تم دوسرا مہدی حسن کہاں سے لاؤ گے
کراچی سے لے کر لاہور کی فلم انڈسٹری تک بے شمار ملاقاتیں رہی ہیں
KARACHI:
یہ لکھتے ہوئے اور سوچتے ہوئے دل دکھ کے دریا میں ڈوب گیا ہے کہ سروں کے شہنشاہ غزل کی آبرو اور مدھر آواز کے مالک مہدی حسن کو ہم سے بچھڑے ہوئے اب تین برس بیت گئے ہیں۔ مہدی حسن دنیائے موسیقی میں سروں کے جو پھول کھلا کر گئے ہیں ان کی خوشبو لاکھوں دلوں کو برسوں تک مہکاتی اور لبھاتی رہے گی، اس دنیا سے جانا تو ہر انسان کا مقدر ہے:
جو ایک بار چلا جائے بزمِ دنیا سے
پھر اس جہان میں وہ شخص بازیاب نہیں
برصغیرکی نامور گلوکارہ ملکہ ترنم نور جہاں نے سچ ہی کہا ہے کہ جو سروں میں ڈوبے ہوئے لوگ ہوتے ہیں ان کے آباؤاجداد نے کبھی ضرور موتی دان کیے ہوتے ہیں، مہدی حسن کے بزرگوں نے بھی ضرور ایسا کیا ہوگا جبھی تو ان کے خاندان میں مہدی حسن جیسی آواز نے جنم لیا تھا۔ ہندوستان میں سروں کی دیوی کی طرح پوجا کی جانے والی طلسماتی آواز کی مالک لتا منگیشکر نے مہدی حسن کے بارے میں یہ کہہ کرکہ مہدی حسن کے گلے سے بھگوان بولتے ہیں موسیقی کی دنیا میں ایک تاریخ رقم کی تھی اگر مہدی حسن ہندوستان ہی کے باسی ہوتے تو وہاں موسیقی کے مندر بناکر ان کی مورتیاں رکھ دی جاتیں نام ور شاعر فیض احمد فیض کی
ایک غزل:
گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤکہ گلشن کا کاروبار چلے
جب مہدی حسن کی جادو بھری آواز کی بدولت خواص سے عوام تک پہنچی اور جب فیض کی اس خوبصورت غزل کو گھر گھر سنا جانے لگا اور لاکھوں لوگ اس غزل کے سحر میں ڈوبے چلے گئے تو فیض صاحب نے ایک محفل میں اپنی اس غزل سے دست بردار ہوتے ہوئے کہا تھا۔ یارو! میری یہ غزل اب میری کہاں رہی ہے یہ غزل تو اب مہا گائیک مہدی حسن کی ملکیت ہوچکی ہے۔
اسی طرح جب مہدی حسن نے احمد فراز کی غزل:
رنجش ہی سہی' دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
گائی اور اس غزل کو اپنی آواز کے سروں سے سجایا تو اس غزل کا پیکر ہی بدل گیا تھا اور احمد فراز جس مشاعرے میں بھی شرکت کرتے تو سامعین جب اس غزل کی فرمائش کرتے تھے تو احمد فراز کہتے تھے اب اس غزل کو میری آواز کی ضرورت نہیں رہی ہے۔
احمد فراز کو ہندوستان بہت بلایا جاتا تھا۔ ہندوستان میں ایک مشاعرے کی محفل میں شعر و ادب کے شیدائی انھیں گھیرے ہوئے تھے تو اسی دوران ایک نوجوان پرستار نے احمد فراز سے کہا تھا : ''فراز جی! کبھی کبھی توجہ ہندوستان کی طرف بھی دیں۔رنجش ہی سہی جیسی ایک غزل ہمارے ہندوستان کے کسی فنکار کے لیے بھی لکھ کر دیجیے ناں۔ '' تو احمد فراز نے بڑے بے باک انداز میں مسکراتے ہوئے اس نوجوان سے کہا تھا۔ ''یارو! میں ایسی ایک غزل تو کیا دس غزلیں لکھ کر تمہیں دے دوں گا مگر تم دوسرا مہدی حسن کہاں سے لاؤگے جو وہ گا سکے گا۔'' کسی گائیک کے لیے ایسا خراج تحسین موسیقی کی دنیا میں کبھی کسی کو نصیب نہیں ہوا ہوتا۔ ایک بار میں نے بھی مہدی حسن کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے چند اشعار کہے تھے۔ اپنی یادیں شیئر کرتے ہوئے وہ بھی قارئین کی نذر کرتا ہوں:
سروں کی کہکشاں مہدی حسن تھے
سروں کا آسماں مہدی حسن تھے
عجب جادو بھری آواز ان کی
وہ دیپک داستاں مہدی حسن تھے
شہنشاہ غزل جن کا لقب تھا
سروں کا اک جہاں مہدی حسن تھے
یہ میری خوش قسمتی رہی ہے کہ میں مہدی حسن سے قریب رہا ہوں،کراچی سے لے کر لاہور کی فلم انڈسٹری تک بے شمار ملاقاتیں رہی ہیں، انھیں عوامی محفلوں کے علاوہ خاص محفلوں میں بھی سنا ہے۔
مہدی حسن نے میرے گیت گا کر مجھے ایک اعزاز بھی بخشا ہے۔ میں نے جب اپنا پہلا گیت کراچی کی فلم ''آجا کہیں دور چلیں'' کے لیے لکھا تھا جس کے بول تھے ''لے کے چلے ہو مورا پیار گوری '' تو اس گیت کو مہدی حسن کی جادو بھری آواز ملی تھی پھر جب میں لاہور کی فلمی دنیا سے وابستہ ہوا اور لاہور میں فلمساز ہدایت کار و اداکار رنگیلا کی فلم کے لیے اپنا پہلا نغمہ لکھا جسے فلم ''صبح کا تارا'' کے لیے عکس بند کیا گیا وہ بھی مہدی حسن ہی کی مدھر آواز کا مرہون منت تھا اور پھر جب اداکارہ و ہدایت کارہ سنگیتا نے ندیم کے ساتھ فلم ''عشق عشق'' کا آغاز کیا اور مجھ سے ایک منفرد گیت لکھوایا جس کے بول تھے:
نیناں رے نیناں تم ہی برے تم سے برا نہ کوئے
آپ ہی پریت لگائے رے پگلے آپ ہی بیٹھا روئے
تو ایک بار پھر میرے اس گیت کے لیے شہنشاہ غزل مہدی حسن کا انتخاب کیا گیا اور میرے اس گیت نے شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا تھا پھر اس گیت کے مکھڑے کو ہندوستان کے موسیقار اور گلوکار ہمیش ریشمیا نے اپنی فلم ''عشق ڈینجرس'' میں ہو بہو کاپی بھی کیا اور خود گایا مگر وہ صحیح طور پر گا نہ سکا اور وہ خود بھی شرمندہ ہوا اور اس کی فلم بھی بری طرح فلاپ ہوگئی تھی جب کہ فلم ''عشق عشق'' میں مہدی حسن کا گایا ہوا گیت آج بھی کلاسک ہٹ اور امر گیتوں میں شامل ہے۔
اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ جب نیپال کے بادشاہ نے گلوکار مہدی حسن کو پہلی بار اپنے ملک میں مدعو کیا تھا تو غزل کے شہنشاہ کی شان بڑھانے کے لیے انھیں 21 توپوں کی باقاعدہ سلامی دی گئی تھی اور ایسا اعزاز آج تک دنیا میں کسی بھی گلوکار کو حاصل نہیں ہوا ہے۔ یہاں میں ایک دلچسپ بات اور بیان کرتا چلوں ملکہ ترنم نور جہاں نے پہلی بار مہدی حسن کو ایک پان کی دکان پر ریڈیو کے ذریعے سنا تھا۔ میڈم نور جہاں اکثر رات کو پان کھانے کی غرض سے لاہور گلبرگ کی ایک مشہور پان کی دکان پر جاتی تھیں جہاں بڑے بڑے فنکار آکر پان کھاتے اور یہاں سے پان بندھوا کر لے جاتے تھے ایک دن میڈم نور جہاں مشہور کلاسیکل اور غزل سنگر اعجاز حضروی کے ساتھ اسی دکان سے پان لے رہی تھیں کہ دکان پر رکھے ہوئے ٹرانسسٹر ریڈیو سے ایک غزل نشر ہو رہی تھی جس کا مطلع تھا:
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
میڈم یہ آواز سن کر چند لمحوں کے لیے ساکت ہوگئیں پھر چپ چاپ گاڑی میں بیٹھی سنتی رہیں۔ جب غزل ختم ہوئی تو اناؤنسر نے کہا ابھی آپ نے میر تقی میر کی غزل گلوکار مہدی حسن کی آواز میں سنی تب میڈم نے گاڑی آگے بڑھاتے ہوئے اعجاز حضروی سے کہا تھا معلوم تو کرنا اعجاز یہ کہاں ہوتا ہے غزل گائیک؟ اس کی آواز نے تو ہمارے دل کے تار چھیڑ دیے ہیں۔جب مہدی حسن کراچی سے لاہور گئے اور وہاں لاہور ریڈیو کے لیے کچھ غزلوں کی ریکارڈنگ کرائی تو میڈم تک بات پہنچی اور پھر میڈم نے مہدی حسن کو اپنے گھر بلایا اور ان کی آواز کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔
بھئی آپ تو واقعی آواز کے جادوگر ہو اور پھر یہ ملاقاتوں کے سلسلے بڑھتے چلے گئے اور جب مہدی حسن فلموں کے لیے گانے لگے تو میڈم نور جہاں کے ساتھ بھی بڑے خوبصورت ڈوئیٹ گائے جو موسیقی کا بیش بہا خزانہ ہیں۔ مہدی حسن کی آواز کی خوبی یہ ہے کہ ان کا ہر گیت دلنشیں اور ہر غزل دھڑکنوں کا حصہ بن جاتی ہے۔ میری ان سے آخری ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب وہ شدید بیمار ہوئے تھے۔ میں کراچی گلبرگ میں واقع ان کے گھر ملنے گیا تھا۔ ان کی بلڈنگ کی تیسری منزل پر ان کی ایک چھوٹی سی بیٹھک تھی وہ اپنے بیڈ روم سے دیوار پکڑ پکڑ کر اپنی بیٹھک والے کمرے میں آئے تھے۔ ان کا چہیتا اور خاص میوزیشن محمد حسین ان کے ساتھ تھا۔
کمرے میں سفید چاندنی بچھی ہوئی اور چھوٹے چھوٹے گاؤ تکیے بھی رکھے ہوئے تھے وہ دھیمے دھیمے لہجے میں گفتگو کر رہے تھے۔ اسی دوران چائے آگئی، ہم نے چائے پی پھر مہدی حسن نے اپنے چھوٹے سے خوبصورت پاندان سے دو پان اپنے ہاتھوں سے بنائے ایک خود کھایا اور ایک پان مجھے دیتے ہوئے کہنے لگے۔ تھوڑی سی خوشبو چلے گی، میں سگریٹ اور تمباکو سے دور تھا۔ میں ذرا جھجکا تو کہنے لگے ہمدم میاں! پان کی اس خوشبو کا مزا ہی کچھ اور ہے۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا تھا مہدی بھائی تو پھر ہلکی سی خوشبو چلے گی ، پھر انھوں نے پان پر ہلکا سا خوشبودار قوام لگایا اور میں نے بھی ان کا دیا ہوا پان کھایا۔ اس پان کی خوشبو اور لذت آج بھی میرے ذہن میں محفوظ ہے۔ اللہ ان پر اپنی رحمتیں نچھاور کرے۔