نیا پاکستان کون بنائے گا
ایک وقت تھا ہم کشمیر میں اٹھنے والی آزاد تحریکوں کی حمایت کرتے تھے۔
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے، سابق صدر ایوب خان کے دور میں 1958 سے 1968 تک پھرذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 1970 سے 1977 تک پاکستان میں طویل المیعاد پالیسیاں بنتی رہیں،اچھی ٹاؤن پلا ننگ ہوتی رہی، عوام کو بنیادی سہولتیں ملتی رہیں اور پاکستان کی بہترین خارجہ پالیسی رہی لیکن جب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو جوہری قوت بنایا جب سے لے کر آج تک ہمارا وطن بے یقینی کی صورت حال سے دوچار ہے۔ نہ کہیں طویل المیعاد ترقیاتی منصوبے نظر آئے نہ ہمارے قومی وقار کے شایان شان آزاد خارجہ پالیسی نظر آئی ۔
ایک وقت تھا ہم کشمیر میں اٹھنے والی آزاد تحریکوں کی حمایت کرتے تھے۔ مقبوضہ کشمیر کو پاکستان کا اٹوٹ انگ قرار دیتے تھے اورآزادی فلسطین کی تحریک کی حمایت کرتے تھے۔ یہ ہمارا وہ دور تھا جب نہ انرجی بحران تھا نہ پانی کا نہ اناج کا۔ پانچ سالہ ترقیاتی منصوبوں پر باقاعدہ عمل ہوا کرتا تھا لیکن ادھر ہم نے جوہری قوت حاصل کی ادھر ہم سے امریکا کے صدر جمی کارٹر ، سیکٹری خارجہ ہنری کسنجر نے ذوالفقار علی بھٹو کو نشان عبرت بنانے کا دعوی کردیا تھا اور بعینہ اس پر عمل ہوا۔
جس نے وطن کو ترقی دی جس نے بچے کچے پاکستان کو متحدہ پاکستان بنایا جس نے کراچی میں اسٹیل مل لگائی جس نے فوج کو مضبوط اور طاقتور بنایا جس نے دنیا میں پہلی اسلامی مملکت کو جوہری قوت بنایا جسے عالم اسلام نے ایشیا کا رہنما قرار دیا جس کی پھانسی کی سزا رکوانے کے لیے کوششیں کی گئیں اسی کو امریکا کی خوشنودی کی خاطر تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔
جب کوئی قوم اچھے رہنما سے محروم ہوجائے تو منزل سے دور ہوجاتی ہے۔ جب سے لے کر آج تک جتنی بھی حکومتیں آئی سب نے پاکستان کو ایڈہاک ازم پر چلایا آج تک یہ ملک اسی طرح چل رہا ہے۔ پوری قوم آج قائداعظم محمدعلی جناح اورذوالفقارعلی بھٹو جیسے رہنما سے محروم ہے، اب تو جو بھی جماعت برسراقتدار آتی ہے اس کے کارندے 70فیصد حصہ پارٹی کے فنڈز کے لیے جمع کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ کسی کو عوامی مسائل حل کرنے کی کوئی غرض نہیں نہ کوئی ان پر چیک اینڈ بیلنس ہے، وہ اپنے گھروں سے اپنے آفس بھی جب آتے ہیں جب آدھا دن گزرجاتا ہے ۔
بیوروکریسی کے افسران کا تعین حکومتیں سیاسی وابستگی کو دیکھتے ہوئے کرتی ہیں اور فرماں بردار بیوروکریٹ کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں جب کہ حقیقی بیوروکریٹس کبھی بھی وطن اور عوامی مفاد کے خلاف پالیسی نہیں بناتے تھے نہ ہی دباؤ میں آتے تھے ۔ یہی وجہ ہے پورا ملک کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے۔ اکثریتی سیاستدانوں نے غیر ملکی پاسپورٹ بنائے ہوئے ہیں ان سب نے اپنا سرمایہ بیرون ملک جمع کیا ہوا ہے۔ یہ ملک کو لوٹنے اور عیش وعشرت کے لیے سیاست میں آتے ہیں۔ اگر ہمارے ممبر پارلیمنٹ چاہیں تو یہ قانون پاس کرسکتے ہیں کہ کسی بھی سیاسی کارکن کو پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کا پاسپورٹ رکھنے کا اختیار نہ ہو نہ ہی انھیں ایک روپیہ بھی بیرون ملک بینک میں رکھنے اور نہ ہی کسی سیاستدان کو کاروبار کرنے کا اختیار ہو۔
اگر یہ تین اصول ہمارے ملک میں قانون بن جائیں تو ملک میں کرپشن ختم ہوجائے گی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے ان تین اصولوں کو قانون کون بنائے کیونکہ سیاستدانوں کی اکثریت تو مال و زردولت شہرت کی خاطر سیاست میں آئی ہے وہ ملک اور قوم کی خدمت کے لیے میدان میں نہیں آئی ۔اس لیے یہ اصول قانون جب بنے گا جب کوئی ایسا لیڈر اٹھے جو نہ سیاست داں ہو، نہ تاجر نہ دہری شہرت رکھتا ہو نہ اس کا اکاؤنٹ ملک سے باہر ہو نہ اس کا کاروبار ملک سے باہر ہو۔ایسی ہی شخصیت سے یہ امیدکی جا سکتی ہے وہ پاکستان میں انقلابی قدم اٹھا کر پاکستان کو دہشت گردی اور معاشی دہشت گردی سے بچاسکتا ہے۔
اس لیے میری تجویز یہ ہے کہ نیا پاکستان بنایا جائے جس کے لیے پہلا قدم یہ ہوکہ ملک میں پارلیمانی سسٹم ختم کرکے صدارتی نظام لایا جائے۔ پورے ملک میں شہری حکومتوں کو بحال کیا جائے جیسا کہ سابق جنرل تنویرنقوی نے سابق جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں کیا تھا۔ تمام اضلاع میں انفرا اسٹرکچر کے کام میں تیزی لائی جائے۔ سب سے زیادہ توجہ توانائی پردی جائے۔ نئے کنکشن نہ دیے جائیں نہ ہی چار منزلہ سے زیادہ بلند عمارتیں بنانے کی اجازت ہو تمام شہروں میں بازارصبح نو بجے کھولے جائیں رات نو بجے بند کردیے جائیں ۔
جمعے کو بازار بند ہوں، اتوار کوکھولے جائیں، امن عامہ کی خاطر ہر دس ہزار کی آبادی پر رینجرزکی ایک چیک پوسٹ بنائی جائے۔ ہر شہری کا ریکارڈ کمپوٹرائزکر کے ایک مرکزی نظام کے تحت تھانوں میں ہو۔ایف آئی آرکوکمپیوٹرائز کردیا جائے۔ عام لو گوں کو پینے کے پانی، بجلی اورگیس کی سستی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ ایک ہزارگز سے زیادہ والے پلاٹ پر مالک اپنا جنریٹر لگائے اور بجلی کے بلوں پر لیے جانے والے سر چارج اورکثیرتعداد میں لگائے جانے والے ٹیکسوں کو ختم کیا جائے اور سب سے زیادہ توجہ تعلیمی اداروں پر دی جائے، طلباء اوراساتذہ کی حاضری کو یقینی بنایا جائے ۔
گریجویٹس کو بیروزگاری الاؤنس دیا جائے ۔ مائیکروفنانسنگ کے ذریعے ٹرانسپورٹ اور اسمال بزنس کی سہولت کو عام کیاجائے۔ یہ سارے قدم اگر اُٹھالیے جائیں تو مجھے پو را یقین ہے کہ ہمارا وطن بہت جلد آئی ایم ایف کے چنگل سے آزاد ہوجائے گا۔ ہماری خارجہ پالیسی برابری کی بنیاد پر ہو۔ پوری قوم ایسی شخصیت کی منتظر ہے جو اس ملک کو نیا پاکستان بنا دے اس کام کے لیے کسی سیاستداں سے یہ امید رکھنا عبث ہے۔
لیبیا میں کرنل قذافی، مصر میں انوار السعادات ،عراق میں صدام حسین،اردن میں شاہ حسین، مشرقی وسطیٰ میں بادشاہت یہ سب غیر جمہوری تھے مگر انھوں نے اپنے وطن میں پائیدار امن اور بنیادی سہولتوں پر توجہ دی اورکامیاب رہے۔ یہی مسلمان قوم کا مزاج ہے کہ اسے یا توخلافت راس آتی ہے یا پھر ملوکیت۔ جمہوریت کے نام پر اس قو م کو نقصان ہی نقصان ہے۔
اس جمہوریت نے ہمیں بحیثیت قوم کے منتشرکردیا ہے اور پورے ملک میں ناجائزاختیارات اور کرپشن کا ایسا مضبوط جال بچھا دیا ہے جسے موجودہ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے توڑنا بہت مشکل ہے۔ اس لیے وقت کا تقاضا ہے جہاں سرحد کی حفاظت کی ذمے داری قبول کی ہے وہاں وطن کی سالمیت داخلی مضبوطی کی ذمے داری کا بھی فرض پورا کیا جائے۔یہ جب ہی ممکن ہے جب مصمم ارادہ قومی ارادوں والی ایسی شخصیت قدم اٹھائے جس کے پاس ایماندار وفادارجانثاروں کی ایک مختصر ٹیم موجود ہو۔نیت اور ارادے مضبوط ہوں تو اللہ بھی مددکرتا ہے۔