پر نہ ہونے کے برابر ہے۔ آج کل یہاں بھی موسم گرما کی تعطیلات ہیں اس لیے بھی شاید ٹریفک کا رش کم ہو۔ جو چیز کراچی والوں کو متاثر کرتی ہے وہ ہے ہر طرف سرسبز درخت اور رنگ برنگے کھلے پھول، ریڈزون جہاں تمام محکموں کے دفاتر وفاقی سیکریٹریٹ، اسمبلی ہال، سپریم کورٹ، ایوان صدر و وزیر اعظم کے علاوہ ایم این اے لاجز وغیرہ ان کے ارد گرد اونچے نیچے سرسبز و شاداب پہاڑیاں، سڑکوں کے کنارے سایہ دار درخت، فٹ پاتھ پر خوشنما پھول نگاہ کو طراوٹ پہنچاتے ہیں، صاف شفاف اور ہموار سڑکیں گاڑی بلا دھچکے کھائے رواں دواں رہتی ہے۔
دو چیزوں نے بہت متاثر کیا ایک تو صفائی ہر طرف اُگا سبزہ اور خوش رنگ پھول، دوسری چیز بازاروں، مارکیٹوں میں باوجود خریداری کے نہ دھکم پیل نہ شور شرابہ ایسا لگتا ہے کہ یہاں کوئی اطمینان و سکون بانٹ گیا ہے۔ مگر اس پرسکون ماحول سے ایک تاثر یہ بھی ابھرتا ہے کہ یہاں کے لوگ شاید غیر جذباتی تاثرات سے عاری ہوں اردگرد سے لاتعلق اور خود میں مگن۔ لیکن جب آپ کسی کے گھر جائیں تو آپ کا پرخلوص والہانہ استقبال، حد درجہ خاطر مدارات، دوبارہ آنے پر اصرار، ایک دو گھنٹے کے لیے تو آپ کسی کے گھر جا ہی نہیں سکتے اگر صبح گیارہ بجے جائیں تو بغیر دوپہرکا کھانا کھائے واپسی ناممکن اور اگر شام چار بجے کسی کے گھر جائیں تو پہلے ٹھنڈے مشروب پھر ٹرالی بھر کے مدارات اور پھر رات کا کھانا کھلائے بغیر وہ آپ کو جانے کی ہرگز اجازت نہ دیں گے۔
اس سب کے باوجود پورا اسلام آباد شہر خموشاں اور بے روح و بے رونق ہی لگتا ہے۔ میٹروبس کے اسٹاپ پر بھی کہیں رش یا افرا تفریح نظر نہیں آئے گی۔ سکون و اطمینان کے متلاشی خاص کر تحقیقی و تخلیقی کام کرنے والوں کے لیے یہ شہر آئیڈیل ہے۔