ڈی جی رینجرز کی رپورٹ اوراُس پر اعتراضات
ویسے تو سارے ملک میں چوری، ڈکیتی اور لوٹ مار کے سبب ہمارے عوام خوف اور دہشت کی زندگی گذار رہے ہیں
وطنِ عزیز میں بڑھتے ہوئے جرائم اِس ملک سے محبت رکھنے والوں کے لیے انتہائی کرب ،افسوس ، ملال اور تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔گزشتہ پندر ہ بیس سالوں میں ہمارے یہاں جرائم کی وارداتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
ویسے تو سارے ملک میں چوری، ڈکیتی اور لوٹ مار کے سبب ہمارے عوام خوف اور دہشت کی زندگی گذار رہے ہیں ، لیکن خاص کرشہر کراچی کے لوگ اِن جرائم کی وجہ سے سخت اذیت اور ابتلا سے دوچار ہیں۔یہاں کے غریب شہریوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔بدقسمتی سے یہاں پر ایک عرصے سے جو صوبائی حکومتیں رہی ہیں اُنہیں عوام کی اِن مصیبتوں اور اذیتوںسے کوئی سروکار نہیں ۔ وہ صرف اپنے اقتدار کے تحفظ اور اُسے دوام بخشنے کی فکر میں ہمیشہ سرگرداں رہی ہیں۔
اسٹریٹ کرائمز کے علاوہ کھلے عام ڈکیتی، جبراً چندہ وصولی، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ جیسی خطرناک وارداتیں روزکا معمول بن چکی ہیں۔ گرچہ سال بھر قبل شروع کیے جانے والے آپریشن سے حالات میں کچھ بہتری نمودار ہوئی ہے لیکن اُن کا مکمل خاتمہ ہنوز ممکن نہیں ہوا ہے۔اِس آپریشن کی راہ میں سب سے بڑی مشکل سیاسی مجبوریاں اور مصلحتیں ہیں جن کے سبب یہ اب تک مکمل کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکا ہے۔یہاں کی صوبائی حکومت جس کے اپنے ہاتھ اورکردار اِس معاملے میں صاف اور شفاف نہیں ہیں وہ اِس آپریشن کو کامیاب بنانے میں پس و پیش سے نہ صرف کام لے رہی ہے بلکہ اُس کی راہ میں روڑے بھی اٹکاتی رہی ہے۔ڈی جی رینجرز کی جانب سے جاری کردہ حالیہ تحقیقاتی رپورٹ جو اپیکس کمیٹی کو پیش کی گئی ہے یہاں کی انتظامیہ کے اِس کردار کو اگر مکمل نہ صحیح تو کسی حد تک واضح کر رہی ہے۔
اِس رپورٹ میںیہ بتایا گیا ہے کہ کراچی میں سالانہ 230ارب روپے کالے دھن کے طور پر وصول کیے جاتے ہیں اور اُنہیں کس کس طرح عوام کی جیبوں سے نکال کر بااثر افراد میں تقسیم کیا جاتا ہے۔لینڈ گریبنگ، چائنہ کٹنگ، سرکاری اور پرائیویٹ زمینوں پر قبضہ ،واٹر ہائیڈرنٹ ،منشیات کا کاروبار،فقیرمافیا،سائبرکرائمز، منی لانڈرنگ، غیر قانونی شادی ہال اورکار پارکنگ ،میچ فکسنگ،پولیس تھانوں کی نیلامی، زکوٰۃ، فطرہ اور قربانی کی کھالوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کس کس طرح یہاں کی سول انتظامیہ، پولیس افسران، سیاسی شخصیات،کنسٹرکشن کمپنیوں اور اسٹیٹ ایجنٹس میں تقسیم ہوتی ہے۔گرچہ ابھی اِس رپورٹ میں قوم کو ایسے سفاک مجرموں کے نام نہیں بتائے گئے ہیں لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک اہم رہنما بیرسٹر اعتزا ز احسن کی جانب سے اِس رپورٹ پر جاری کیا جانے والا مذمتی اور احتجاجی بیان سندھ حکومت کو اُس کی مجرمانہ غفلت اورلاپرواہی کے الزامات سے کسی حد تک بچانے کے مترادف ہے ۔
ڈی جی رینجرز نے کراچی میں ہونے والے جرائم کی پشت پناہی کرنے والوں کو بظاہر بے نقاب تو کردیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ اُنہیں قرار واقعی سزا دلواسکیں گے۔جو کہ بہت مشکل بلکہ ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
اگر وہ ایسا کرجائیںتو اِس قوم پر اُن کایہ بہت بڑا احسان ہوگا۔ مگر ہم سمجھتے ہیں وہ ایسا نہیں کر پائیں گے۔ اور اُن کی یہ ساری کوشش سعیِ لا حاصل بن کر قوم کی مایوسیوں اور نااُمیدیوں میں مزید اضافے کا باعث بن جائے گی۔کراچی میں ایک عرصے سے جن قوتوں کا راج رہا ہے وہ کسی طرح طاقت اوراختیارات کو اپنے ہاتھوں سے نکلنے نہیں دیں گی۔ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کراچی کو اِس حال میں پہنچانے والے کون ہیں۔ کون کون جرائم کی سرپرستی کرتا رہا ہے اور کون کون مجرموں کو تحفظ دیتا رہا ہے۔ صوبائی انتظامیہ کے ہاتھ مالی بدعنوانی اورکرپشن میں اِس قدر میلے ہوچکے ہیں کہ وہ کالے دھن سے حاصل ہونے والی نعمتِ غیر مترقبہ سے ہرگز دستبردار ہونا نہیں چاہتے۔پھر اُس دولت سے جن جن لوگوں کی پرورش ہو رہی ہے اُن کا نان نفقہ بند کرکے وہ اُن کی حمایت سے بھی محروم ہونا نہیں چاہتے۔ کرپشن اور لوٹ مار کا یہ سلسلہ اتنا طویل ہو چکا ہے کہ اُسے اچانک یوں بند نہیں کیا جا سکتا۔ اِن جرائم میں ملوث افراد کی کڑیاں کہاں کہاں ملتی ہیں عوام سوچ بھی نہیں سکتے ۔
ابھی توصرف ڈی جی رینجرز کی ایک تحقیقاتی رپورٹ آئی ہے ۔اُس پر عملدرآمد شروع نہیں ہوا اور پیپلز پارٹی کی طرف سے مخالفانہ بیانات آنا شروع ہوگئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے قائدین اور رہنماؤں کے پاس وفاقی حکومت کو اپنے دباؤ میں لانے کے بہت سے طریقے موجود ہیں۔ بس ابھی صرف وارننگ دیکر دھرنوں کے مشکل موقعے پر میاں صاحب کو اپنی سابقہ حمایت کی یاددہانی کروائی ہے اور اُس حمایت کا خراج وصول کرنے کا ارادہ کیا ہے ۔ اِسی کو لے کر وہ جانتے ہیں کہ میاں صاحب عمران خان کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کی مخالفت کا خطرہ نہیں مول لے پائیںگے اورمجبوراً اِس سمت میں مزید آگے بڑھنے سے رک جائیں گے۔پھر بہت ممکن ہے کسی بڑے مجرم اور اُس کے سرپرست کی نشاندہی نہیں بھی کی جائے گی اور کسی کو قرار واقعی سزا بھی نہیں دی جائے گی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ وفاقی حکومت اعتزاز احسن کے احتجاجی بیان کو کس طرح لیتی ہے۔وہ جرائم کے خاتمے کے اپنے ارادوں اور مقاصد میں ویسے ہی پرعزم رہتی ہے یا پھر جرائم کی پشت پناہی اور سرپرستی کرنے والوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوجاتی ہے۔وہ ذاتی مفادات کے تحفظ اور اقتدار بچانے کی فکر میںمفاہمتی سیاست اور مصلحت کوشی کا شکار ہوجاتی ہے یا پھر اپنے سابقہ موقف پرثابت قدموں سے ڈٹے رہتی ہے۔ سندھ حکومت کے نامہ اعمال میں اگر کراچی میں امن کے دشمنوں کے ساتھ گٹھ جوڑ اور ملی بھگت کے بہت سے کارنامے درج ہیں وہاں وہ اندرونِ سندھ بھی کوئی قابلِ ذکر کارکردگی دکھانے سے اب تک محروم ہے۔
سندھ کے عوام کی حالت پسماندگی کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔وہاں کی حکمراں جماعت نے اپنے لوگوں کی بھلائی کے لیے بھی کوئی منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا ہے۔علاقوں کے ترقیاتی فنڈز کہاں جاتے ہیں کسی کو پتا نہیں۔اسپتالوں اور اسکولوں کی حالتِ زار انتہائی نا گفتہ بہ ہے۔سڑکیں اور شاہراہیں 1947 کا منظر پیش کررہی ہیں۔اپنی ناکامی اور کوتاہیوں کا ذمے دار وفاق کو ٹہراکر عوام کو گمراہ تو کیا جاسکتا ہے لیکن حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ سندھ کے عوام کی محرومیوں کی ذمے دار یہاں کی صوبائی حکومت ہی ہے۔کراچی میں اگر بدامنی کا راج رہا ہے تو اُس کی ذمے دار بھی یہی انتظامیہ ہے۔اُس نے اپنے مفادات کی خاطر مصلحتوں سے کام لیتے ہوئے جرائم پیشہ عناصر سے ہمیشہ سمجھوتہ ہی کیا ہے۔
اب جاکے اگر وفاق کی طرف سے امن وامان کے مسئلے کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ کوششیں کی جا رہی ہیں تو وہ اُس میں اپنا حصہ ڈالنے کی بجائے مختلف حیلے بہانوں سے اُنہیں ناکام بنانے کی کوششوں میں سرگرداں ہے۔کون نہیں جانتا لیاری گینگ وار گروپ کوکس کی سرپرستی حاصل تھی اورکون عزیر بلوچ کو فرارکروانے اور اب اُسے گرفتار ہونے سے بچانے میں ملوث ہے۔پیپلز پارٹی اگر سندھ کے عوام سے مخلص ہے تو اُسے چاہیے کہ وہ کراچی میں ہونیوالے آپریشن میں بھر پور تعاون کے ساتھ ساتھ مکمل مدد فراہم کرے ۔ یہ اُس کی اخلاقی اور قانونی ذمے داری ہے کہ وہ ڈی جی رینجرز کی رپورٹ کو جھٹلانے کی بجائے اُس میں ظاہر کردہ جرائم کی پشت پناہی کرنیوالوں کو اُن کے منطقی انجام تک پہنچائے۔اِسی میں کراچی ، سندھ اور اِس ملک کے عوام کی بھلائی مضمر ہے۔