بھنورکی آنکھ
جذباتیت اورسیاسی عصبیت ہمارے پورے نظام کواس بندگلی میں لے جاچکی ہے،جہاں سے واپسی کاراستہ تقریباً ناممکن ہے۔
جذباتیت اورسیاسی عصبیت ہمارے پورے نظام کواس بندگلی میں لے جاچکی ہے،جہاں سے واپسی کاراستہ تقریباً ناممکن ہے۔دلیل،سنجیدگی اورتوازن کااب ہم سے کیاتعلق!
کچھ نہ کچھ دنوں کے بعد کوئی ایساواقعہ ظہور پذیر ہوجاتا ہے کہ ہرطرف طوفان سامحسوس ہوتاہے۔پھربغیرکسی منطقی نتیجہ کے پانی کے بلبلہ کی مانندمستقل غائب ہوجاتاہے۔ تھوڑے سے وقت کے بعدایک اوردلگیرخبریاواقعہ پرانی سلیٹ کومکمل طورپرصاف کردیتا ہے۔یہی ہماراقومی وطیرہ اور عصرِحاضرمیں زندہ رہنے کاطریقہ ہے۔ہم بھی کیاخوب لوگ ہیں!لیکن اب مجھے کسی بھی بات پرحیرت نہیں ہوتی۔کسی قسم کاتعجب بھی نہیں ہوتا!
کراچی سے مالی بے ضابطگی کے کس بھیانک طرز کے انکشافات جاری تھے۔تاثرتھاکہ اب قانون کاآہنی نتیجہ ان سرکش لوگوں کی گردنوں کودبوچ لیگاجوناجائزدولت کے انبارپرکھڑے ہوکرعام آدمی کوکیڑے مکوڑے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔
مگرایک ایک کرکے تمام سرکردہ لوگوں کو بحفاظت باہرجانے کی اجازت دیدی گئی۔آپ قانون کی بے بسی دیکھیے،کہ کچھ کردارتوباقاعدہ کرائے کی گاڑی میں بیٹھ کربین الاقوامی سرحدعبورکرگئے۔کیونکہ وہاں سے مغربی ممالک تک پہنچنابالکل آرام دہ بات ہے۔لے دیکر،کچھ سرکاری عمال رہ گئے ہیں،جوشکارکے چارے کے طورپر استعمال کیے جاسکتے ہیں۔مجموعی نتیجہ وہی،کہ طاقتورہرطرح کی قانونی گرفت سے مکمل باہرہے۔میں وثوق سے کہہ سکتاہوں کہ آیندہ پچاس برس بعدبھی یہی کیفیت رہے گی۔
ایک ہزارکی تعدادسے بھی زیادہ جولوگ گرمی اور شرمناک لوڈشیڈنگ کاشکارہوگئے۔انکاجان سے گزر جانے کا واقعہ بھی غبارمیں گم ساہوچکاہے۔ہولناک ہلاکتوں کی کوئی بھی ذمے داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔
ایک دوسرے پرذاتی حملے اورجملہ بازی کے سوا کچھ بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔بچوں کی طرح ایک دوسرے پرذاتی تبصرے۔کئی سالوں سے گرمیوں میں یہ سب کچھ ایک روٹین بن چکی ہے جوثابت کرتی ہے کہ ہرحکومت، لوڈشیڈنگ کے عذاب پرصرف سیاست کرناچاہتی ہے۔عملی اقدام صرف اس حدتک کہ بھرپوراخباری مہم چلائی جائے اوروہ بھی حکومتی وسائل سے!لیکن ناجائزمالی فائدہ اٹھانے میں سب پُرعظم اورثابت قوم!کیابات کی جائے اور کیانہ کی جائے!کیاترقی یافتہ ممالک میں کوئی یہ سب کچھ سوچ بھی سکتاہے!صاحبان فہم!بالکل نہیں۔
فلوریڈا(Florida)میں اکثرساحلی طوفان آتے رہتے ہیں۔ایک دوست نے چندماہ پہلے آنے والے طوفان کے متعلق بتایاکہ ریاستی حکام نے طوفان کاوقت اوردورانیہ کا شیڈول دس دن پہلے ریڈیواورٹی وی پراعلان کردیا۔اسکول اور کالجوں میں طلباء اورطالبات کوبھرپورتربیت دی گئی کہ طوفان سے گھبرائے بغیراپنے آپکوکیسے محفوظ رکھناہے۔تباہی سے بچنے کے لیے ساحلی گھروں کے مکینوں کوکئی گھنٹوں پہلے انتہائی محفوظ جگہوں پرمنتقل کردیاگیا۔ان کی کاریں اورموٹرسائیکل بھی گیراجوں میں پہنچادی گئیں،جہاں انھیں خراش تک نہیں آسکتی تھی۔
چارگھنٹے کے ہوائی ریلے کے مقابلہ کرنے کے لیے ہرشخص کو دودن کاکھانا،پانی اورادویات فراہم کی گئیں۔طوفان آیااورکسی کومعمولی نقصان تک نہیں ہوا۔کسی گھرکاایک شیشہ تک نہیں ٹوٹا۔یہ زندہ قوموں کاقدرتی آفات سے مقابلہ کرنے کا طریقہ ہے۔کسی بدنظمی اورسیاست کے بغیراپنے شہریوں کو جان ومال کی مکمل حفاظت۔کراچی میں گرمی کاتعین کرنا قطعاً مشکل نہیں تھا۔مگرکسی نے کوئی پرواہ نہیں کی۔ریاستی اداروں کی نااہلی اورغفلت کی اس سے زیادہ اورکیامثال ہوگی کہ ایک ہزار سے زیادہ افرادگرمی اورلوڈشیڈنگ کی بلاکی خوراک بن گئے۔ ان تمام لوگوں میں ایک قدرمشترک تھی۔یہ سب لوگ غریب اورمفلوک الحال طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔انکاوالی وارث کوئی بھی نہیں تھا۔نہ حکومت،نہ ریاست اورشائدنہ مذہب۔
آئیے ہاتھ اُٹھائیں،ہم بھی
ہم جنھیں رسم دعایادنہیں
ہم جنھیں سوزِمحبت کے سوا
کوئی بُت،کوئی خدایادنہیں
اورپھراپنے دورکاعظیم شاعر،فیض،ان بے بس لوگوں کے لیے دعاکرتاہے۔
جنکی آنکھوں کورُخ صبح کایاراابھی نہیں
ان کی راتوں میں کوئی شمع منورکردے
جنکے قدموں کوکسی راہ کاسہارابھی نہیں
ان کی نظروں پہ کوئی راہ اجاگرکردے
اس وقت بازارسیاست میں اوون بینٹ(Owen Benett)کی تشکیل شدہ،بی بی سی کی ایک رپورٹ ارتعاش پیداکررہی ہے۔میں اس کے مندرجات دہرانانھیں چاہتا۔اسلیے کہ اب یہ سیکڑوں بارناظرین کودکھائی اورسنائی جاچکی ہے۔ اسکالُب لباب صرف یہ ہے کہ ایم کیوایم کے چندلوگ ہندوستان سے تربیت،اسلحہ اورپیسہ وصول کرکے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث رہے ہیں۔
یہ انتہائی سنجیدہ الزامات ہیں اورکسی بھی سیاسی پارٹی کے لیے زہرسے بھی بڑھ کرخطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔پہلے بھی اسطرح کے الزامات کی بازگشت سنائی دیتی رہی ہے۔مگراس بارخبرکی دنیا کا معتبرترین ادارہ ملوث ہے۔لہذامعاملات اورزیادہ نازک موڑ پرکھڑے ہوچکے ہیں۔صورتحال اس اَمرکی متقاضی ہے کہ ارباب اختیارانتہائی ٹھنڈے دل سے غوروفکرکریں اورایک ایسا فیصلہ کریں جوہرطرح کی سیاسی مصلحت سے بالاتر ہو۔ مگر مجھے اسطرح کے رویہ کی قطعاًامیدنہیں ہے؟
دودن سے ہویہ رہاہے،کہ ایم کیوایم اور حکومت کے کچھ حلقے متحارب فریقین کاروپ دھارچکے ہیں۔ایک فریق کے نزدیک یہ رپورٹ بالکل غلط اوربے بنیادہے۔دوسرافریق اسے سچ کے سوا کچھ نہیں سمجھتا۔ہاں!لفظوں کی ہیرپھیر اور اونچ نیچ ضرورہے۔شائدیہ بھی ہماری ملکی سیاست کاخاصہ ہے، جو کہاجاتاہے وہ کیانھیں جاتااورجوعملی طورپر کیا جاتا ہے، اس پر پردہ ڈال دیاجاتاہے۔معاملہ کی سنجیدگی یہ تقاضاکرتی ہے کہ اسکوباریک بینی سے دیکھاجائے اورپھراسے منطقی انجام تک پہنچایاجائے۔اگریہ سب کچھ کسی بھی سیاسی مصلحت کاشکار ہوگیا،تواس کے بہت دوررس منفی اثرات ہوںگے۔
اوول بینٹ جونزبہت دیراسلام آبادمیں بی بی سی کا علاقائی نمایندہ رہاہے۔اس کی ایک تصنیف شدہ کتاب "Pakistan: Eye of the Storm"پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔2013میںاوون بینٹ ہی تھا،جس نے بی بی سی ٹوکے ـ"نیوزنائٹ"پروگرام میں انکشاف کیاتھاکہ لندن کی پولیس الطاف حسین کے متعلق5 لاکھ پائونڈکی منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات کررہی ہے۔ 2014 میں، ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں دوپاکستانیوں کے ملوث ہونے کی خبربھی بی بی سی کے ادارے نے ہی سب سے پہلے نشرکی تھی۔
پہلی مرتبہ،محسن علی سیداورمحمدکاشف خان کانام بھی اسی طرح کی تحقیقاتی رپورٹ میں لیاگیاتھا۔لہذاہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ حالیہ رپورٹ محض الزامات یامیڈیاٹرائل ہے۔ایم کیوایم ایک موثرسیاسی قوت ہے۔اس کی واضح اکثریت پرپاکستان دشمنی کا الزام نہیں لگایاجاسکتا۔یہ اتنے ہی محب وطن ہیں،جتنے آپ اورمیں۔مگرتصویرکادوسرارخ بھی انتہائی اہم ہے۔بی بی سی کی رپورٹ میں لگائے گئے الزامات سے محض انکار کرنے سے کچھ حاصل نہیں کیاجاسکتا۔یہ اس سیاسی جماعت کی بقاء کاسوال ہے۔ دلیل کے بغیرصرف یہ کہہ دینا،کہ یہ سب کچھ محض پروپیگنڈاہے،اس سے حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔
تمام صورتحال کابہترین حل یہ ہے کہ الطاف حسین بذات خوداپنے آپکواوراپنی قیادت کوکسی بھی آزادتحقیقاتی ادارے یاکمیشن کے سامنے پیش کریں۔تمام سیاسی جماعتیں باہم مشورہ سے ایک ایساتحقیقاتی فورم تشکیل کریں جس پرکوئی بھی فریق انگلی نہ اٹھاسکے۔یہ معاملہ ہمارے ملکی مفادات سے وابستہ ہے اورملکی مفادات کسی بھی شخصیت یا سیاسی پارٹی سے بہت بالاترعنصرہے۔
اس تمام معاملے کو الطاف حسین بذات خودسیاسی بصیرت سے دیکھیں۔دوسری جانب،چندحکومتی حلقے میں فریق بھی ایم کیوایم جیسی موثر سیاسی جماعت کی حب الوطنی پرکسی طرح کاشک وشبہہ پیدا کرنے کی دانستہ یاغیردانستہ کوشش نہ کریں۔یہ نہ ہوکہ اعلیٰ ترین سطح پرتویہ تاثردیاجائے کہ ہم غیرجانبدارتحقیق کی طرف مائل ہیں۔مگرنچلی سطح پراپنے نادان دوستوں کے ذریعے شک کے فطری جذبہ کوترویح دیجائے۔
جب میں اپنے ملک کی سیاسی تاریخ پرنظر دوڑاتا ہوں تو مجھے اکثرجگہ وہ سنجیدگی نظرنہیں آتی جونازک معاملات کو غیرجذباتی طریقے سے حل کرنے میں مددگار ثابت ہو۔ ملک دولخت کروالیا،مگروجوہات کوعام آدمی تک پہنچانے سے انکار کردیاگیا۔شائدابھی ہم اس ذہنی پختگی کے مقام پرپہنچ ہی نہیں پائے کہ درست وقت پرصحیح فیصلے کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں!مگرموجودہ طوفان سب کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ان غیبی قوتوں کے لیے بھی جنھوں نے اسکوشروع کیا اور پورے سیاسی نظام کے لیے بھی!اس وقت سب کچھ بھنورکی آنکھ میں پوشیدہ ہے جوکسی جانب بھی رخ کرسکتی ہے اور شائد ہر جانب بھی!