برکھا رُت کو ترسے نین
بارش فطرت کی سیمفنی ہے۔ ایک ایسا خوبصورت نغمہ، جس کے سر ذہن سے ہوتے ہوئے روح میں جذب ہو جاتے ہیں۔
بارش فطرت کی سیمفنی ہے۔ ایک ایسا خوبصورت نغمہ، جس کے سر ذہن سے ہوتے ہوئے روح میں جذب ہو جاتے ہیں۔ برستے پانی کی آواز میں جو ترنگ ہے وہ سماعتوں میں خالص پن اور تحرک عطا کرتا ہے۔ بارش کی وجہ سے نہ صرف گرمی کا زور ٹوٹتا ہے بلکہ ذہن کا انتشار بھی اعتدال پر آ جاتا ہے۔ فطرت، براہ راست انسان کے مزاج پر اثر انداز ہوتی ہے۔ یہی کیفیت شاہ عبداللطیف بھٹائی کے سر سارنگ میں جا بجا ملتی ہے۔
سارنگ، راگ کا نام ہے، جو برسات کے موسم میں گایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ راگ خالص تال و سر میں گانے سے بارش ہونے لگتی ہے۔ اس راگ کو کافی ٹھاٹھ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ شاہ لطیف کی شاعری میں موسیقیت کی وجہ ان کی ساز و آہنگ سے واقفیت ہے۔ ساز، روح کو کھینچتا ہے، جذب وکمال کی کیفیت پیدا کرتا ہے اور ماحول کے منفی اثرات زائل ہونے لگتے ہیں۔ موسیقی، وجد کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔
سندھ کے علاقوں کاچھو اور تھر میں برسات کی الگ اہمیت ہے۔ یہ خشک سالی کا اثر زائل کرتی ہے۔ بارش کا مرہون منت سبزہ خوشحالی کا پیغام لے کر آتا ہے۔ تھر کے مختلف علاقوں میں بارش امید کا سندیسہ لے کر آتی ہے۔ فطرت کی علامتوں سے تھر کے معصوم لوگ جان جاتے ہیں کہ کب بارش ہونے والی ہے۔ ریگستانی علاقوں میں بارش کا جشن منایا جاتا ہے اور گیت گائے جاتے ہیں۔ شاہ لطیف چونکہ ایک سیاح تھے، لہٰذا انھوں نے سندھ کے مختلف علاقوں کی سیر کے دوران کسانوں کی خوشی کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔
آسمان پر چھائے گھنے بادلوں کو دیکھ کر گال خوشی سے دمکنے لگتے ہیں۔
یہ دہقان کیوں ہیں اپنے جھونپڑوں میں
کہو ان سے میدانوں میں آئیں
''لطیف'' اللہ کی رحمت ہو ان پر
مرادیں اپنے اپنے دل کی پائیں
زمین کے تمام تر رنگ بادلوں سے منسوب ہیں۔ شاہ لطیف کی شاعری ربط باہمی کے ہنر سے سرشار ہے۔ بقول ان کے کائنات کے منظر ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ ان کے مابین تعلق کی خوبصورتی پائی جاتی ہے۔ اگر بادل مرادیں پانے کا استعارہ ہیں تو دوسری طرف شاہ بادلوں کو راز کی بات بتاتے ہیں کہ ان کی آنکھوں میں انتظار کے کرب کی ایسی انہونی کسک ہے کہ اے بادل اگر تُو ذرا زمین پر جھک کے، میری آنکھوں میں جھانک کے، ایک بار دیکھ لے تو پھر شاید ہی کبھی تیری برسات تھم سکے۔
شاہ لطیف نے برسات کے حسین موسم سے کئی علامتیں، استعارے و تشبیہات مستعار لی ہیں۔ جو گہری اور پراثر ہیں کہ دل کی دھڑکنوں کا حصہ بن جاتی ہیں۔ آنکھوں کی گھٹا، حسن جاناں سے ملتی جلتی ہے۔ یہ ابر و باراں کی شان رعنائی ان نگاہوں سے منسوب ہے، جن کا اعجاز ہے مسیحائی۔
بادلوں کی اڑان ہوکہ نہ ہو
چشم غم کی گھٹا نہیں جاتی
جس طرح بادل بنجر زمین کو نرمی عطا کرتے ہیں۔ یہ زمین کی تہوں میں جذب ہوکے تاثیر مسیحائی بانٹتے ہیں۔ بالکل اسی طرح گھٹاؤں جیسی سرمئی نگاہیں احساس کی زمین کو زرخیزی عطا کرتی ہے۔بارش کے موسم میں وہ بھٹ جو شاہ لطیف کا آستان تھی، مہک اٹھتی ہے۔ بلکہ قریب بہتی ہوئی کراڑ ڈھنڈ پر جب مینہ برستا ہے تو کس طرح لہروں پر برستی بارش کا پانی جذب ہوکے کنول کے چہروں کو تازگی بخشتا ہے۔ بارش کا پانی، زمین کی مہک اور ہریالی کی خوشبو شاہ لطیف کے قلم کو لازوال تحرک عطا کرتے ہیں۔
لمحہ لمحہ الہامی کیفیت شاعر کی سوچوں پر دستک دیتی ہے۔ شاہ لطیف نہ فقط ''کراڑ ڈھنڈ'' کی خوبصورتی کو بیان کرتے ہیں، بلکہ یہ سحاب رحمت مکھی جھیل کے حسن میں چار چاند لگا دیتی ہے۔ مکھی کا جنگل، جنگلی پھول و پودے بارش کے پانی میں بھیگتے ہوئے مثل شاخ سمن لہکتے ہیں ۔ یا جیسے کوئی گلبدن مہکتی ہے۔ یہ مسحور کن مہک احساس کو مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ فطری خوشبو، روحانی کیفیت کو جلا بخشتی ہے۔ جیسے درختوں کے چہرے دمک اٹھتے ہیں بالکل اسی طرح روح کا گلاب نکھر جاتا ہے۔
شاعر فرماتے ہیں کہ برسات کے برسنے سے ہر سمت تازگی بکھر جاتی ہے۔ جس طرح زمین کی لاتعلقی اور روکھا پن دور ہوجاتا ہے، بالکل اسی طرح دو محبت کرنے والوں کے درمیان ناراضگی و باہمی تلخیاں مٹ جاتی ہیں۔
صوفی شاعر جب رم جھم برستے بادلوں کو دیکھتا ہے تو وہ منظر رخ زیبا پر خوبصورت چنری مثل دکھائی دیتے ہیں۔ ساون کی یہ جھڑی جذبوں کی تپش میں اضافہ کردیتی ہے۔
آجا میں بے چین ہوں کب سے
ساجن تیری دھائی ہے
رُت برکھا کی آئی ہے
شاہ لطیف برکھا رُت کو محبت کے غم کا ترجمان سمجھتے ہیں۔ کیونکہ فطرت کے رویے انسانی تاثرات اور جذبوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ دکھ سکھ، خوشی و غم، آنسو اور مسکراہٹ، ملن و انتظار کی تمام تر کیفیات خزاں، بہار، سردی، گرمی و ابر و باراں میں پائی جاتی ہیں۔ لہٰذا شاعر فطرت کے متنوع رنگوں سے اظہار کی خوبصورتی کو ایک نیا رخ عطا کرتے ہیں۔
روز و شب کھوئے کھوئے رہتے ہیں
ان کی یادوں کے برق و باراں میں
ہے لگاتار روح میں رم جھم
اور جھڑی سی یہ چشم گریاں میں
شاہ لطیف بارش کے موسم میں فقط سندھ کی بات نہیں کرتے، بلکہ ان کی سوچ بادلوں کے ساتھ استنبول، کابل، قندھار، سمرقند، گرنار، روم، دکن، دلی کی سمت سفر کرتی ہے۔
الغرض بدلیوں نے کردی ہے
برق و باراں کی ہر طرف یلغار
''سندھ'' پر بھی تیرا کرم ہو جائے
اے دھنی تو ہے سب کا پالن ہار
شاہ لطیف کی سوچ کی آفاقیت زمان و مکان سے مستثنیٰ ہے۔ وہ اپنی محبتوں میں سندھ کے ساتھ پورے عالم کو آباد رہنے کی دعا کرتے ہیں۔ صوفی کی محبت محض ایک خطے تک محدود نہیں ہے بلکہ تمام دنیا اس کے دل میں بستی ہے۔ اس کی دھڑکنوں کے تار پوری انسانیت سے جڑے ہیں۔ وہ امن، محبت اور سکھ و سلامتی کا پیغام اپنے شعر کے توسط سے دیتا ہے۔
فطرت کی خوبصورتی ہر صوفی شاعر کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ کیونکہ مظاہر فطرت کے رنگوں میں خالق کائنات کا جمال جھلکتا ہے۔فطرت کی صحبت صوفی کے دل میں مسرت و انبساط کے پھول کھلا دیتی ہے۔ یہ خوشی غیر مشروط ہے۔ جو خود رو پودوں کی مانند دل کی نرم اور ہموار زمین سے پھوٹ نکلتی ہے۔
نغمہ سرمدی جب برستا ہے تو خشک سالی کے بوجھل دن بکھر جاتے ہیں۔ یہ وہ موسم ہے جب چھڑ جاتے ہیں ہر طرف رباب و چنگ۔ بے ساختہ خوشی چہرے سے جھلکنے لگتی ہے۔ دھڑکنیں فطرت کے نغمے سے ہم آہنگ ہوجاتی ہیں۔ فضا میں کوئل کی کوک گونجتی ہے۔دل کی مایوسی پرکیف خوابوں میں ڈھل جاتی ہے۔ آنکھیں خواب دیکھتی ہیں اورتعبیر کے پھول چنتی ہیں۔ شاہ لطیف اسی کیفیت میں فرماتے ہیں۔
ابر باراں کے پیرہن میں آج
کتنا پرکیف ہے جمال یار