کرپشن کرنا جمہوری حکومت کا مینڈیٹ ہے
دیکھا جائے تو ڈی جی رینجرز کی رپورٹ میں کوئی انہونی بات بھی نہیں ہے۔
KARACHI:
پچھلے دنوں کراچی میں کیے جانے والے آپریشن کے حوالے سے ڈی جی رینجرز کی رپورٹ کے بعد کچھ حلقوں کی جانب سے جو تلخ و ترش بیان بازی کی گئی وہ یقینا ناقابل فہم اور انتہائی افسوسناک ہے۔ اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں پر نادم اور شرمندہ ہونے کے بجائے اُن غلطیوں کی نشاندہی کرنے والوں ہی پر سارا اسلحہ لے کر ہی چڑھائی کر دی جائے یہ کون سا مہذب اور شائستہ اندازِ حکمرانی ہے۔
اگر آپ کو اُس رپورٹ کے مندرجات سے کوئی اختلاف یا شکایت ہے یا اُن کے طریقِ کار پر کوئی اعتراض ہے تو اِس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ ملک کے سب سے معتبر ادارے ہی کو اپنی تنقید کا نشانہ بنا ڈالیں۔ جوشِ خطابت اور غرور و تکبر میں اداروں کا احترام ہی بھول جائیں۔ افواجِ پاکستان کی تضحیک و تحقیر کر کے ہم کس کو خوش کر رہے ہوتے ہیں۔
دیکھا جائے تو ڈی جی رینجرز کی رپورٹ میں کوئی انہونی بات بھی نہیں ہے۔ یہ اِس ملک کے سارے لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی اگر آج عوامی پذیرائی سے مکمل محروم ہو چکی ہے تو اُس کی وجہ اُس کا طرز حکمرانی ہی ہے۔2008ء کے الیکشن میں اُسے وفاق میں حکمرانی کے مکمل پانچ سال دیے گئے لیکن اُس نے اِس تمام عرصے میں کرپشن اور قومی دولت کی لوٹ مار کے سوا کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا۔ یہی وجہ تھی کی 2013ء کے الیکشن میں وہ صرف صوبہ سندھ تک ہی محدود ہو کر رہ گئی۔ لیکن اب اِس ایک صوبے میں بھی اُس نے اپنا انداز سیاست نہیں بدلا اور نہ صرف خود ایسے افعال قبیح میں ملوث ہو گئی بلکہ چوروں اور لٹیروں کی سرپرستی کرنے ا ور اُنہیں تحفظ بھی دینے لگی۔
پیپلز پارٹی کو ہمیشہ سے یہ شکایت رہی ہے کہ اِس ملک کی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ ہمیشہ اُس کی مخالف رہی ہے۔ وہ یہ ماننے کے لیے قطعاً تیار نہیں ہے کہ اُن کی اِس مخالفت کی وجہ اور سبب اُس کا وہ اندازِ حکومت ہے جس میں وہ کرپشن کو اپنا جمہوری حق اور مینڈیٹ سمجھتی ہے۔ اور اگر کوئی اُس کی راہ میں حائل ہو نے لگے تو وہ اُسے اپنا دشمن قرار دینے لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرپشن اور مالی بدعنوانی کے سب سے زیادہ مقدمات خود اُس کے اپنے دور حکومت میں بھی اِسی ایک پارٹی کے خلاف بنائے جاتے رہے ہیں۔
اپنے سابقہ دور میں تو اُس نے کرپشن کی انتہا کر دی ۔ این آئی سی ایل، او جی ڈی سی، ای او بی آئی، رینٹل پاور، پی آئی اے، اسٹیل ملز اور حج کرپشن سمیت لاتعداد واقعات ایسے تھے جن کی گونج ابھی تک ہمارے کانوں میں سنائی دے رہی ہے۔ اپنی اسی کارکردگی کے وجہ سے وہ صوبہ پنجاب سے بالکل ہی فارغ کر دی گئی۔ مگر اپنی اِن حرکتوں پر نادم اور شرمندہ ہونے کے بجائے وہ عدلیہ ہی کو اپنا دشمن قرار دینے پر مصر ہے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد نے اُسے 2013ء کے انتخابات میں مسترد کر دیا لیکن وہ خود کو ابھی بھی بے قصور اور بے گناہ تصور کیے بیٹھی ہے۔
پیپلز پارٹی کو اب یہ شکایت ہے کہ رینجرز کے ادارے نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا ہے۔ حکومت کے اداروں اور محکموں پر چھاپے مارنا اُس کے صوابدیدی فرائض میں شامل نہیں ہے، لیکن لوگ سوال کرتے ہیں کہ جب قومی دولت اور عوام کو لوٹے جانے کا سدباب کرنے والا نہ کوئی ہو تو پھر یہ کام کون کرے گا۔ کیا منتخب حکومت کا یہ جمہوری مینڈیٹ ہے کہ وہ خود بھی کرپشن کرے اور دوسرے کرپٹ لوگوں کی سرپرستی بھی کرے اور کوئی اُسے روکنے والا نہ ہو۔
اِس حوالے سے سند ھ کی حکومت نے کیا اپنے مینڈیٹ سے تجاوز نہیں کیا۔ یہ کیا بات ہوئی کہ خود تو جو چاہے کریں اور کوئی اُنہیں روکنے والا نہ ہو۔ کیا اِس صوبے کو لوگوں نے اُنہیں اِس لیے منتخب کیا تھا کہ وہ اُن کا پیسہ ہی اپنی جیبوں میں ڈال کر شاہانہ زندگی گزر بسر کریں اور غریب عوام دو وقت کی روٹی کو ترسیں۔ عوام الناس کی بھلائی کے لیے ابھی تک ایسا کون سا کام کیا گیا ہے جسے دیکھ کر یہ کہا جائے کہ واقعی یہ عوام دوست حکومت ہے۔ بھتہ خوروں، چوروں اور ڈاکوؤں کو تحفظ دینا کیا حکومت سندھ کا مینڈیٹ ہے۔
خدارا بہت ہو چکا اب تو اِس ملک کے لوگوں کے حالات کو بدلنے دیا جائے۔ وہ کب تک اندھیروں اور تاریکیوں کے دور میں رہتے رہیں گے۔ ترقی اور خوشحالی کب اِن کا مقدر بنے گی۔ اب کہیں جا کے اگر یہاں کے حالات بدلنے کی کسی نے کوشش کی ہے تو ہم اُس کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ چرب زبانی اور شعلہ بیانی کے ذریعے ہم کسے دھمکیاں دے رہے ہیں وہ جو اِس ملک کو دہشت گردی کے چنگل سے نکالنے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دے رہے ہیں اور جنھوں نے اپنے فولادی عزم اور ہمت سے اِس وطن عزیز کو بڑی حد تک دہشت گردوں سے پاک کر دیا ہے۔ جنھوں نے کراچی کا امن بھی بحال کرنے کی ذمے داری بھی اپنے کاندھوں پر اُٹھا لی ہے۔
وہ اِس ملک کو امن کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں اور ہم اُنہیں ہی للکار کر باز رہنے کی 'ہدایت' دے رہے ہیں۔ اڑوس پڑوس کے دشمنوں کا احساس دلا کے اور اُنہیں ڈرا دھمکا کے زیر کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں موجودہ آرمی چیف آپ کی دھمکیوں میں آ کر خوفزدہ ہو کر رک جائے گا۔ اُسے پہچاننے میں یقینا آپ سے غلطی ہو گئی۔ آپ کے لیے بہتر یہی ہوتا کہ امن کے قیام کے لیے اُنہیں اپنا تعاون اور حمایت فراہم کرتے نہ کہ اُنہیں مطعون و ملعون کرتے۔ اگر آپ کی صفوں میں کچھ کرپٹ عناصر ہیں تو آپ کو چاہیے تھا کہ اُن کی بیخ کنی کرتے اور اُنہیں اپنی پارٹی سے نکال کر قرار واقعی سزا دلاتے۔ کراچی سے گلگت تک سارا پاکستان بند کرنا اب شاید آپ کے لیے ممکن نہیں رہا۔
اب حالات بدل چکے ہیں۔ یہ کوئی ستر اور اسّی کی دہائی نہیں ہے اور آپ کا مخاطَب بھی کوئی معمولی جنرل نہیں ہے۔ اِس کے حوصلے اور ہمت کو آپ دیکھ چکے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کو تو آپ نے قابو کر لیا تھا لیکن اِسے آپ اپنے دام میں پھنسا نہیں پائیں گے۔ بی بی کے قاتلوں کو تو آپ اپنے دور میں پکڑ نہیں سکے مگر یہ کام بھی اب کوئی کرنے جا رہا تو اُسے کرنے دیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق خالد شہنشاہ کے قتل کا معمہ بھی اب تشت ازبام ہونے والا ہے۔
ایسا تو نہیں کہ شاید اِسی کو دیکھ کر آپ پریشان ہو گئے ہوں۔ آپ کے اوسان خطا ہو گئے ہوں اور شائستگی اور بردباری کا دامن آپ کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ عقلمندی اور ہشیاری کا تقاضا تو یہی تھا کہ جو کچھ ہو رہا تھا ہونے دیتے۔ اگر آپ کے ہاتھ صاف ہیں تو پھر ڈر کس بات کا۔ چوروں اور لٹیروں کی خاطر اتنا جذباتی ہونے کی کیا ضرورت تھی۔ اپیکس کمیٹی تو آپ ہی کے وزیرِ اعلیٰ کی سربراہی میں کام کر رہی ہے۔ پھر ایسا کیا ہو گیا کہ آپ جھنجلا اُٹھے اور بے اختیار غصے میں پیچ و تاب کھانے لگے۔ میمو گیٹ اسکینڈل میں یہ قوم آپ کا حوصلہ دیکھ چکی ہے۔ ایک ماہ تک کس طرح دبئی میں خود کو محصور اور بند کر کے رکھ دیا تھا یہ سب اچھی طرح جانتے ہیں۔
ڈی جی رینجرز کی رپورٹ میں اگر کچھ غلط بیانی کی گئی تھی تو اُس کی شکایت بھی تو کی جا سکتی تھی۔ افہام و تفہیم سے اپنی گزارشات پیش کی جا سکتی تھیں۔ مگر یہ بے چینی اور جھنجلاہٹ کسی اور بات کی غمازی کر رہی ہے۔
پیپلز پارٹی کو اِس حال میں پہنچانے والا کون ہے۔ آپ اگر صرف اِسی بات کو لے کر اپنے گریبان میں جھانکیں تو سارا مسئلہ ہی حل ہو جائے گا۔ اپنی اصلاح اور تطہیر کے بجائے دوسروں کو لتاڑنا کوئی دانشمندی تو نہیں ہے۔ آپ کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ دلوں میں نقش کر چکے ہیں۔ توجیحات اور وضاحتوں سے یہ الفاظ اب واپس نہیں لیے جا سکتے۔ آپ کے دوست اور ہمنوا اب چاہے کتنی ہی وضاحتیں اور معذرتیں کریں لیکن اِس کا مداوا نا ممکن ہے۔ آپ کی دھمکیوں سے کوئی اور تو مرعوب ہو سکتا ہے لیکن افواجِ پاکستان اور اُس کا سپہ سالار آپکی دھمکیوں میں آنے والے نہیں۔ اِنہیں اِس وقت ساری قوم کی حمایت حاصل ہے۔ لیکن آپ کے ساتھ کون ہے۔ ذرا ارد گر د نظر دوڑا کر دیکھیں مفاد پرستوں کے علاوہ کوئی بھی آپ کا ہمنوا اور ہمدرد نہیں ملے گا۔