ہمارا زریاب کہاں ہے

ابوالحسن انتہائی ذہین اورقیامت کی نفاست کامالک تھا۔اس نےمحسوس کیاکہ عبدالرحمن دوم کے دربارمیں کپڑے پہننے کاذوق ناپیدہے


راؤ منظر حیات June 20, 2015
[email protected]

KARACHI: زریاب ایک حیرت انگیزصلاحیتوں والاشخص تھا۔آج بھی دنیاکے ہرگھرمیں اس کے ذہن اورتجربے سے گندھی ہوئی کوئی نہ کوئی چیززیراستعمال ہے۔کسی کواسکااحساس نہیں،کہ یہ سب کچھ ایک آزادکردہ غلام کی مرہون منت ہے۔

ابوالحسن علی ابن نافی کاتعلق عراق سے تھا۔بغدادمیں ہارون الرشیداورمامون الرشیدکے دربارسے وابستہ رہا۔لیکن بغدادمیں اس کی وہ صلاحیتیں اجاگرنہ ہوپائیں جوبعدمیں ایک سماجی انقلاب کی بنیادبنیں۔جوہری طورپروہ ایک موسیقار تھا۔

اس نے موسیقی کی تعلیم اسحاق اَل موصّلی سے حاصل کی تھی۔آوازاس قدرخوبصورت تھی کہ کالی جلدکی مناسب سے اسے زریاب کاخطاب مل گیا۔بنیادی طورپریہ ایک سیاہ رنگ کاپرندہ تھاجواپنی خوش الحانی کی بدولت جاناجاتاتھا۔ایک دن خلیفہ ہارون الرشیدنے اس کی گائیکی سنی،وہ حیران رہ گیا۔اسے یقین نہ آیاکہ اس کی سلطنت میں اتنے عظیم گائیک اور موسیقار موجودہیں۔خلیفہ کی تعریف اورانعامات نے ابوالحسن کے خلاف حسداوربغض کاایک طوفان کھڑاکردیا۔ اس کا اپنا استاد اسحاق اَل موصّلی اپنے شاگردکی جان کے درپے ہوگیا۔ زریاب کے پاس کوئی راستہ نہیں رہا۔لہذااسے مجبوراً بغداد چھوڑنا پڑا اور وہ اُندلس(اسپین)میں آگیا۔وہاں اسپین کے بادشاہ عبدالرحمن دوم نے اسکواپنے دربارمیں نوکری دیدی۔ یہاں سے زریاب اوراسپین کے حالات میں تبدیلی آنی شروع ہوگئی۔

ابوالحسن انتہائی ذہین اورقیامت کی نفاست کامالک تھا۔ اس نے محسوس کیاکہ عبدالرحمن دوم کے دربارمیں کپڑے پہننے کاذوق ناپیدہے۔عوام کابھی یہی حال تھا۔گرمیوں اور سردیوں کے کپڑوں کی کوئی خاص تمیزنہیں تھی۔سب سے پہلے زریاب نے خلیفہ کوقائل کیاکہ مختلف موسموں میں مختلف نوعیت کالباس پہنناچاہیے۔خلیفہ نے اس کی بات تسلیم کرلی۔ چنانچہ گرمیوں اورموسم سرماکے لباس کی تفریق ہوگئی۔اس نے یہ بھی ثابت کیاکہ موسم گرمامیں سفیدرنگ کالباس زیب تن کرنا چاہیے کیونکہ اس رنگ سے گرمی کااثرکم ہوجاتاہے۔

زریاب ایک دربارسے وابستہ تھالہذااس نے صبح،شام اوررات کے علیحدہ لباس کاتجربہ کرڈالا۔یعنی ہروقت کاپہناوامختلف ہونا چاہیے۔اسکاتجربہ کامیاب ہوگیا۔اس طرح درباراوراس سے وابستہ لوگ اوقاتِ کار کے مطابق دیدہ زیب ملبوسات پہننے لگے۔پہلے تمام لوگ بھاری اورکڑھے ہوئے لباس کواہم سمجھتے تھے۔مگرزریاب نے یہ فلسفہ بھی تبدیل کرڈالا۔اس کی تھیوری تھی کہ لباس وہ اچھاہے جوکہ پہننے والے کوبہترطریقے سے پیش کرسکے۔دیکھتے ہی دیکھتے پورے اندلس میں پہناوے کی حد تک مکمل تبدیلی ہوگئی۔سادہ،دیدہ زیب اورموسم کی مناسبت سے کپڑے پہننے کارواج شروع ہوا۔مغرب نے اپناتمام فیشن زریاب کے تجربے کوسامنے رکھ کرترتیب دیاہے۔یاہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ آج کے مغرب کے تمام فیشن کی بنیاد زریاب کے تجربات پرہے۔لیکن شائداس سچ کوآج کوئی بھی تسلیم نہیں کریگا۔

اُس وقت کے اندلس میں دانتوں کوصاف کرنے کاکوئی مستندطریقہ نہیں تھا۔زریاب نے مقامی جڑی بوٹیوں کواستعمال کرکے دنیاکاسب سے پہلا"ٹوتھ پیسٹ" بنایا۔ لوگوں کوسمجھایاکہ وہ اپنے دانتوں کی صفائی کاخیال کریں اور اگر ممکن ہو تو "ٹوتھ پیسٹ"کواستعمال کرنا سیکھیں۔بہت تھوڑے عرصے میں اندلس میں اسکایہ تجربہ بھی کامیاب ہوگیا۔یہ اپنی جگہ ایک انقلاب تھا۔لندن اورپیرس میں اس وقت دانت صاف کرنے کاکوئی رواج نہیں تھا۔

آج جوہم دانت صاف کرنے کے لیے پیسٹ استعمال کرتے ہیں،اس کی بنیاد زریاب نے رکھی تھی۔اس نے یہ بھی محسوس کیاکہ اندلس میں لوگ اپنے بال نہیں تراشتے۔نتیجہ یہ کہ مردوں کے بال شانے سے بھی لمبے ہوجاتے تھے اوروہ کان اورآنکھ کوبھی چھپالیتے تھے۔زریاب نے بالوںکوکاٹنے کاایک جدیدرجحان اپنایا۔ اس کی تجویزکردہ تراش کے مطابق کانوں،آنکھوں اورماتھے پر بال نہیں ہوتے تھے۔یہ اپنی جگہ ایک جدت تھی۔اندلس کے تمام لوگ چھوٹے بال رکھنے لگے اورانھوں نے باقاعدگی سے بال کٹوانے شروع کردیے۔

زریاب نے جسم کی صفائی کاایک اچھوتاخیال دیا۔اس وقت تک روزغسل کرنے کاکوئی رواج نہیں تھا۔اکثرلوگ تو کئی کئی ہفتے نہیں نہاتے تھے۔زریاب نے دن میں دووقت یعنی صبح اورشام کانہانے کا طریقہ بنایا۔چنانچہ اکثرلوگ دو وقت نہاناشروع ہوگئے۔اس نے خوشبودارعطربنایاجس کو انسانی جسم پرلگانے سے بدبوختم ہوجاتی تھی۔یہ آج کے زمانے کے پرفیوم کی ابتداء تھی۔

اس نے مردوں کے لیے داڑھی کوشیو(Shave)کرنے کابھی طریقہ کارترتیب دیدیا۔عورتیںاورمرداس وقت ایک خاص عرق سے بال دھوتے تھے اس میں گلاب ملاہوتاتھا۔زریاب نے اس میں نمکیات اورخوشبودارتیل کااضافہ کردیا۔اس کے استعمال سے بال مضبوط ہوجاتے تھے۔یہ آج کے شیمپوکی قدیم شکل تھی۔ اگردیکھاجائے توآج کی تمام فیشن انڈسٹری صرف اُس شخص کی مرہون منت ہے۔

اندلس میں لوگ مشروبات پینے کے لیے دھات کے بنے ہوئے برتن اورگلاس استعمال کرتے تھے۔امیرلوگ سونے چاندی کے برتن استعمال کرتے تھے۔زریاب نے اپنے ہاتھوں سے شیشے کے انتہائی خوبصورت گلاس بنانے شروع کر دیے۔ کرسٹل(Crystal)کے تمام برتن اس شخص کے مرہون منت ہیں۔اس کے بعداس نے دسترخوان پرتوجہ دی۔تمام لوگ سادہ ٹیبل پرکھاناکھاتے تھے۔

بنیادی طورپریہ رومن طریقہ کار تھا۔ زریاب نے دنیاکاپہلامیزپوش بنایا۔یہ کھانے کی جگہ کے اوپر بچھایاجاتاتھا۔ میزپوش کپڑے یاچمڑے کابناہوتاتھا۔پھراس نے برتنوں کی ترتیب بنائی۔کھاناپکانے کے انوکھے اورنئے طریقے متعارف کروائے۔نئے مصالحے اورچندسبزیوں کو پہلی بارکھانے کے طورپراستعمال کیاگیا۔یہاں تک کہ اس نے سوپ کوکھانے سے پہلے پینے کی جدت شروع کی جوآج تک قائم ہے۔اس نے کھانے کے بعدشیرینی(Sweet Dish)کارواج ڈالاجوآج بھی اس طرح موجود ہے۔ (Asparagus)اسپراگس کوکھانے کے لیے استعمال کرنے والا زریاب تھا۔آج بھی مغرب میں اسپراگس ایک مہنگی ترین سبزی کے طورپراستعمال کیاجاتاہے۔لوگوں کوقائل کیاکہ کھانے میں سبزیاں اورپھل زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔

موسیقی میں زریاب کوکمال فن حاصل تھا۔اس وقت گانے اوربجانے کے لیے اندلس میں"عود"نام کاسازاستعمال کیا جاتا تھا۔عودمیں چارتاراستعمال ہوتے تھے۔زریاب نے اس میںایک اور تارکااضافہ کردیا۔کہتاتھاکہ چارتارموسیقی کو ظاہر کرتے ہیں مگرپانچواں تارانسان کی روح کی نمایندگی کرتا ہے۔اس نے عودبجانے کے لیے عقاب کی چونچ استعمال کرنی شروع کردی۔اس سے پہلے عودبجانے کے لیے لکڑی کاایک ٹکڑا استعمال کیاجاتاتھا۔آج گٹاربجانے کے لیے"پلاسٹک کی نوکدار تکون ـ"استعمال ہوتی ہے۔یہ عقاب کی چونچ سے ایک تبدیل شدہ طریق ہے۔زریاب نے اندلس کی پوری موسیقی تبدیل کردی۔اس نے جدیدخطوط پرنئی موسیقی ترتیب دی۔آج بھی اسپین کی موسیقی پرزریاب کے تجربات کی گہری چھاپ ہے۔

زریاب نے گانے کی ایک ترتیب مقررکی کہ کسی بھی محفل میں کونساگاناپہلے گایاجائیگااورکونسااس کے بعد۔یہ ترتیب کو"نوبا" کا نام دیا۔اس نے اندلس میں موسیقی کاپہلا اسکول کھولا۔اس میں موسیقی کے فن کوسیکھنے کے لیے پوری دنیاسے لوگ آتے تھے۔ زریاب اپنے شاگردوں کی تربیت بڑے عجیب طریقے سے کرتا تھا۔ اگرکوئی شاگرد صحیح طرزسے مونہہ کھول کرنہیں گاتا تھا تووہ اس کے منہ میں لکڑی کے ٹکڑے اس طرزسے رکھتاتھاکہ منہ کھلا رہے۔ ان کی کمرپرایک رسی باندھ دیتاتھاتاکہ موسیقی سیکھنے والے ایک مخصوص طریقے سے سانس لیں اوران کی سانس پختہ ہو۔

زریاب کے تجربات نے آج تک کی سماجی دنیا پر بھرپور اثرڈالا۔مگریہ سب کچھ لکھنے کامقصدقطعاًیہ نہیں کہ میں زریاب کے کارناموں کوبیان کروں!اگرآج میں زریاب کوایک ایسی علامت کے طورپرپیش کروں، جواپنے فن اورکام میں یدطولیٰ رکھتاہو توبات سمجھنے میں بالکل آسانی ہوجائے گی۔آپ اپنے اردگردنظرڈالیے!آپ تھوڑی دیرکے لیے فراموش کردیجئے،کہ ہماری ساٹھ سالہ سیاسی قیادت ہمارے ساتھ کیسے کیسے ظلم کرتی رہی۔میراسوال بالکل مختلف ہے۔پوچھناچاہتاہوں کہ مجھے ایک شعبہ بتایے جس میں ہم نے ایسے لوگ پیداکیے ہوں جوپوری دنیامیں ہماری بھرپورپہچان بنے ہوں اورانھوں نے اپناشعبہ مکمل طورپر تبدیل کردیاہو۔میں یہ سوال اپنے ملک کے حوالے سے کررہاہوں۔

آپ سائنس کامیدان دیکھ لیجیے۔ ہم نے پاکستان بننے کے بعدکتنے ایسے سائنسدان پیداکیے ہیں جنہوں نے اپنے ملک سے تعلیم حاصل کی ہواوراس کے بعدایسی ایسی ایجادات کی ہوںکہ پوری دنیامیں ان کے کام کی دھوم مچ گئی ہو۔ایک بھی ایسامقامی سائنسدان نہیں ہے۔لے دیکر،صرف ایک ڈاکٹرعبدالسلام ،جولندن کے بہترین کالج میں پڑھے اوران کی تمام تحقیق مغربی اداروں میں شروع ہوئی اوروہیں ختم ہوگئی۔ہم نے خیرڈاکٹرعبدالسلام کوبھی ان کے مذہبی رجحان کی بدولت حکومتی سطح پرنفرت اورتحقیرکانشانہ بنایا۔

آپ کھیلوں کے میدان کی طرف آئیے۔جسمانی طور پرمشکل کھیلوں میں ہم ویسے ہی بالکل فارغ ہیں۔آئس ہاکی، (Ice Hocky)تیراکی،رگبی،فٹ بال،باسکٹ بال،مجھے کوئی ایسی مشکل گیم بتائیے،جس میں ہماراکوئی درخشاں ستارہ ہو۔آپ کارریس کی طرف جائیے۔یہ دنیامیں خطرناک کھیلوں میں شمارکیجاتی ہے۔مجھے60 برس میں ایک ایسانام بتائیے جس نے کارریس میں تمام لوگوں کوچت کردیاہو۔آپ ہمارے فیشن ڈیزائنرکودیکھ لیجیے،یہ مغرب میں مروجہ قیمتی اور جدیدلباس بنانے کی دوڑمیں کہیں شامل نہیں۔آپ میڈیسن کے میدان میں جھانکیے۔

ایک ایساڈاکٹربتائیے جوہمارے ملک میں کام کررہاہواوراس نے اپنے شعبہ میں انقلاب برپا کردیاہو۔آج سے آٹھ سوسال پہلے ایک سیاہ فام کرد نے دنیا تبدیل کردی۔ہم ہروقت اپنے سیاسی نظام اورقائدین کوسخت ناموں سے پکارتے رہتے ہیں۔مگرسچ یہ ہے کہ ہماراہرشعبہ بدترین انحطاط کاشکارہے۔ہم کسی ایک بھی شعبہ میں ابوالحسن جیساایک بندہ پیدانھیں کرسکے۔مجھے توایسے لگتاہے کہ ہمارا زریاب شائدمستقل طورپر کھو چکا ہے۔ مجھے اپنے ملک کے ہرشعبہ میں زریاب کی کمی کاشدت سے احساس ہوتاہے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں