زمین کی گوا ہی
خامر کو بھی ٹوکرا بھیجا یہ دیکھ کر خامر ٹھٹھکا، خود منصف بن کر اس نے ایک تہائی حصہ غضب کر لیا تھا۔
ہماری لوک کہانیاں محض زیب داستان کبھی نہیں رہیں، ان میں ہمارے بزرگوں کی زندگیوں کے وسیع تجربے کا نچوڑ بھی شامل رہا ہے، جو سمجھنے والوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ ان روایتوں میں وطن سے محبت کی خوشبو ہے تو کہیں زمین کی ہوس رکھنے والوں کے لیے حشر سامانیاں ہیں۔
زمین کا لالچ سگے بھائیوں کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کر دیتا ہے۔ خورو اسی لیے دکھی و پریشان ہے کہ بابا کو فوت ہوئے عرصہ ہو گیا تھا پچھلی فصلیں خامر نے خود اٹھوائیں اور لگوائیں کام کا سارا بوجھ مجھ پر اور میرے اکلوتے بیٹے پر رہا۔ خامر اور اس کے سات بیٹے فصل اٹھاتے وقت یوں دندناتے تھے جیسے صرف وہ زمین کے مالک ہوں ہمارا کوئی حصہ نہیں، فصل اچھی ہوئی مگر ہمیں بہت کم حصہ ملا بمشکل گزار ہوا۔
خورو انھی سوچوں میں ڈوبا بڑے بھائی خامر کے گھر پہنچا مختصر بات کی زمین میں اپنا حصہ ما نگا، خورو اس کے بیٹے یہ بات سن کر غصے سے پاگل ہو گئے خورو حق پر تھا ذرا نہ گبھرایا خامر کو بھی معلوم تھا وہ باپ بیٹے سے زیا دہ دن بیگار نہ لے سکے گا۔ بٹوارہ تو کرنا ہو گا پھر ساری بات ابھی میرے ہا تھ ہے، جیسی زمین چاہوں دوں۔ سادہ دل خورو کو دوسر ے دن پتھریلی بنجر زمین حصے میں ملی۔ خورو نے اسے بخوشی قبول کیا بیٹے کو سمجھا بجھا کر خاموش کر دیا دونوں دن رات مشقت پر لگ گئے ان کی مخلصی و سادگی پر لوگ ان سے خوش تھے سب نے مدد کی محنت رنگ لائی فصل شاندار ہوئی اس نے سب کو تحفتا خومانیاں بھیجی۔
خامر کو بھی ٹوکرا بھیجا یہ دیکھ کر خامر ٹھٹھکا، خود منصف بن کر اس نے ایک تہائی حصہ غضب کر لیا تھا۔ غرور سے اس کا سینہ تن گیا تھا آخر کمزور بے وقوف ایک بیٹے والے کا اس کے سات بیٹوں سے کیا مقابلہ تھا۔ اب خورو کی شاندار فصل دیکھ کر خوب واویلا کیا۔ زمین کا پھر سے بٹوارہ ہو گا۔ خامر کے بڑے بیٹے نے غرا کر ہاتھ ہلا ہلا کر کہا خورو اس کے ہا تھ دیکھ رہا تھا بڑے عجیب سا ہاتھ تھا پانچ انگلیوں کے ساتھ ایک اور بٹن نما چھوٹی انگلی جس کا ناخن پچکا ہوا تھا تم بہتر اور زیادہ زمین کے مالک بن گئے ہو اب کے زمین ضامن ہو گی خورو نے منظور کیا کہ زمین سے بہتر ضامن و منصف کون ہو گا یہ بسنے دیتی و پالتی ہے آخر میں اپنی آغوش میں سمیٹ لیتی ہے۔
ادھر آدھی رات کو خامر بڑے بیٹے کے ہمراہ کھیت پہنچا، اس نے زمین پر کدال مار کر ایک بڑا سوراخ کیا بیٹے کو نیچے اتر جانے کو کہا، یہاں چھپ جائو صبح ہم زمین سے سوال کر یں گے، تمھارا جواب بلند ہو نا چاہیے۔ خورو مطمئن ہو کر چلا جائے گا تو ہم تمھیں نکال لیں گے بیٹے نے مکارانہ مسکراہٹ کے ساتھ پنجہ نما ہاتھ لہرا کر باپ کو الوداع کہا۔ پو پھٹتے ہی دونوں اپنے بیٹوں کے ساتھ کھیت پہنچے، خامر دھوکے جھوٹ کے پھندے میں جکڑا بے چین تھا۔ آواز میں گھبراہٹ تھی خورو مطمئن پر سکون تھا اس نے ہی زمین سے سوال کیا ''اے زمین اے ہماری ضامن بتا! کس کے پا س زیا دہ زمین ہے؟ خورو کے پاس! زمین سے بھاری آواز آئی زمین لرزی تھی خورو نے تسلیم کر لیا کہ انصاف کو ما ننا ہی پڑتا ہے۔
بیٹے کو لے کر چلا گیا اب خامر نے بیٹے کو زمین سے نکالنے کے لیے گھاس و مٹی ہٹانی شروع کی مگر وہاں وہ نہ تھا اس نے زمین کھود ڈالی۔ بیٹے کو آواز دی تو کھیت کے دوسرے جا نب سے آواز آئی خامر اس کے چھ بیٹوں نے پورا کھیت کھود ڈا لا شام ہو گئی مگر وہ نہ ملا وہ رات ان کے لیے قیامت سے کم نہ تھی۔ صبح خامر کے سارے بیٹے بستر پر مردہ پا ئے گئے اس کے بعد خامر گھر سے با ہر نہ نکلا۔ خورو کے لیے وہ کھیت بھاری تھا جس کی وجہ سے اس کے بھائی پر ایسی آفت آئی وہ سارا دن لگا کر کدال سے کھیت بند کرتا رہا۔
آخری نالی کے پاس ایک بلی سے مشابہ بھورے رنگ کا جا نور نمودار ہوا جو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا وہ جا نور خورو کے قدموں میں لوٹنے لگا اس کے پائوں چا ٹنے لگا اس کی آنکھوں میں بے بسی دیکھ کر خورو اسے اٹھا کر پشت کو سہلانے لگا۔ اسے لگا جانور ہچکی لے کر رو رہا ہے۔ خورو جانے لگا تو جا نور نے عجب حرکت کی اپنا پنجہ اٹھا کر ہاتھ ملانے کی کو شش کی اس کے پنجے میں پانچ انگلیوں کے ساتھ ایک بٹن سی گول انگلی تھی جس سال خامر کے بیٹے مرے اسی سال ہنزہ سے دور غا روں، دروں میں ایک عجیب جانور نمودار ہو جو مارموٹ ( (MARMOT نام سے مشہور ہے وادی ہنزہ کے لوگ اسے خامر کی اولاد کہتے ہیں۔
زمین ناجائز قبضے کی خاطر کس طرح انسان اپنی لالچ کے ہا تھوں اپنی قبر خود کھودتا ہے ہم یہ بھول جاتے ہیں، قبر میں زمین اپنے آنیوالوں کا سواگت کرتی ہے تو کسی کے لیے جنت کا ایک ٹکڑا بن جاتی تو کسی کو اس قدر زور سے جکڑتی اس کی پسلیاں آپس میں مل جاتی ہیں، اس قدر وحشت و تنگی جس کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ہمارے ملک خصوصا کراچی میں زمین پر قبضے کا کاروبار برسوں سے پھل پھول رہا ہے، ابھی چند دنوں قبل خبر آئی تھی، نیب حکام نے انکشاف کیا ہے ساڑھے چار ارب روپے کے 1200 پلا ٹوں کو غیر قانونی طریقے سے فروخت کیا گیا۔
لینڈ مافیا نے چائنا کٹنگ سے خوب دھن کمایا، ایک جانب کراچی میں آنیوالوں کا بڑھتا ہوا سیلاب ہے جو دیگر صوبوں میں وسا ئل کی عدم دستیابی کے باعث یہاں کا رخ کر تے ہیں پھر افغانستان و دیگر ملکوں سے آنے والے مہاجرین کا ایک سلسلہ جو یہاں رہا ئش و کاروبار کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کرتے ہیں، شہر کے تمام خالی پلاٹوں پر پہلے جھگیاں قائم کی جاتی ہیں، آہستہ آہستہ انھیں پکے مکانوں میں بدل لیا جاتا ہے پھر فروخت یا کرائے پر چڑھایا جاتا ہے وہ لوگ جو چند سال قبل کراچی وارد ہوئے، ان کچی آبا یوں میں ناجائز قبضے سے درجنوں مکانوں کے مالک بن بیٹھے ہیں، اس کام میں ان کا ساتھ دینے والوں میں مقامی مافیاز، بااثر حکام، سیا سی شخصیات اور طاقت ورتنظیموں کا ہاتھ ہوتا ہے جو اپنا حصہ وصول کرتے ہیں اس وقت سندھ لینڈ مافیا، ڈرگ مافیا ، ناجائز اسلحہ اور کرپشن کا گڑھ بنا ہوا ہے۔
اب رینجرز نے آپریشن کا دائرہ کار بڑھا کر لینڈ مافیا تک وسیع کر دیا ہے جن سے ہوش ربا حقائق سامنے آتے جا رہے ہیں۔ 230 ارب روپے سے زیادہ کی غیر قانونی وصولیوں میں زمین کے قبضے کا ناجائز کاروبار شامل ہے جو افسران شامل تھے، انھوں نے خو ب اثاثے بنائے ایک چھوٹی سی زندگی میں ان کی کتنی ضرورتیں ہیں، انسان کس قدر لالچی و خود غرض واقع ہوا ہے جو زمین کی بھوک ختم نہیں ہوتی بالاخر دو گز زمین میں چلا جاتا ہے۔ اس کی ساری امپائر دھری رہ جاتی ہے۔