پاکستانی قوم کا مزاج جمہوری نہیں
جنرل ایوب خان کے دور میں صدارتی انتخابات کے وقت کراچی میں ان کے بیٹے گوہر ایوب خان کے جلوس کے بعد فوج طلب کی گئی
جنرل ایوب خان کے دور میں صدارتی انتخابات کے وقت کراچی میں ان کے بیٹے گوہر ایوب خان کے جلوس کے بعد فوج طلب کی گئی تھی، ذوالفقار علی بھٹو نے جن تین شہروں میں مارشل لاء لگایا ان میں کراچی بھی شامل تھا اور پھر بے نظیر بھٹو کے علاوہ نواز شریف کے دور میں جنرل آصف نواز کا فوجی آپریشن تو آج کے کراچی کی نئی نسل کے ذہنوں میں زندہ ہے۔
مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ اور حروں کے روحانی پیشوا پیر صاحب پگارا نے کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ 10 جولائی2011ء کو کیا۔ کنگری ہائوس میں وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک سے ملاقات کے بعد پیر صاحب پگاڑا نے کہا تھا کہ کراچی کے حالات اتنے زیادہ خراب ہو چکے ہیں کہ گھر سے روزی کمانے تکلنے والے مزدور کو یقین نہیں کہ وہ شام کو زندہ واپس جائے گا یا نہیں، لہذا ایسی صورتحال میں ان کی خواہش ہے کہ شہر میں فوج کو طلب کیا جائے۔''
20 اگست2011ء کو بھی تاجر تنظیموں کی جانب سے کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے ترجمان ایس ایم منیر نے کہا تھا کہ کراچی کے حالات بظاہر مقامی انتظامیہ کے ہاتھوں سے نکل گئے ہیں، شہریوں، تاجروں اور صنعت کاروں کی جان و مال کے تحفظ اور شہر میں قیام امن کے لیے فوج کو طلب کرنا لازمی ہو گیا ہے۔
ایسوسی ایشن کے چیئرمین سید جوہر علی قندھاری کا کہنا تھا کہ ملک کے مفاد اور شہریوں کی قیمتی جانوں کو بچانے کے لیے ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ کراچی کا کنٹرول فوج کے حوالے کیا جائے، جو امن کے قائم ہونے تک اپنی خدمات سر انجام دیتی رہی ہے۔
سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین اور قومی اسمبلی کے رکن صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم نے کراچی کی المناک صورتحال پر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو تفصیلی خط لکھا تھا کہ ''کراچی میں جاری خونریزی خطرے کی حدوں کو چھونے لگی ہے، اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ کراچی کو ایک ماہ کے لیے فوج کے حوالے کر دیا جائے۔'' آل تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر نے وائس آف امریکا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ شہر میں روزانہ 3 ارب سے زائد کی یومیہ تجارت ہوتی ہے، جس میں اب80 فیصد کمی آ چکی ہے۔''
یہاں یہ بات اہم ہے کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی جانب سے کراچی میں امن کے لیے دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج سے کارروائی کی اپیل بھی کر چکے تھے۔4 اگست2011ء کو الطاف حسین نے کراچی میں قیام امن کے لیے حکومت کو 48 گھنٹے کا نوٹس دیتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ کراچی میں قتل و غارت بند کرائے، انھوں نے فوج سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کراچی آئے اور سب کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کرے۔''
21 اگست 2011ء کو بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے مختلف سیاسی و تجارتی تنظیموں کی جانب سے کراچی میں فوج طلب کرنے کے جواب میں کہا کہ حکومت نے کراچی میں فوج طلب کی تو فوج تیار ہے۔
جنرل کیانی کا کہنا تھا کہ کراچی پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے اور وہاں پر صورتحال کا زیادہ عرصہ تک خراب رہنا مناسب نہیں ہے کہ کراچی میں بے گناہ لوگ موت کا شکار کیے جا رہے ہیں، جنرل کیانی کے ساتھ گفتگو کے موقعے پر اُس وقت کے چیئرمین سینیٹ فاروق نائیک، ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل اطہر عباس بھی موجود تھے۔ 25 اگست 2011ء کو وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا تھا کہ ''میڈیا کراچی میں فوج کو آنے کے لیے اکسا رہا ہے۔'' شہر کراچی میں فوج طلب کرنے کے ایم کیو ایم یہ مطالبے4 اگست 2011ء اور دوبارہ26 اگست 2013ء کوکر چکی ہے ۔
مئی2013ء کے انتخابات میں طالبان کی جانب سے جب ایم کیو ایم، اے این پی کے دفاتر اور انتخابی جلسوں کو نشانہ بنایا جا رہا تھا تو ان پے درپے واقعات نے کراچی تا خیبر پختونخوا تک عوام کو خوفزدہ کر دیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ متاثرہ علاقوں میں انتخابات فوج کی نگرانی میں کرانے کا مطالبہ شدت پکڑ گیا تھا۔
ضمنی انتخابات فوج کی نگرانی میں کرائے گئے تو شدت پسندوں کی جانب سے دھمکیوں اور کارروائیوں کے بعد پہلی بار پاکستان ریلوے کی جانب سے کراچی کینٹ اسٹیشن سے لاہور آنے والی شالیمار ایکسپریس میں چٹیا نہر والے اسٹیشن کے قریب بم دہماکے کے بعد کراچی ریلوے اسٹیشن پر سیکیورٹی کے لیے فوج کی مدد طلب کی گئی۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن نے کراچی میں ووٹر لسٹ کی گھر گھر تصدیق کے لیے فوج کی مدد حاصل کی۔
حالیہ ضمنی انتخابات فوج کی نگرانی میں ہوئے۔ 2 فروری 2013ء کو اے این پی کے سینئر نائب صدر سینیٹر حاجی عدیل نے پارلیمنٹ ہائوس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے کہا تھا کہ اے این پی کا تین سال سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ کراچی میں امن و امان کے لیے فوج طلب کر کے آپریشن کیا جائے۔'' اے این پی کے شہید رہنما بشیر بلور بھی کہہ چکے تھے کہ ''صوبائی حکومت امن قائم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے اس لیے کراچی میں فوج طلب کی جائے۔''
حالانکہ اُس وقت اے این پی سندھ و فاق کے علاوہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پی پی پی کی اتحادی جماعت اور ان کا ایک وزیر سندھ حکومت میں شامل تھا اور اے این پی سندھ کی صوبائی قیادت کا ''ترانہ'' ہی کراچی میں فوج کو طلب کرنے سے شروع ہوتا تھا۔
پی پی پی نے اسے جمہوریت کے منہ پر طمانچہ قرار دیا ہے جب کہ خود پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر رہ چکے ہیں، ملک کے تین شہروں (کراچی سمیت) میں مارشل لاء نافذ کر چکے ہیں۔ پاک فوج ابھی سے خیبر پختونخوا یا قبائلی علاقوں میں نہیں ہے بلکہ نائن الیون کے بعد سے پیدا شدہ صورتحال کے بعد سے پاک فوج بیرونی عناصر سے نبرد آزما ہے۔ اس کے علاوہ پاک فوج نے اپنی آپریشنل ترجیحات تبدیل کرتے ہوئے اندرونی ملک دشمن عناصر کی سرکوبی پہلی ترجیح قرار دی ہے۔
بلوچستان میں ایف سی کی موجودگی کے باوجود علیحدگی پسند عناصر کی جانب سے اب کراچی میں لاشوں کے پھینکنے کا سلسلہ بھیانک سازش بن چکا ہے۔ سب دیکھ چکے ہیں کہ لیاری گینگ وار کے نو گو ایریا میں کئی دنوں تک پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری بھاری بھرکم ہتھیاروں کے ساتھ نہیں جا سکتی اور میڈیا کئی دن تک دکھاتا رہا کہ پولیس ایک قدم بھی پیش قدمی نہیں کر سکی تھی۔ اچانک سپریم کورٹ کی جانب سے سخت احکامات کے بعد پولیس اُن علاقوں میں باحفاظت بھی چلی گئی، چند افراد کو گرفتار بھی کر لیا، شائد پھر اُن کو چھوڑ بھی دیا گیا۔ رسمی کارروائی کے لیے علاقہ ایس او ایچ کو معطل بھی کر دیا گیا اور سپریم کورٹ کو رپورٹ پیش کر دی گئی۔
جب قانون نافذ کرنے والوں کا یہ حال ہو کہ گزشتہ رمضان المبارک سے بے گھر ہونے والوں کو دو ماہ بعد واپس اندرون سندھ سے اس ضمانت کے ساتھ لایا جاتا ہو کہ اب کچھ نہیں ہو گا اور اس کے چند گھنٹے کے اندر ہی کئی لاشیں گرا دی جاتی ہیں اور راکٹ لانچروں کا آزادانہ استعمال ہوتا ہو اور سیکڑوں افراد ماہانہ قتل ہو جاتے ہوں تو حکومت کی بے حسی اور رٹ کو کیا نام دیا جائے۔
تاجر برادری حکومت کی تلاش کے لیے اشتہار گم شدگی دیکر انھیں تلاش کرنے کے لیے انعام رکھتی ہو تو کوئی بھی غیر جانبدار مبصر یا کسی بھی شہری سے پوچھ لیں تو اس کا یہی ایک جواب ہو گا کہ کراچی میں بے امنی کا واحد حل فوج کو آئینی حدود میں کراچی شہر حوالے کرنا ہے جیسے سوات، مالاکنڈ کو کیا گیا تھا اور اب قبائلی علاقوں میں کیا جا رہا ہے۔
پاک فوج کی خدمات حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ آئین کا سہارا لیا جاتا ہے جب کہ بعض آئینی ماہرین تو کچھ ماہ قبل سپریم کورٹ کو مشورہ دیتے تھے کہ کس شق کے تحت کراچی فوج کے حوالے کیا جائے۔ پاکستانی کی توجہ ملکی ترقی کے لیے سیاسی جماعتوں سے زیادہ فوج کی جانب رہتی ہے، کچھ عرصہ فوج، آئین کا سہارا لے کر ہی حکومت کرتی ہے اور بعض جماعتیں ان کی حمایت کرتی ہیں لیکن پھر یہ آئین کا سہارا لے کر فوج کے سربراہ کو آمر قرار دے دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں جمہوری نظام ناکام ہو چکا ہے اور عوام میں اس نظام پر عدم اعتماد پایا جاتا ہے۔
پاک، چائنا اقتصادی راہداری کے معاملے پر جس طرح اتفاق رائے ہوا۔ کیا کوئی سیاسی جماعت اس بات کی بھی گارنٹی دیتی ہے کہ شورش زدہ علاقوں میں وہ امن قائم کر سکے گی۔ پاکستان میں موجودہ سیاسی نظام پاکستانی عوام کے مزاج کے مطابق نہیں ہے۔
ہم اپنی ہر پریشانی کا حل فوج سے چاہتے ہیں۔ لیکن جب یہی جماعتیں فوج کو بلا کر مٹھائیاں تقسیم کرتی ہیں تو بعد میں اسی فوج کے سربراہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے دنیا بھر میں مذاق و تماشہ لگا دیتے ہیں۔ پاکستانی عوام کا مزاج لگتا ہے جمہوری نہیں ہے۔ اس لیے یہاں وہ نظام لانا چاہیے جو پاکستانی عوام کے مزاج کے مطابق ہو۔ پاک فوج پاکستان کا ایک آئینی ادارہ ہے۔ اس کا کردار و صلاحیتیں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ پاکستانی سیاست ایک گندا جوہڑ ہے جس میں تبدیلی اور صفائی کی ضرورت ہے۔