صف بندیاں ہو رہی ہیں
ہم کس قدر ظالم ہیں کہ ہم نے اپنے ساتھ زیادتی کرنے والوں کا نام تک لینا چھوڑ دیا
یوں لگتا ہے پورے عالم اسلام میں صف بندی ہو رہی ہے۔ دوستیاں اور دشمنیاں واضح ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ عالمی صورت حال، دو طرفہ تعلقات اور باہمی امن کے نام پر جو منافقت ہو رہی تھی اس کا خاتمہ ہو رہا ہے جو جس کے خلاف سازش یا پس پردہ دشمنی کر رہا تھا اب اس کا کردار واضح ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ تیس سال سے پاک بھارت دوستی کی منافقت زور و شور سے چل رہی تھی۔
دو طرفہ تعلقات اور علاقائی امن کے نام پر کانفرنسیں بھی منعقد ہوتی تھیں، وفود کا تبادلہ بھی ہوتا تھا اور مسائل کے حل کے لیے سربراہان مملکت بھی آپس میں ملتے تھے۔ ان سب کے علاوہ ایک اور ہجوم تھا۔ این جی اوز، سول سوسائٹی اور امن کے پرچم بردار گیندے کے پھولوں کے ہار لے کر ایک دوسرے کا واہگہ بارڈر پر استقبال کرنے والے، بارڈر پر شمعیں جلا کر امن کے پیامبر بننے والے۔ یہ عجیب لوگ اپنی مخصوص منطق کے ساتھ ٹیلی ویژن پروگراموں، سیمیناروں اور جلسوں میں تشریف لاتے۔
ان سے کوئی سوال کرتا کہ بھارت میں کشمیر پر ظلم ہو رہا ہے وہاں مسلمان اقلیت بدترین معاشی اور معاشرتی حالات میں زندگی گزار رہی ہے تو ایک دم بھڑک اٹھتے اور کہتے کہ ہم بھی تو اپنی اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کر رہے، ہم نے بھی تو ان کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ یوں لگتا تھا جیسے پاکستان میں وہ بھارت کے وکیل ہیں۔ ان سب لوگوں کی بھارت یاترا لگی رہتی اور وہاں سے آنے والوں کی پاکستان یاترا۔ ان سب کا نشانہ کسی نہ کسی طور پر پاکستان کی افواج ہوتیں۔
بنگلہ دیش ان کا محبوب ترین موضوع ہوتا۔ یہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو صرف اور صرف افواج پاکستان کی زیادتیوں سے تعبیر کرتے۔ ان کی زبان پر نہ کبھی مکتی باہنی کے مظالم آئے اور نہ ہی انھیں یہ یاد رہتا کہ بھارت نے وہاں افواج اتار کر اس حصے کو علیحدہ کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ان کے ہاں فوج سے نفرت کی علامت تھی۔ اسی لیے وہ اس کے تمام گناہ صاف کر دیتے۔ بلوچستان میں سیاسی حکومت کا دھڑن تختہ ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا اور وہاں آرمی ایکشن بھی اسی کے حکم سے شروع ہوا لیکن یہ اس کا نام تک نہ لیتے بلکہ صرف اور صرف فوجی کارروائی یا آپریشن کہتے۔ حبیب جالبؔ کی برسیاں مناتے لیکن ذکر تک نہ کرتے کہ حبیب جالبؔ پر غداری کا مقدمہ ذوالفقار علی بھٹو نے بنایا تھا۔
عالمی امن، حقوق نسواں، علاقائی امن اور حقوق انسانیت ان کے خوبصورت چہرے تھے لیکن کسی مسلمان پر اگر بھارت میں تشدد ہوتا، کوئی شہر جیسے احمد آباد بدترین قتل و غارت کا شکار ہوتا۔ کشمیر میں مظالم ڈھائے جاتے لیکن ان کی زبان سے احتجاج نام کا لفظ تک نہ نکلتا۔ نہ شمعیں جلائی جاتیں اور نہ ہی پلے کارڈ لے کر بازاروں میں نکلا جاتا لیکن اگر پاکستان میں کسی اقلیت پر تھوڑا سا بھی تشدد ہوتا تو یہ اس کی دہائی عالمی سطح پر لے جاتے۔
یہ دہائی اس قدر شدت سے مچائی جاتی کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ان اقلیتوں کو سیاسی پناہ دینے لگے اور پاکستان ان ممالک میں شمار ہونے لگا جہاں اقلیتیں غیر محفوظ ہیں۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ کشمیر میں ایک لاکھ شہدا کی قبروں کے باوجود بھارت ایک عظیم جمہوری ملک ہے اور وہاں اقلیتوں کو ہر طرح کا تحفظ حاصل ہے جب کہ پاکستان کو ان آستین کے سانپوں نے دنیا بھر میں بدنام کیے رکھا۔
گیارہ ستمبر کے بعد تو ان کی لاٹری نکل آئی۔ پوری دنیا کے نزدیک مسائل کی جڑ اور فتنے و فساد کا موجد صرف اور صرف مسلمان تھے۔ ان میں سے بھی وہ مسلمان جو پاکستان اور افغانستان میں یا اس کے آس پاس کے علاقوں میں بستے تھے۔
بم برسائے گئے، شہری آبادیاں مسمار کی گئیں، بچوں، عورتوں کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کے دشت لیلیٰ کا وہ واقعہ کہ جس میں تین ہزار افغانوں کو کنٹینروں میں بند کر کے دھوپ میں کنٹینر رکھ دیے گئے تھے اور وہ افراد ان کنٹینروں میں تڑپتے ہوئے شہید ہو گئے تھے۔ دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیموں کے نقشے اور ریکارڈ میں اس واقعے کی کوئی حیثیت تک نظر نہیں آتی۔ آپ کو کہیں بھی یہ دلدوز واقعہ تاریخ کے سیاہ ترین واقعات میں نظر نہیں آئے گا۔
امریکا اس کے حواری نیٹو ممالک اور پاکستان یہ سب وہ ممالک تھے جن میں ان تمام انسانی حقوق، عالمی امن اور انسانی بھائی چارے کے نام پر بننے والی تنظیموں کو پذیرائی حاصل رہی۔ ایسی تمام سیاسی جماعتیں، سیاسی رہنما جن کا رجحان سیکولرزم اور بھارت پرستی کی طرف تھا ان کے لیے اقتدار کے راستے کھل گئے۔ بھارت شاندار ہمسایہ اور گنگا جمنی تہذیب کے نعرے نے دونوں جانب ایک ایسی منافقت کو رواج دیا جس میں پاکستان کے ہر اس طبقے میں بھارت کو گھسنے کا موقع ملا جو ریاست پاکستان کی سالمیت کے درپے تھا۔
یہ سب جانتے تھے کہ کون، کب اور کہاں بھارت کی ایجنسیوں سے رابطے میں ہوتا ہے، کون کہاں سے سرمایہ حاصل کرتا ہے، کون کس کی زبان بولتا ہے لیکن کہیں اس کا تذکرہ تک نہ ہوتا۔ میڈیا سے لے کر اقتدار پر بیٹھے سیاسی رہنما ہوں یا فوجی جرنیل سب اسے ''پڑوسی ملک'' کہتے۔ کوئی بھارت کا نام نہ لیتا۔
ہم کس قدر ظالم ہیں کہ ہم نے اپنے ساتھ زیادتی کرنے والوں کا نام تک لینا چھوڑ دیا۔ یہی بدقسمتی تھی کہ کسی کو اس بات پر شرم تک محسوس نہ ہوئی کہ بنگلہ دیش جسے بھارت نے فوجی حملہ کر کے ہم سے الگ کیا تھا، اس کی تحریک آزادی کا ایوارڈ وصول کرنے جاتے۔ دنیا کی تاریخ میں ہم شاید واحد ایسے لوگ تھے۔ کیا کسی امریکی نے ویت نام میں، کسی روسی نے یوگوسلاویہ میں یا کسی انگریزنے 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران انگریز قوم سے غداری پر ایوارڈ وصول کیا تھا۔ ہم نے یہ تاریخ بھی رقم کر دی۔
لیکن اب وقت بدل رہا ہے۔ یہ وقت ہم نے خود نہیں بدلا، اس لیے کہ شاید ہم یہ جرات خود نہ کر پاتے۔ جتنے سال ہم نے مفاہمت اور ''ایک پڑوسی ملک'' کہہ کر گزارے، بھارت نے ٹھیک اتنے سال ہمیں عالمی دہشت گردی کا حصہ ثابت کرنے میں لگائے۔ ممبئی حملہ سے لے کر آج تک حالات نے پلٹا کھایا اور نریندر مودی مسند اقتدار پر آ گیا۔
پہلوان للکار کر اکھاڑے میں اترا تو ہماری جانب بھی منافقت کا لبادہ اتارنا پڑا۔ اب صرف سچ سامنے ہے۔ ہم ایک دوسرے سے کتنی نفرت کرتے ہیں، ایک دوسرے سے کس قدر الگ ہیں۔ دونوں قوموں پر واضع ہوتا جا رہا ہے۔
یہ صف بندی ہے۔ یہ صف بندی صرف پاک و ہند میں نہیں عالم اسلام میں بھی ہو رہی ہے۔ اس لیے کہ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات کے مطابق وہ وقت قریب آن پہنچا ہے کہ جب مسلمان دو محاذوں پر آخری بڑی جنگ لڑ رہے ہوں گے ایک بھارت کے ساتھ اور دوسری شام کے محاذ میں دجال کے ساتھ۔ آپؐ نے فرمایا ''جب تم ہند کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لائو گے تو حضرت عیسیؑ کو اپنے درمیان پائو گے (کتاب الفتن)۔ یہ ٹائم لائن قریب نظر آ رہی ہے۔ صف بندیاں ہو رہی ہیں، منافقت ختم ہو رہی ہے دشمن آمنے سامنے آ رہے ہیں۔