شدید گرمی سے سیکڑوں ہلاکتوں کا بڑا سبب محکمہ صحت میں ایک اتھارٹی کا نہ ہونا ہے

اس وقت ملک بھر میں کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال یا قدرتی آفت سے نمٹنے کے وسائل ہیں نہ تربیت


سانحہ کراچی کے حوالے سے حکومت سندھ کے نمائندے اور دیگر شخصیات کا ’ایکسپریس فورم ‘‘ میں اظہار خیال ۔ فوٹو : راشد اجمیری

٭ سانحے، حادثے کسی بھی ملک یا شہر میں کسی بھی وقت ہوسکتے ہیں اور آتے رہتے ہیں لیکن یکم رمضان سے لیکر تاحال کراچی میں شدیدگرمی نے جو قہر ڈھایا اس کی مثال پورے پاکستان کی تاریخ میں ملنا ممکن نہیں۔ایک ہفتے میں 1400 سے زائد جانیں چلی گئیں اور سیکڑوں افراد اب بھی مختلف اسپتالوں میں موت و زندگی کی کشمکش میں ہیں۔

سردخانوں میں میتیں رکھنے کی جگہ کم پڑگئی، شدید گرمی اور لوڈشیڈنگ سے میتوں کو غسل دینے میں بھی لواحقین کو شدید دشواریوں کا سامناکرنا پڑا جبکہ گورکنوں نے بھی اپنی زندگی کے انتہائی مصروف دن گزارے جب ایک ہی وقت میں انھیں درجنوں قبریں تیار کرنی پڑیں۔ یہ پورے شہر بلکہ پورے ملک کے لیے انتہائی مشکل وقت ہے، ایسے میں سرکاری اداروں میں روابط کے فقدان، سرکاری اسپتالوں میں طبی سہولتوں کی بے پناہ کمی اور حکومتی سطح پرکسی بڑے حادثے سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے بھی عوام کے لیے یہ قدرتی آفت قیامت بن گئی اور شہرکو چند دنوں میں اتنی اموات نہ دیکھنا پڑیں۔

اس سنگین صورتحال کے اسباب کا جائزہ لینے ، اداروں کی استعداد اورکارکردگی کا اندازہ کرنے، سرکاری و نجی طبی اداروں میں میڈیکل ایڈکے حوالے سے سہولتوں کے موازنے اور آئندہ کسی بڑی آفت سے بچنے کے عوامل سے آگاہی کے لیے کراچی میں ''ایکسپریس فورم ''کا انعقاد کیا گیا جس میں حکومت سندھ کے نمائندے اور دیگر افراد نے گرمی سے بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کی صورتحال پر اپنے خیالات کا اظہار کیا، ''ایکسپریس فورم'' کی روداد نظر قارئین ہے٭

ڈاکٹر ظفر اعجاز
(ڈائریکٹر ہیلتھ کراچی ، حکومت سندھ)
میں سمجھتا ہوں کہ موجود بحران میں انتظامی ناکامی کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ہمارے اداروں میں رابطے کا بہت فقدان ہے۔ کراچی میں اس وقت ڈی ایم سیز،کے ایم سی اور محکمہ صحت الگ الگ کام کررہے ہیں، سب کے الگ الگ اسپتال چل رہے ہیں جن کے انتظامات بھی الگ الگ ہیں جو کسی اور کو جوابدہ نہیں۔ بہت سے سارے کام مختلف ادارے اور محکمے اپنی اپنی سطح پربھی کررہے ہیں لیکن اگر ان میں موثر رابطہ ہوتو وہی کام مل کر بھی کیاجاسکتا ہے جس کے دوررس اور مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔

سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے نظام میں سب چیزیں ایک ساتھ ہوتی تھیں اور عوام کو سہولت میسر تھی، اب تمام ادارے اور محکمے الگ الگ کام کررہے ہیں، شہر کراچی میں 178 یونین کونسلیں اور 8 کنٹونمنٹ بورڈز ہیں، 17بڑے اسپتال سمیت مجموعی طورپر 300 سے زائد طبی مراکزقائم ہیں، موجودہ حالات میں سب سے بڑا بحران سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے ہے، میری تو تجویز ہے کہ پورے شہر میں صحت کی سہولتوں اور دیگر امور کو دیکھنے کے لیے ایک ڈی جی ہو جو ہر چیز پر نظر رکھے، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کسی کا احتساب نہیں ہورہا۔



گرمی سے ہلاکتوں کا سانحہ بہت بڑا ہے، اس صورتحال میں بھی ہم نے دیکھا کہ بہت سارے اسپتالوں میں دوائوں اور دیگر طبی سہولتوںکی شدیدکمی ہے۔ ریلیف سینٹر ہرکوئی اپنی مرضی سے لگارہا ہے لیکن اتنے سارے ہیٹ سینٹر مل کر بھی وہ فائدہ عوام کو نہیں پہنچاسکتے جو باقاعدہ رابطے کے ذریعے مشترکہ طور پر بنائے گئے سینٹر پہنچاتے۔



پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی بات جگہ جگہ ہوتی ہے ، میں یہ کہتا ہوں کہ سرکاری اداروں اور محکموں کو بھی آپس میں پارٹنر شپ کرنا چاہیے، وسائل کو اکٹھا کرکے منصفانہ اندازمیں استعمال کیا جائے تو عوام کو بہترسہولتیں دی جاسکتی ہیں۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ سندھ حکومت میں ایک کے بجائے 6 ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کیوں ہیں؟

ایک اور بڑا مسئلہ شہر میں اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی کمی کا ہے، سیکڑوں ڈاکٹر بہت سے عوامل کی وجہ سے ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں، بڑا مسئلہ امن وامان کا ہے جبکہ دوسری بڑی وجہ سرکاری اسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کا کم معاوضہ بھی ہے۔ ہمیں اس صورتحال پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ میں ایک بات بتائوں کہ شہر کی 70 فیصد آبادی اپنی بیماریوں کے علاج کیلیے نجی اسپتالوں میں جاتی ہے جبکہ صرف 30 فیصد عوام سرکاری اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ نجی اسپتالوں کا ڈیٹا کوئی نہیں لے سکتا۔

شہر میں سرکاری ایمبولینس سروس کے حوالے سے بل بالکل تیار ہے لیکن ان چیزوں کو آگے بڑھانے کے لیے ایک موثر پلیٹ فارم یا فورم ہونا ضروری ہے، ایک ایسا پائیدار سسٹم لایا جائے جس میں سب کا احتساب ہو اور سب اپنے حصے کا کام کریں تب ہی جاکر ہم ایسے حالات اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے قابل ہوسکیں گے۔ موجودہ بحران اور آئندہ کسی مشکل صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہم کام کررہے ہیں، مختلف علاقوں میں کیمپ لگارہے ہیں۔

ایک بات اور اہم ہے کہ موجودہ ہنگامی صورتحال میں شہر کے کئی نجی اسپتالوں نے ''جگہ نہیں ہے'' کے بورڈ لگادیے تاکہ انھیں اس بحرانی کیفیت کا سامنا نہ کرنا پڑے، ایسا نہیں ہونا چاہیے اور ایسا کرنے والوں کا احتساب بھی ضروری ہے۔ نجی اسپتالوں میں 10 فیصد بیڈز اور دیگر سہولتیں کسی بڑے حادثے کے لیے ہوتی ہیں، شہر کے بڑے نجی اسپتال تو اس قانون کو قبول کرتے ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ شہر کے تمام اسپتالوں کو اس قانون کے دائرہ کار میں لایا جائے۔ ہم نے لانڈھی اور پی آئی بی میں سردخانے بھی بنائے ہیں تاہم ان کی گنجائش کم ہے، اگر ٹائون کی سطح پر ہر علاقے میں سرد خانے ہوں تو صورتحال بہترہوسکتی ہے۔

پروفیسر ایم زمان شیخ
( پروفیسر آف میڈیسن، سرسید انسٹی ٹیوٹ آف ڈائیابٹیس اینڈ اینڈو کرینولوجی)
(سرسید کالج آف میڈیکل سائنس، کراچی)
٭گرمی تو ہر سال آتی ہے لیکن اس بار گرمی کی شدت غیر معمولی رہی جس کی وجہ سے ہمیں اتنا بڑا حادثہ دیکھنا پڑا۔ اندرون سندھ درجہ حرارت کراچی سے عموماً زیادہ ہوتا ہے لیکن وہاں اتنی اموات نہیں ہوئی ، وجہ یہ ہے کہ کراچی میں حبس زیادہ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس معاملے میں ہم نے کوتاہیاں کیں، ہمیں لازمی طور پر احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیے تھیں اور عوام کو بھی آگاہی دینا ضروری تھا۔

اس شدید گرم موسم میں احتیاطی تدابیر کے حوالے سے عوام کو بتانا چاہوں گا کہ غیر ضروری طور پر دھوپ میں نہ نکلیں، کوشش کریں کہ گھروں میں ہی رہیں یا سائے میں وقت گزاریں ، اگر دھوپ میں نکلنا ضروری ہو تو سرکو ڈھانپ کرجائیں ، سر پر اگر گیلا کپڑا ڈالیں تو زیادہ بہتر ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر احتیاطی تدابیراختیار کی جاتیں تو شاید کراچی میں شدید گرمی کی موجودہ لہر سے ایک آدمی بھی لقمہ اجل نہ بنتا۔



یہ تو سب کو معلوم ہے کہ ہمارے ملک میں مذہبی رجحان زیادہ ہے اور بیمار افراد بھی رمضان میں روزہ رکھنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں، ان میں شوگر کے مریض بھی ہوتے ہیں۔ ان کے حوالے سے بتانا چاہتا ہوں کہ اگر شوگر 60 سے کم ہو تو روزہ توڑدینا چاہیے ورنہ جان کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ سحری میں اگر شوگر لیول 70 ہو تو روزہ نہیں رکھنا چاہیے یا توڑدینا چاہیے۔ اسی طرح اگر شوگر لیول (رینڈم ) میں 350 سے بڑھ جائے تب بھی روزہ توڑدینا چاہیے کیونکہ ایسی صورتحال میں پیشاب بہت زیادہ آتا ہے اور ڈی ہائیڈریشن کا خطرہ ہوتا ہے۔ اب تو جان کو لاحق خطرات کی وجہ سے روزہ توڑنے کے فتوے بھی آرہے ہیں۔



میری رائے ہے کہ موجودہ بحران اور آئندہ کے مسائل سے نمٹنے کیلیے مستقل طور پر ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ہو نی چاہیے جو موثر طور پر اپنا کام انجام دے، شہر میں ایمبولینس سروس عالمی معیار کی ہونا ضروری ہے جس کے اندر تمام سہولتیں ہوں تاکہ اگر کسی مریض کو اسپتال پہنچانے میں تاخیر ہورہی ہو تو اسے ایمبولینس کے اندر ہی تمام طبی امداد دی جاسکے، تمام اداروں میں رابطہ موثر ہونا چاہیے تاکہ عوام کو بہتر سے بہتر سہولتیں اور خدمات فراہم کی جاسکیں اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف امور پر میڈیا کے ذریعے عوام میں شعور و آگاہی پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر طارق رفیع
(وائس چانسلر جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی)
٭ موجودہ بحران کی ذمے داری آخر میں تو صوبائی حکومت پر ہی آتی ہے، صحت کے بہتر انفرااسٹرکچر کے لیے ہمارے پاس جامع منصوبہ بندی ہونی چاہیے۔ سانحہ کراچی کے تناظر میں اس بات کا احساس شدت سے ہوا کہ تمام بڑے سرکاری اسپتالوں میں کافی گنجائش والے سردخانے ضروری ہیں، ہم کوشش کررہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ آئندہ 2 سال میں جناح اسپتال یونیورسٹی میں ایک بڑا سرد خانہ ہوگا جس میں 20, 22 میتوں کو رکھنے کی گنجائش ہوگی ۔ اس کے علاوہ عالمی معیار کی سرکاری ایمبولینس سروس کا نہ ہونا بھی تشویشناک بات ہے ۔

اس خلا کو جلد از جلد پُر کرنا ہوگا ۔ جس طرح پنجاب میں 1122 سروس چل رہی ہے، اس کا رسپانس بہت اچھا ہے، ایسی سروس سندھ میں خاص طور پر کراچی میں بہت ضروری ہے۔ہم جناح سندھ میڈیکل ایمبولینس سروس کیلیے بھی کام کررہے ہیں، اس سلسلے میں تجاویز جلد ہی گورنر اور وزیر اعلیٰ سندھ کو ارسال کردی جائیں گی جبکہ عوام کے لیے شہر کے مختلف علاقوں میں ڈائیگنوسٹک لیبارٹریاں بھی قائم کررہے ہیں تاکہ عوام کو ان کے گھروں کے قریب صحت کی سہولتیں مل سکیں، جناح میڈیکل یونیورسٹی شہر میں مختلف امراض کی تشخیص کے لیے بھی جدید ترین اقدامات کررہی ہے، اس سلسلے میں مرکزی لیبارٹری یونیورسٹی میں قائم کردی گئی ہے جہاں سستے داموں ایم آرآئی، سی ٹی اسکین اور دیگر ٹیسٹ کی سہولت دستیاب ہوگی۔



اس وقت ملک بھر میں کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال یا قدرتی آفت سے نمٹنے کے وسائل ہیں نہ تربیت ، ہماری یہ کوتاہی 2005 کے زلزلے میں کھل کر سامنے آگئی تھی۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کسی سانحے یا حادثے کے وقت تو نظر آتی ہے لیکن اسے عام حالات میں بھی شہریوں کی تربیت اور آگاہی کے لیے فعال رہنا چاہیے۔دیکھیں یہ بات سب کو ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کراچی شہر زلزلے کی فالٹ لائن پر واقع ہے، اگر خدانخواستہ یہاں بڑی شدت کا زلزلہ آگیا تو ہمارے پاس بچائو کے کوئی انتظامات نہیں ہیں، ایسی صورت میں لاکھوں جانیں ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔

ایک ماہ قبل بھارت میں ایسی ہی شدید گرمی کی لہر سے چند دنوں میں کئی ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے، ہمیں اسی وقت چوکنا ہوجانا چاہیے تھا، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے بھی اس سلسلے میں مددلینی چاہیے تھی، کیونکہ یہ ہم سب کی اجتماعی ذمے داری ہے۔ مل کر کام کیا جاتا اور احتیاطی تدابیر پہلے سے اختیار کی جاتیں تو شاید ہم کچھ قیمتی جانیں بچالیتے۔ دنیا بھر مٰں قدرتی آفات آتی رہتی ہیں لیکن انھوں نے ان سے بچائو کیلیے کافی جامع اقدامات کیے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے انسانی جانوں کا نقصان کم سے کم ہوتا ہے۔

موجودہ ہنگامی صورتحال میں بھی ڈاکٹروں نے اپنی سطح پر ہر ممکن کوششیں کیں لیکن ان جونیئر ڈاکٹروں نے ایسی صورتحال کبھی دیکھی ہی نہیں تھی اور پھر وسائل کی کمی اور سہولتوں کے فقدان نے معاملہ مزید بگاڑدیا۔ شدید گرمی سے جاں بحق افراد میں 80 فیصد لوگ 60 سال یا اس سے زائد کے یا 4 سال سے کم عمر تھے ، ان میں قوت مدافعت کی کمی تھی اس لیے وہ شدید گرمی کی لہر کو برداشت نہ کرسکے۔ پھر 80 فیصد لوگ سرکاری اسپتالوں میں گئے جبکہ 20 فیصد نے نجی اسپتالوں کا رخ کیا، اب شہر میں دو تین ہی سرکاری اسپتال ہیں ۔



ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر ضلع میں بڑے سرکاری اسپتال ہونے چاہئیں، شپر مٰں بہت سے اسپتال پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے تحت چل رہے ہیں،ان میں مزید اضافہ بھی کیاجاسکتا ہے۔میری کراچی کے عوام سے اپیل ہے کہ وہ جب ہر موقع پر عطیات و خیرات دینے میں سب سے آگے رہتے ہیں تو شہر میں مزید سرکاری اسپتالوں کے لیے بھی آگے آئیں۔ میں ایک مثال دوں ، سانحہ کراچی کے ابتدائی دو روز میں ہم نے ایس ایم ایس کے ذریعے عوام سے پانی طلب کیا، اب صورتحال پہلے کے مقابلے میں کافی بہتر ہوچکی ہے لیکن ہمارے پاس 2 کمرے پانی کی بوتلوں سے بھرے ہوئے ہیں۔

ہم اپنی یونیورسٹی کے تحت طبی عملے اور ایمبولینس سروس کے اسٹاف کو تربیت فراہم کررہے ہیں تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں ہم بہتر سے بہتر طریقے سے کام کریں اور انسانی جانیں بچاسکیں۔ موجودہ بحران کا ایک اور بڑا سبب بلڈنگوں کا جنگل ہے، شدید گرمی سے مرنے والوں میں درجنوں افراد ایسے مکانات یا فلیٹوں کے رہائشی تھے جہاں ہوا کا گزر ہی ممکن نہیں، میری بلڈنگیں بنانے والوں سے بھی درخواست ہے کہ وہ کسی بھی رہائشی منصوبے کو مکمل کرتے وقت تمام قوانین اور ضوابط کا بھرپور خیال رکھیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔