دعا ہے کہ
پانی کا مسئلہ بڑھتا جارہاہے، کراچی تک پہنچ گیا اور کراچی سے کہا جارہاہے کہ خاموش رہو شور نہ کرو،
جس طرح منفی خبریں فائل کرنے کا رواج ہے، اسی طرح منفی کالم لکھنے کا بھی رواج ہے اور یہ جہاں جہاں صحافت ہے وہاں ہوسکتا ہے۔ ہوسکتا اس لیے کہا کہ دنیا کے نقشے پر کچھ ایسے ملک بھی ہیں جہاں یہ نہیں ہوسکتا جہاں اس قسم کے ''زیر زمین صحافت'' پر آپ موجب سزا بھی ہوسکتے ہیں۔ٹریفک کے قوانین کی دانستہ یا نادانستہ پابندی نہ کرنے پر وزیر اعظم کو بھی چالان نہیں بھرنی پڑتی ہے،کہیں زیر زمین ریلوے میں ملک کا وزیراعظم کھڑے ہوکر بھی سفر کرسکتا ہے کیوں کہ سیٹ موجود نہیں ہے اور نہ کوئی اسے سیٹ آفرکرے گا نہ وہ قبول کرے گا کہ کوئی اور کھڑا ہوجائے اور وہ اس کی سیٹ پر بیٹھ کر سفرکرے۔
ایسے مواقعے پر ایک عام فقرہ کثرت سے سننے کو ملتا ہے۔''یہ ہمارے دین کی تعلیمات ہیں غیروں نے لے لیں'' یہ فقرہ بذات خود ہماری شکست کا ایک واضح اعلان ہے اور یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ شکست ہمیشہ اندر سے ہوتی ہے، ٹوٹ پھوٹ کا عمل جسم کے اندر ہوتا ہے اور قوم ایک جسم کی مانند ہے،دراصل ملک کی حالت دیکھ کر جس کے ایک شہر میں خود بھی رہتا ہوں، دل خون کے آنسو روتا ہے ملک کا مقصد ہے 'سارا ملک' اور 'شہر' کا مطلب ہے 'سارے شہر' مگر ہمارے یہاں ملک کا مطلب ہے پاسپورٹ پر میرا ملک اور شہر کا مطلب ہے ''صرف میرا شہر''۔
پانی کا مسئلہ بڑھتا جارہاہے، کراچی تک پہنچ گیا اور کراچی سے کہا جارہاہے کہ خاموش رہو شور نہ کرو، لاہور کی نیند میں یا اسلام آباد کے خواب خرگوش میں خلل پڑتا ہے، میٹروبس کی رفتار کم ہوجائے گی اگر تم نے شورکیا، بس کماتے رہو، ہمیں دیتے رہو دیکھو ہم لاہور اور اسلام آباد میں پاکستان بنارہے ہیں شاید یہ لفظ برے لگیں لوگوں کو مگر ان شہروں کے نام حکومت کی توجہ کے لیے لکھے گئے ہیں عوام سے کوئی تعلق نہیں کیوں کہ عوام تو عوام ہی ہیں چاہے کہیں آرام سے ہوں یا تکلیف میں، تکلیف میں تو وہاڑی کے عوام بھی ہوں گے نا؟ وہاں تو موٹر وے، میٹرو اور نہ جانے کیا کچھ ''بھوکوں کے خواب'' نہیں ہیں۔ تو کراچی کی جگہ ''وہاڑی'' لکھ دیتے ہیں اگر لوگوں کو کوئی اعتراض ہو تو۔
جس نے بھی جو کیا عوام کے خلاف اسے ہمارے ''زیرک'' کالم نگاروں اور نامہ نگاروں نے بہت خوبصورتی سے لکھا اور عوام کو کیک کھانے کی نوید سنائی اور جہاں کے لیے لکھا وہاں سے داد پائی۔ داد کی شکل کیا رہی، وہ شاعر تھوڑی ہیں جو واہ واہ پر خوش ہوجائیں گے۔ جناب اب تو شاعر بھی کوئی مجھ جیسا ہی واہ واہ سے خوش ہوسکتا ہے۔ اب تو دوسرے شعرا کو واہ واہ میں بھی Encashment کے اشارے مل جاتے ہیں، تب بھی وہ دوسرا شعر ''دل'' لگاکر پڑھتے ہیں، کراچی کا نوحہ تو ایک طویل کہانی ہے، جو آیا اس نے کراچی کو ہی ''ہدف'' بنایا ''آپریشن'' یا ''کو آپریشن'' گویا کراچی کے علاوہ ملک میں جرائم کہیں نہیں ہورہے اور لوگ رات کو دروازے کھول کر چین کی نیند سوتے ہیں۔
کراچی ایک کثیر القومی آبادی کا شہر بن چکا ہے اور یہ خود بخود بن گیا ہے، حکومتوں کا اس میں نے کوئی عمل دخل ہے نہ دلچسپی، کراچی کا حال تو رات بھر گانے والی خاتون کا ہے جس کی کمائی پر سارا گھرانہ پلتا ہے اور پھر بھی اس کی کوئی عزت نہیں ہے، نہ ''وفاقیوں'' کی نظر میں نہ ''صوبائیوں'' کی نظر میں یہ وہی دم دلاسے ہیں جو اس کو ملتے ہیں جس طرح رات کے تماشبین اور سننے والے ''دھن'' میں کر جاتے ہیں اور صبح فراموش ''رات گئی بات گئی'' اور ایک کراچی کا ہی کیا، سندھ کے تو تمام شہر اب نالیوں کے پانی میں ڈوب رہے ہیں، شاید یہ خود ''ڈوب مرنے کا سبق سیکھ رہے ہیں، ہے بھی ٹھیک جب یہاں کے نام نہاد ''عوامی نمایندے'' کیونکہ الیکشن کے معاملات تو آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔
دیگ میں سے چند چاول تو باہر آچکے ہیں اور آپ نے دیکھ لیا کہ ''کچے ہیں'' تو یہ نمایندے اسمبلی میں جاکر بھی صرف اس خیال کو پیش نظر رکھے ہوئے ہیں۔ لوگوں کے مطابق کہ کیا خرچ ہوا الیکشن میں،کتنا فایندہ ہوگا اس سیٹ کو جیتنے کے بعد وغیرہ وغیرہ تو عوام تو اس میں سے ''نفی'' ہوگئے، وہ اپنا اہم فریضہ ''ووٹ دینا'' ادا کررہے ہیں اور اب ''ادا'' کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
میں بھی چاہتاہوں کہ گل و بلبل کی باتیں لکھوں، تاریخ کے اوراق کھنگالوں، کوئی زبردست مضمون لکھ دوں پرکیا کروں کہ مجھ سمیت ان ننگے بھوکوں کا اس تاریخ سے کیا تعلق جو ہندو مسلمان کے ساتھ ایک سلوک کرتی تھی جو اقلیتوں کو اپنوں سے زیادہ قریب رکھتی تھی جس کے راج کی اقلیتیں دعائیں مانگا کرتی تھیں، یہ اس برصغیر کی بات کررہاہوں جس کے اب تک تین ٹکڑے ہوچکے ہیں، روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ اجتماعی طور پر جوکچھ ہوا وہ اس برصغیر کے ان تین ٹکڑوں میں روزانہ کچھ نہ کچھ لوگوں کے ساتھ ہوتا رہتا ہے۔
اپنا دامن اٹھاکر بھی دیکھنا چاہیے دوسروں کے دامن پر داغ تلاش کرنے سے پہلے۔ بہت کچھ کہناہے، کہتا رہوںگا، آپ سے اور اپنے آپ سے وعدہ ہے جو بہرصورت وفا کروںگا دو خبریں دیکھ لیجیے تاکہ میری بات کا آپ کو ایک اور رخ سے اندازہ ہوسکے۔ امریکا میں جہاں تقریباً 30 فیصد کسان 65 سال کی عمر سے زیادہ کے لوگ ہیں اور صرف دس فیصد 35 سال سے کم عمر کے لگتے ہیں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کاشتکاری کی طرف راغب کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔
امریکی کانگریس میں ایک بل پیش کیا جانے والا ہے جس کے مطابق وہ طلبا جو دس سال کسانوں کی زندگی گزارینگے اور انھوں نے اس دوران اپنے قرضوں کی ادائیگی کی ہوگی ان کا باقی قرضہ معاف کردیاجائے گا اس کے تحت Public Service Loan Forgiveness اسکیم میں کسانوں کو بھی شامل کیا جارہاہے (ہمارے ملک میں جن لوگوں کے قرضے بینکوں نے آج تک معاف کردیے ہیں وہ سارے ''کسان'' ہی تو ہیں) دوسری خبر ملاحظہ کیجیے نہری پانی کی شدید قلت ہزاروں ایکڑ رقبے پر فصلیں تباہ، نہروں کے آخری حصے TAIL کے آبادگاروں کا مظاہرہ، دھرنا، آبپاشی حکام پر با اثر زمینداروں کو پانی بیچنے کا الزام، کارروائی کا مطالبہ، جام صاحب ڈسٹری میں ریت اڑنے لگی، جام صاحب بھی پاکستان کا ایک علاقہ ہے مگر یہ تو صرف ایک نام ہے، پاکستان کے ہر زرعی علاقے کا یہی حال ہے چاہے وہ کسی صوبے میں ہو۔
''حرام'' نے حلال کو موت کی نیند سلادیا ہے اور سلسلہ یہاں سے چل کر ایوانوں تک پہنچتا ہے کیونکہ ایوانوں میں وہی بیٹھے ہیں جن کے حکم پر نہروں کے آخری حصوں کے لوگوں پر پانی بند کردیا گیا ہے۔ عجیب قوم ہے ہماری، خدا کے کاموں میں بھی دخل دیتی ہے، پانی خدا کا اور اسے بیچ رہے ہیں بندے خدا کے، اگر ان کے ہاتھ ''جنت'' بھی لگ جائے تو یہ اس کا بھی سودا کردیں۔ پروردگار نے اسی لیے اس کے حصول کے وہ قوانین بنائے ہیں کہ وہاں تک ان ''پانی چوروں'' اور ''پانی فروشوں'' کے ہاتھ نہیں پہنچ سکتے۔
امریکا جس نے آپ کو زرعی ٹیکنالوجی دی ہے وہ اپنے یہاں کاشتکاری پر لوگوں کو آمادہ کررہاہے ہم اپنے کاشتکاروں کو ''بھکاری'' بنارہے ہیں، ہر طرح کا ٹیکس کھاد پر، پانی پر، طاقتوروں کا قبضہ اور خدا کا کرم دیکھیے کہ گندم پھر بھی کوٹری کے ذخیرے میں خراب ہورہی ہے آج تک بارش اور موسم سے بچانے کے انتظامات نہ کیے جاسکے، یہ انتظار کررہے ہیں شاید اس آواز کا جسے سن کر قبروں سے مردے نکل کر میدان حشر کی طرف چل پڑیں گے، یہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ اس وقت زندہ ہوں گے اور کچھ ''دے دلاکر'' گلو خلاصی کرالیں گے۔
کتنے سونے ہیں یہ لوگ۔ یا کتنے چالاک، فیصلہ آپ کرلیجیے ملک کا انجام کیا ہوگا ان کرتوتوں سے یہ بھی آپ دیکھ لیجیے میرے مخاطب تو آپ ہیں اور آپ سے ہی میں اپنی اور آپ کی باتیں کرتا ہوں نہ ایوانوں سے میرا کوئی تعلق نہ حکمرانوں سے میری کوئی دشمنی، جو حال دل ہے وہ پیش کرتا ہے دل والے میں آپ تو بات آپ کے دل کو بھی لگے گی۔
میں دعا پر بات ختم کرنے کا قائل ضرور ہوں اس پر ایمان بھی رکھتا ہوں مگر میں نے عقل و شعور کے دروازے بند نہیں کر رکھے، آپ کی طرح میں بھی جانتاہوں کہ دعا عمل کے بعد کار گر ہوتی ہے تو یہ دعا کرسکتا ہوں کہ اﷲ ہمارے دل کے دروازے کھول دے۔ وہ مہر جو لگ گئی ہے اسے ختم کردے، نور بھر دے دلوں میں اور قوم بے تعصبی کے ساتھ، رو رعایت سے ہٹ کر سب کے لیے ترقی کرے اور یہ عقل و شعور اور روشنی خدا قوم راہنمائوں کو قوم کے حق میں عطا کرے کہ وہی دلوں کو پلٹنے والا ہے، وہی رات سے دل کو نکالتا ہے، مولا کریم پاکستان کی رات میں سے پاکستان کا دن طلوع کردے۔ (آمین)