کراچی میں گرمی کی بدترین لہر کے باعث شہر میں مصنوعی بارش کرانے پر غور

2 سے 4 ہزار فٹ کی بلندی پر موجود بادلوں پر سوڈیم کلورائیڈ کا اسپرے کرنے پر مصنوعی بارش ہوتی ہے، ماہرین


سہیل یوسف June 23, 2015
مصنوعی بارش کے لیے بادلوں کا مخصوص تعداد میں ہونا بھی ضروری ہے، ماہرین، فوٹو:فائل

شہر میں گرمی کی حالیہ بدترین لہر اور اس کے نتیجے میں ہلاکتوں کے بعد ماہرین نے گرمی کا زور توڑنے کے لیے مصنوعی بارش کرانے پر غور شروع کردیا ہے تاہم اس حوالے سے ماہرین مختلف رائے بھی رکھتے ہیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی میں گرمی کی بدترین لہر کو ختم کرنے کے لیے ڈی جی پورٹس اینڈ شپنگ کے دفتر میں اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں محکمہ موسمیات، پلانٹ پروڈکشن ڈپارٹمنٹ، بلدیہ عظمیٰ کراچی اور تاجربرادری سمیت ضلعی انتظامیہ کے نمائندگان شریک ہوئے۔ اجلاس میں کراچی میں گرمی کی لہر کو ختم کرنے کے لیے مصنوعی بارش کرانے پر غور کیا گیا۔

اجلاس میں شریک مصنوعی بارش کے ماہر طیب آرائیں نے بتایا کہ 2 سے 4 ہزار فٹ کی بلندی پر موجود بادلوں پر سوڈیم کلورائیڈ کا اسپرے کیا جاتا ہے جس کے تقریباً 3 گھنٹے بعد بارش ہوتی ہے لیکن اس کے لیے بادلوں کا مخصوص تعداد میں ہونا بھی ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مصنوعی بارش کے لیے پلانٹ پروڈکشن ڈپارٹمنٹ اور آرمی ایوی ایشن کے طیارے اسپرے کے لیے طیارے ہوں گے۔ طیب آرائیں نے کہا کہ سندھ میں سنہ 2000 میں تھر کے علاقے میں مصنوعی بارش کا کامیاب تجربہ کیا جاچکا ہے۔

مصنوعی بارش ، کیوں اور کیسے؟

مصنوعی طور پر بادلوں سے بارش برسانے کا عمل ک لاؤڈ سیڈنگ کہلاتا ہے جسے ''بادل بیجنا'' بھی کہا جاسکتا ہے، امریکا، یورپ اور چین وغیرہ میں اس کے کئی تجربات کیے گئے ہیں جس کے ملے جلے نتائج برآمد ہوئے۔ مصنوعی بارش کے لیے ہوائی جہاز کے ذریعے بادلوں کے اوپری حصے پر خشک برف، سلور آئیوڈائیڈ اور دیگر کیمیکل چھڑکے جاتے ہیں جو بادلوں میں برفیلے کرسٹلز بناتے اور بادلوں کو بھاری کردیتے اور اس طرح بارش ہونے لگتی ہے جب کہ اس کے علاوہ بادلوں کو زمین سے رہتے ہوئے بھی بیجا جاسکتا ہے لیکن ان دونوں طریقوں کے لیے بہت زیادہ مہارت، رقم اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوتی ہے۔

محمکہ موسمیات کراچی سے وابستہ ڈائریکٹر سردار سرفراز نے ایکسپریس ویب سائٹ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مصنوعی طریقوں سے برسات کا عمل بہت مہنگا ہوتا ہے اور اس کے لیے ایک باقاعدہ منصوبہ بہت ضروری ہے جب کہ اس سے قبل سندھ میں بادل بیجنے کے تجربات اتنے کامیاب بھی نہیں ہوئے تھے۔

سندھ اور کراچی میں گرمی کا زور:

کراچی میں گرمی کی حالیہ لہر پر سردار سرفراز نے کہا کہ گزشتہ پانچ دنوں سے سمندری ہوارکی رہی اور اسی وجہ سے کراچی میں شدید گرمی اور گھٹن پیدا ہوئی لیکن اب صورتحال بہتر ہورہی ہے اور سمندری ہوا شہری علاقوں کی جانب چلنا شروع ہوگئی ہے جس سے آج رات تک موسم میں مزید بہتری پیدا ہوگی۔ انہوں نے اس صورتحال کو بے قاعدہ موسمیاتی عمل قرار دیا۔

دوسری جانب اقوامِ متحدہ کے تحت عالی موسمیاتی تنظیم کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی مشیر اور موسمیاتی تبدیلیوں کے عالمی ماہر ڈاکٹر قمرالزماں چوہدری نے ایکسپریس ویب سائٹ کو بتایا کہ کئی حوالوں سے سال 2015 کو انسانی تاریخ کا گرم ترین سال قرار دیا جارہا ہے جب کہ ابھی مزید 6 ماہ باقی ہیں۔ انہوں نے کراچی اور سندھ میں گرمی کی شدت کو بے قاعدہ موسم کا ایک واقعہ قرار دیا اور خدشہ ظاہر کیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ایسے واقعات مزید بڑھتے جائیں گے۔ ڈاکٹر قمرالزماں کا کہنا تھا کہ کراچی میں مصنوعی بارش کے لیے بادلوں کا ہونا ضروری ہے اور حکومت اگر ایسا کرنا چاہتی ہے تو اسے آزمانے میں کوئی حرج نہیں۔

واضح رہے کہ 2000 میں سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں تھر کے بعض علاقوں میں بادلوں کو مصنوعی ذرائع سے سرگرم کرنےاور بارش برسانےکے کچھ تجربات کیے گئے تھے اور انہی کی بنیاد پر حکومتِ سندھ نے اس بار مصنوعی ذرائع سے بارش برسانے پر غور شروع کردیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔