’’ڈیگوگارشیا‘‘
پچاس برس سے’’پر اسرار‘‘ ڈیگو گارشیا کا چرچا ہوتا رہا ہے اور امریکی حکام مسلسل دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہے ہیں
1968 سے 1973 تک چاگوس میں ظالمانہ ضابطے بنتے رہے۔ فوٹو : فائل
انھوں نے وہاں کے کتوں کو پہلے گولی مار کر ہلاک کرنا چاہا، پھر انھیں زہر دے کر ختم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ دونوں طریقے موثر ثابت نہ ہوسکے۔ آخر کار، برطانوی حکومت کے ایجنٹوں اور امریکی بحریہ کے سورماؤں نے کتوں کو پھسلا کر جمع کرنے کے لیے کچے گوشت کی بوٹیاں استعمال کیں۔ انھیں امریکی فوجی گاڑیوں میں بند کرکے زہریلی گیس کا چھڑکاؤ کیا گیا، اور جب بے بسی کے عالم میں بھونکتے بھونکتے انھوں نے دم توڑ دیا تو ناریل کے چھلکوں کے ڈھیر میں آگ لگا کر انھیں اس میں جھونک دیا گیا۔ کتوں کے مالک بے بسی سے یہ تماشا دیکھتے رہے، اور یہ سوچ کر خوف سے لرزتے رہے کہ اب ان کا انجام کیا ہوگا۔ انہیں ہلاک نہیں کیا گیا، لیکن موت سے بد تر زندگی ان کا انتظار کر رہی تھی۔
ڈیگو گارشیا کے جزیرے پر خفیہ فوجی اڈا قائم کرنے کے لیے اس قسم کے بہت سے ظالمانہ اقدامات کیے گئے۔ طویل عرصے تک وائٹ ہاؤس انکار کرتا رہا کہ ڈیگوگارشیا کو اس نے اپنا فوجی اڈا بنا رکھا ہے، جہاں سے امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے اردگرد کے خطوں میں بڑے پیمانے پر خفیہ کارروائیاں کی جاتی رہی ہیں۔ دراصل بحر ہند کے اس دور اُفتادہ جزیرے میں جنم لینے والی یہ پوری کہانی ایسے پراسرار واقعات سے بھری ہوئی ہے جو کسی خلائی مخلوق کی سرگرمیوں پر مبنی سائنس فکشن میں ہم پڑھتے ہیں۔
پچاس برس سے ''پر اسرار'' ڈیگو گارشیا کا چرچا ہوتا رہا ہے، اور امریکی حکام مسلسل دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہے ہیں، یہ افسانے ہمارے خلاف پروپیگنڈے کا حصہ ہیں۔
ڈیگوگارشیا دراصل بحرہند میں واقع ایک مجمع الجزائر، چاگوس، کا سب سے بڑا جزیرہ ہے، جو برطانوی حکومت کے زیرتسلط ہے۔ اس جزیرے کا محل وقوع پینٹاگون کو اس قدر بھایا کہ وہ اس پر اپنا تسلط قائم کرنے کا منصوبہ بنانے لگا۔ امریکی حکومت کو زیادہ تگ ودو نہیں کرنی پڑی، برطانوی حکومت نے فوراً سر تسلیم خم کر دیا۔ وہ تو ایک عرصے سے مکمل طور پر امریکا کے وفادار حواری کا کردار انجام دے رہا ہے۔ وہ کیسے انکار کرتا، بلکہ برطانوی خفیہ ایجینسی نے تمام معاملات میں اپنے امریکی آقاؤں کا بڑھ چڑھ کر ہاتھ بٹایا۔
سب کچھ خفیہ طور ہرطے پایا، پھر جب چار و ناچار امریکی حکام نے ڈھکے چُھپے الفاظ میں ڈیگو گارشیا میں اپنی موجودگی کا اعتراف کیا بھی تو اس میں کھوٹ کا عنصر نمایاں طور پر شامل تھا۔ کہا گیا کہ یہ جزیرہ غیرآباد تھا۔ یہ کُھلا جھوٹ تھا۔ جزیرے کے قدیم باشندوں کو بہ جبر خفیہ طور پر جلاوطن کردیا گیا تھا۔ ان کے آباواجداد ڈھائی سو سال پہلے وہاں آباد ہوئے تھے۔ برطانوی اور امریکی حکام نے کہانی گڑھی کہ چاگوس میں رہنے والے یہاں کے مستقل باشندے نہیں تھے، بلکہ وہ خانہ بدوش یا کنٹریکٹ پر کام کرنے والے عارضی ملازمین تھے۔ لیکن ساتھ ساتھ زبردست نے اپنا ٹھینگا بھی دکھایا، جیسے ایک امریکی افسر نے کھردرے انداز میں شیخی بگھاری، ''ہم جہاں جاتے ہیں، وہاں کے قوانین اور ضابطے خود بناتے ہیں۔''
1968 سے 1973 تک چاگوس میں ظالمانہ ضابطے بنتے رہے، اور امریکی حکام نے برطانوی حکام کی ملی بھگت سے بڑی ہوشیاری کے ساتھ کانگریس کو لاعلم رکھتے ہوئے چاگوس کے تمام باشندوں کو جزیرے سے بے دخل کردیا۔ کانگریس کے علاوہ میڈیا اور اقوام متحدہ کو بھی اس واقعے کا علم نہ ہوسکا۔ مقامی باشندوں کی جبری بے دخلی کے دوران برطانوی ایجنٹوں اور امریکی نیوی کی ایک کنسٹرکشن بٹالین کے کارکنوں نے وہاں کے پالتو کتوں کو گھیر کر مار ڈالا، پھر ان کے مالکوں کو زبردستی بے دخل کرکے ان کے وطن سے 1200 میل دور بحرہند کے جزائر، ماریشس اور سیسشلز میں چھوڑ دیا گیا۔
وہاں ان کے لیے سر چھپانے کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔ امریکی جہازوں نے انھیں وہاں اتارا اور فوراً رفو چکر ہوگئے۔ چالیس سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ جلاوطن چاگوس والے ماریشس اور سیشلز کے غریب ترین لوگ گنے جاتے ہیں۔ جن مقامات پر وہ آباد ہیں، باہر والے انھیں تفریحی مراکز کے طور پر جانتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود چاگوس والے وہاں نان شبینہ کو ترستے ہیں۔
اس عرصے میں ڈیگوگارشیا اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے امریکی بحریہ اور فضائیہ کے ایک ایسے اڈے میں تبدیل ہوگیا جہاں سے ''عظیم تر مشرق وسطی''ٰ اور اس کے قدرتی وسائل کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق، سرکاری طور پر صرف گنے چنے امریکی افسروں کو اس اڈے کے تمام رازوں کا علم ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فوجی اعتبار سے یہ اڈا گوانتاناموبے کے فوجی اڈے سے کہیں زیادہ اہم اور ''محفوظ'' ہے، اور وہاں گوانتانامو سے زیادہ رازداری برتی جاتی ہے۔
گوانتانامو کے برعکس، گزشتہ تیس سال میں کسی بھی صحافی کو دور سے ڈیگو گارشیا کی جھلک نظر آنے کے سوا کوئی منظر دکھائی نہیں دیا۔ جہاں تک اس کی اہمیت کا تعلق ہے، 2003 میں عراق پر حملہ، افغانستان کے خلاف جنگ اور حال ہی میں شام اور ایران کے اندر بم باری کی مہم میں اس اڈے نے کلیدی کردار ادا کیا۔
امریکا اور برطانیہ سال ہا سال تک اس بات کی تردید کرتے رہے کہ ڈیگو گارشیا میں سی آئی اے کا ایک خفیہ قید خانہ بھی ہے، جہاں مشتبہ دہشت گردوں کو رکھا جاتا ہے۔ تاہم، 2008 میں بحراوقیانوس کے دونوں اطراف (امریکا اور برطانیہ) کے لیڈروں نے کسی حد تک اس حقیقت کو تسلیم کرلیا۔ مثال کے طور پر، سیکریٹری آف اسٹیٹ ملی بینڈ نے ایک بیان میں کہا، ''پہلے کی واضح یقین دہانیوں کے برعکس، ڈیگوگارشیا نے واقعتاً سی آئی اے کے خفیہ ''پروگرام'' میں کچھ نہ کچھ کردار ادا کیا ہے۔''
پچھلے سال برطانوی حکام نے ایک نرالے انداز میں اعترافِ جرم کیا،''ہماری پروازوں کا ریکارڈ، جو ان پروگراموں پر روشنی ڈال سکتا تھا، جون 2014 کے تباہ کن موسم میں پانی سے پہنچنے والے نقصانات کی وجہ سے نامکمل ہے۔'' ایک ہفتے کے بعد انھوں نے پلٹا کھاتے ہوئے کہا کہ ''پانی میں بھیگے وہ کاغذات اب خشک ہوچکے ہیں۔'' اور دو مہینے کے بعد انھوں نے پھر قلابازی کھاتے ہوئے کہا، ''بھیگے کاغذات کے خشک ہونے کی خبر بے بنیاد ہے، وہ اس حد تک خستہ ہوچکے ہیں کہ اب کسی کام کے نہیں رہے۔'' ستم ظریفی یہ کہ خود برطانیہ کے اپنے موسمیاتی ریکارڈ کے مطابق جون 2014 میں ڈیگوگارشیا کا موسم غیر معمولی طور پر خشک تھا۔ پھر وہ اہم کاغذات ''گیلے'' کیسے ہوئے؟ ایک بار قانونی حقوق کے ماہر ایک وکیل نے کہا تھا، ''برطانوی حکام اس طالب علم کی طرح مضحکہ خیز بیانات دیتے ہیں، جو کہتا ہے کہ میرا ہوم ورک کتے نے کھا لیا ہے۔''
سب کچھ ان کے حق میں رہا لیکن اب چار عشروں کے بعد چاگوس کے جلاوطن ہونے والے باشندوں کی جانب سے یہ مہم تیز تر کردی گئی ہے کہ ہم اپنے وطن واپس جانا چاہتے ہیں۔ ایسے میں ڈیگوگارشیا کے بارے میں امریکی حکام کے سفید جھوٹ کا غبارہ ایک دھماکے کے ساتھ پھٹنے والا ہے۔
ڈیگوگارشیا کی کہانی کا آغاز 18 ویں صدی کے اواخر سے ہوتا ہے۔ اس وقت پہلی بار افریقی غلام ناریل کی فصل کاری کے لیے چاگوس کے جزیروں میں لائے گئے۔ وہ یہاں کے پہلے آبادکار تھے۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد جب انڈیا سے کنٹریکٹ پر آنے والے مزدوروں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو متنوع نسلوں کے امتزاج سے ایک نئی سوسائٹی نے جنم لیا، جس کی ایک اپنی زبان بن گئی، جسے ''چاگوس کریول'' کہا گیا۔ انھوں نے خود کو ''الوئس'' یعنی ''جزیرے پر رہنے والے'' کہا۔
اگرچہ اس معاشرے کے لوگ شجرکاری کے شعبے سے وابستہ تھے، لیکن برطانوی نوآبادیاتی تسلط میں ہونے کے باوجود وہ قدرے آسودگی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ سرد جنگ کے دوران جب سوویت یونین سے مقابلہ بازی عروج پر تھی، امریکی حکام اس بات پر فکرمند تھے کہ بحرہند کے اندر یا اس کے اطراف میں فوجی اعتبار سے امریکا کہیں موجود نظر نہیں آتا۔ انھوں نے دیکھا کہ ڈیگوگارشیا الگ تھلگ ایک جزیرہ ہے (افریقا اور انڈونیشیا کے بیچ اور جنوبی انڈیا سے ایک ہزار میل دور) اس لیے یہ ہر قسم کے حملے سے محفوظ رہے گا، اور وہاں سے افریقا کے جنوبی خطے اور مشرق وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا کی جانب کارروائی کرنا بھی آسان ہوگا۔
اس تحقیق کے بعد صدر جان ایف کینیڈی اور نائب صدر لنڈن بی جانسن کی حکومت نے برطانوی حکومت کو اس بات پر قائل کرلیا کہ چاگوس کو ماریشس کی نوآبادی سے جدا کرکے ایک نئی نوآبادی تخلیق کی جائے، جسے انھوں نے ''برطانوی بحرہند کا علاقہ'' قرار دیا۔ یہ بھی طے پایا کہ اس کا واحد مقصد وہاں امریکی فوجی تنصیبات قائم کرنا ہوگا۔
اس کے لیے جو معاہدہ دونوں کے درمیان طے پایا، اس کے بارے میں دونوں ممالک کی پارلیمنٹوں کو اندھیرے میں رکھا گیا۔ سب کچھ خفیہ اور بالابالا ہوا۔ ظاہر یہ کیا گیا کہ اس معاہدے کے تحت امریکا کو اس نوآبادی پر تصرف کے عوض کوئی ادائیگی نہیں کرنی پڑی۔ لیکن یہ بھی افسانہ طرازی تھی۔ خفیہ دستاویزات کے مطابق اس کے عوض امریکا نے برطانیہ کو 14 ملین ڈالر کا قرضہ معاف کردیا، جس سے برطانیہ نے اس سے جنگی ہتھیار خریدے تھے۔ اس معاہدے کے تحت برطانوی حکام کو یہ فرض سونپا گیا کہ وہ چاگوس کے مکینوں کو دوسری جگہوں پر آباد کرنے کے لیے ''انتظامی اقدامات'' کریں گے۔
ان اقدامات کی ابتدائی کڑی یہ حکم نامہ تھا کہ اگر چاگوس کا کوئی باشندہ علاج معالجے کے لیے یا چھٹیاں منانے کے لیے بھی ماریشس جائے گا، تو وہ واپس نہیں آسکے گا۔ اس کے ساتھ ہی لوگوں کو پریشان کرنے کے لیے برطانوی حکام نے خوراک اور ادویات کی رسد پر پابندی لگانا شروع کردی۔ اقتصادی صورت حال خراب تر ہونے لگی تو جزیرے کے باشندے وہاں سے رخصت ہونے لگے۔ 1970 تک امریکی نیوی کو ایک کمیونی کیشن اسٹیشن کی تعمیر کے لیے کانگریس سے خاطرخواہ رقم ادا کردی گئی۔ ہوتے ہوتے یہ ''کمیونی کیشن اسٹیشن '' ایک ارب ڈالر کا پروجیکٹ بن گیا، جو دراصل ایک بڑے فوجی اڈے کا منصوبہ تھا۔
نیوی نے امریکی کانگریس کو بریف کرنے کے لیے جو کاغذات پیش کیے، ان میں یہ تاثر دیا گیا کہ ''جزیرے کی آبادی قابل ذکر نہیں، بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ وہاں کوئی آبادی نہیں ہے''، جب کہ 1960 کے عشرے میں ڈیگوگارشیا کی آبادی ایک ہزار نفوس پر مشتمل تھی، اور چاگوس کے دوسرے جزیروں میں بھی 500 تا ایک ہزار لوگ آباد تھے۔
1971 میں ان کی قسمت کا فیصلہ امریکی نیوی کے ایڈمرل ایلموزم واٹ نے مختصر ترین الفاظ میں سنایا، ''بالکل، انھیں لازماً جانا ہوگا۔'' چناںچہ چاگوس کے مکینوں کی بے دخلی کا عمل شروع ہوا، اس طرح کہ انھیں صرف ایک باکس اور سونے کے لیے صرف ایک چٹائی ساتھ لے جانے کی اجازت تھی۔ 1973 تک سب کو کارگو جہازوں پر لاد کر ماریشس کے ساحل پر اتار دیا گیا۔
چاگوس والے بے گھر، بے زمین اور بے روزگار رہے۔ دو سال بعد واشنگٹن پوسٹ کے ایک نمائندے نے لکھا، ''وہ ناقابل بیان غربت سے گزر رہے ہیں۔'' اوریلی ٹالیٹ ماریشس پہنچنے والے آخری لوگوں میں شامل تھی۔
اس نے بتایا، ''میں اپنے چھ بچوں اور ماں کے ساتھ یہاں پہنچی۔ ہمیں ایک ایسی کُٹیا ملی، جس کا کوئی دروازہ نہیں تھا، اس میں پانی نہیں تھا، بجلی نہیں تھی، اور اس میں، میں اور میرے بچے اذیت کی زندگی بسر کرنے لگے۔ بچے سب بیمار رہتے تھے۔''دو مہینے کے اندر اس کے دو بچے مر گئے۔ لوگوں نے دوسرے بچے کو نامعلوم جگہ پر دفن کردیا، کیوں کہ اس کی تدفین کے اخراجات ادا کرنے کی اس کے اندر سکت نہیں تھی۔ خود اوریلی پر بار بار غشی کے دورے پڑتے تھے اور اس کی بھوک اُڑ گئی تھی۔ ''ہم سچ مچ جانوروں کی زندگی بسر کر رہے تھے۔'' اس نے بتایا، ''زمین۔۔۔۔ہمارے پاس نہیں تھی۔ روزگار۔۔۔۔ہمارے پاس نہیں تھا۔ اور بچوں کے اسکول جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔''
آج طویل عرصہ گزرنے کے باوجود چاگوس والے، جن کی تعداد پانچ ہزار سے زیادہ ہے، انتہائی عسرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کے دُکھوں نے انھیں بے حال کر رکھا ہے۔ اوریلی کہتی ہے، ''ہم اپنی زمین پر آزاد بھی تھے، اور آسودہ حال بھی تھے۔ یہاں ہم اب تک اجنبی ہیں اور یہاں ہمارا کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔''
دسمبر 2010 میں وکی لیکس میں لندن میں امریکی سفارت خانے کے ایک کیبل کا انکشاف کیا گیا جو اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے جاری کیا تھا۔ اس کیبل میں وزارت خارجہ کے ایک سینیر افسر کا یہ بیان نقل کیا گیا کہ ''اگر چاگوس کے تمام جزیرے میرین کے خصوصی علاقے میں شمار ہوتے ہیں تو وہاں کے سابق مکینوں کے لیے دوبارہ وہاں آباد ہونے کے لیے اپنے دعوے پر اصرار کرنا مشکل ہوگا۔'' ساتھ ہی سیاسی قونصلر رچرڈ ملز نے لکھا، ''میرین کے لیے خصوصی علاقہ قائم کرنے کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ چاگوس جزائر کے رہنے والے یا ان کے ورثا دوبارہ وہاں آباد نہیں ہوسکتے۔''
اگرچہ یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس نے آخر کار 2013 میں چاگوس والوں کے خلاف فیصلہ سنایا تھا، لیکن امسال اقوام متحدہ کے ایک ٹریبونل کا یہ فیصلہ سامنے آیا ہے کہ ''برطانوی حکومت نے 'میرین پروٹیکٹڈ ایریا' تخلیق کرکے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی تھی۔'' چند دنوں میں چاگوس والے ''میرین پروٹیکٹڈ ایریا'' کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے کے لیے برطانیہ کی سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کرنے والے ہیں۔
قانونی جنگ سے قطع نظر اب دوسرے محاذوں پر بھی چاگوس والوں کے حق میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ حال ہی میں یورپین پارلیمنٹ نے ایک قرارداد کے ذریعے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔ افریقن یونین نے چاگوس سے ان کے انخلا کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے اس عمل کی مذمت کی ہے۔ نوبل انعام پانے والے تین اسکالروں اور برطانوی پارلیمنٹ کے درجنوں اراکین نے مل کر ایک گروپ تشکیل دیا ہے جو چاگوس والوں کی جدوجہد کی حمایت کے لیے عملی اقدامات کر رہا ہے۔
امسال جنوری کے مہینے میں برطانوی حکومت کی ایک مطالعاتی رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ''چاگوس والوں کی واپسی کے راستے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے۔'' اس رپورٹ کے مرتبین نے ساتھ ساتھ انھیں آباد کرنے کے لیے مختلف قسم کی تجاویز بھی پیش کی ہیں۔ خود چاگوس والے اس معاملے میں منقسم ہیں۔ ان کا ایک گروپ امریکی فوجی اڈے کو ہٹانے کا مطالبہ نہیں کر رہا ہے۔ شاید ان کا خیال یہ ہے کہ وہاں اڈا موجود ہوگا، تو وہاں ان کے لیے روزگار کے دروازے بھی کھل جائیں گے۔
گزشتہ چالیس سال کے دوران ڈیگوگارشیا ہزاروں امریکی فوجیوں اور سول ملازمین کا مسکن رہا ہے، جب کہ اس کے اصل باشندے وہاں سے بھگا دیے گئے ہیں۔ ''ڈیگوگارشیا منصوبے'' کا خالق امریکی سول انجنیر اسٹیوارٹ باربر کو مرنے سے پہلے احساس جرم نے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ چاگوس والے ماریشس میں اب تک جانوروں جیسی زندگی بسر کر رہے ہیں تو اس نے ان کی مدد کرنے کے لیے ہیومن رائٹس واچ اور واشنگٹن میں برطانوی سفارت خانے کو خط لکھے کہ چاگوس والوں کی دست گیری کی جائے اور انھیں گھر واپس جانے میں مدد فراہم کی جائے۔ اس نے ایک امریکی سینیٹر ٹیڈ اسٹیونز کے نام اپنے خط میں واضح الفاظ میں لکھا کہ ''فوجی نقطۂ نظر سے ان کی بے دخلی ضروری نہیں تھی۔''
1991میں ''واشنگٹن پوسٹ'' کے نام اپنے مراسلے میں اسٹیوارٹ باربر نے لکھا، ''اب وقت آگیا ہے کہ ہم ان ناقابل معافی غلطیوں کا ازالہ کریں جو برطانیہ نے ہمارے اصرار پر کی تھیں۔ گزشتہ سالوں میں سخت ترین مصائب سے گزرنے کے عوض انھیں معقول معاوضہ دیا جانا چاہیے، خواہ وہ ایک لاکھ ڈالر فی خاندان ہی کیوں نہ ہو۔ مجموعی رقم زیادہ سے زیادہ چالیس پچاس ملین ڈالر بنے گی۔ لیکن یہ رقم وہاں ہمارے اڈے کی تعمیر پر صرف ہونے والی رقم کے سامنے کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔''
بہ ہرحال، چوتھائی صدی گزرنے کے باوجود عملی طور پر کوئی تبدیلی نمودار نہیں ہوئی۔ 2016 میں ڈیگوگارشیا کے لیے ابتدائی معاہدے کی میعاد ختم ہوجائے گی۔ تاہم اسے مزید بیس سال کے لیے توسیع دی جاسکتی ہے۔ چاگوس والے امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں، اور ان کے حق میں مختلف محاذوں سے آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں۔ امریکا نے برطانوی حکومت کو اجازت بھی دے دی ہے کہ وہ چاگوس والوں کو دوبارہ اپنی زمین پر آباد کرنے کے لیے ممکنہ انتظامات پر غور کرے۔ ایسا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا، اگر ہوتا ہے تو کب ہوتا ہے، کسی کو معلوم نہیں۔ لیکن گھر واپس جانے کی آرزو دل میں لیے ہزاروں چاگوس والے موت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، اور بچنے والوں میں بہت سارے ایسے ہیں جو دُکھوں کی بھٹی میں جلتے ہوئے موت کا انتظار کر رہے ہیں۔
محل وقوع اور تاریخ
ڈیگوگارشیا خطِ استوا کے جنوب میں بحرہند کے وسط میں واقع ہے۔ ڈیگوگارشیا مجمع الجزائر چاگوس کے 60 جزیروں میں سب سے بڑا جزیرہ ہے، اور عام طور پر سب کے لیے ڈیگوگارشیا کا نام زیادہ مستعمل ہے۔
ڈیگوگورشیا کو سب سے پہلے فرانسیسی نوآبادکاروں نے 1790 میں آباد کیا۔ نپولین کے دور میں فرنچ فوج کی شکست کے بعد یہ مجمع الجزائر برطانیہ کی عمل داری میں آگیا، اور اسے ماریشس کے زیرنگرانی علاقے کی حیثیت دے دی گئی۔ پھر 1965 میں ''برٹش انڈین اوشین ٹیرے ٹری'' کے نام سے ایک خطہ تخلیق کرکے اسے اس میں شامل کردیا گیا۔ 1968 اور 1973 کے دوران یہاں کی آبادی کو بے دخل کرکے ماریشس اور سیشلز میں منتقل کردیا گیا، کیوں کہ ڈیگوگارشیا میں ایک بڑا فوجی اڈا تعمیر کرنا تھا۔ اس اڈے سے امریکا کی فوجی کارروائیاں اور سی آئی اے کے آپریشن بدستور جاری ہیں۔ماریشس اور برطانیہ کے درمیان مجمع الجزائر چاگوس، بشمول ڈیگوگارشیا، کی ملکیت کا مسئلہ وجہ نزاع ہے۔ اور دوسری طرف یہاں کے بے دخل ہونے والے باشندوں کا مسئلہ بھی سنگین ہوتا جا رہا ہے۔
امریکا اور برطانیہ کے درمیان ڈیگوگارشیا میں فوجی اڈا قائم کرنے کا منصوبہ مکمل کرنے کے لیے برطانیہ نے نومبر 1965 میں ماریشس کی خود اختیاری حکومت سے تین ملین ڈالر کے عوض مجمع الجزائر چاگوس خرید لیا تھا۔ جب برطانیہ نے چاگوس والوں کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تو ماریشس کی حکومت نے انھیں قبول کرنے سے انکار کردیا۔ ماریشس اس وقت تک ایک خودمختار، آزاد ملک کی حیثیت سے وجود میں آچکا تھا۔ چناںچہ برطانیہ نے اسے چاگوس والوں کو قبول کرنے کے لیے ساڑھے چھ لاکھ ڈالر ادا کیے۔
چاگوس والے وہاں پہنچ تو گئے، لیکن انھیں اجنبیوں کی حیثیت حاصل ہے، اور وہ شدید ناداری کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں۔ 2015 میں سیکریٹری آف اسٹیٹ کولن پاویل کے چیف آف اسٹاف لارنس ولکرسن نے اعتراف کیا تھا کہ امریکی سی آئی اے ڈیگوگارشیا کو مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتی رہی ہے۔
اس نے کہا، میں نے امریکی انٹیلی جینس کے تین ذرائع سے سنا ہے کہ ڈیگو گارشیا کو ایک ٹرانزٹ سائٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جہاں لوگوں کو عارضی طور پر قید کیا جاتا ہے، اور ان سے جرح کی جاتی ہے۔ میں نے سنا ہے، ڈیگوگارشیا کو اس مقصد کے لیے اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب دوسری جگہوں پر گنجایش نہیں ہوتی یا جب دوسری جگہیں زیادہ پُرخطر ہوجاتی ہیں۔ جون 2014 میں برطانوی فارن سیکریٹری، جیک اسٹرا نے ایک بیان میں کہا کہ امریکی حکام متعدد بار اسے یقین دلاچکے ہیں کہ ڈیگوگارشیا میں کسی کو حراست میں نہیں رکھا گیا۔
ڈیگوگارشیا کا اس ضمن میں زور و شور سے ذکر اس وقت ہوا جب امریکا کے ایک اہم ملزم، القاعدہ کے خالد شیخ محمد کو یہاں زیرحراست رکھنے کا چرچا ہوا۔ 2007 میں برطانوی پارلیمنٹ کی ''فارن افیئرز سلیکٹ کمیٹی نے اعلان کیا کہ وہ ایک تحقیقاتی مہم شروع کر رہی ہے، کیوںکہ ہمیں ڈیگو گارشیا میں قید خانے کی اطلاعات بار بار موصول ہو رہی ہیں۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ امریکا کے فوجی جنرل بیری میکفرے دو بار اس اطلاع کی تصدیق کر چکے ہیں۔
9 دسمبر 2014 کو امریکی سینیٹ انٹیلی جینس کمیٹی نے سی آئی اے کی غلط کاریوں کے بارے میں 6700 صفحات کی ایک رپورٹ کا اَن کلاسیفائیڈ خلاصہ 600 صفحات پر شایع کیا۔ پراسرار طور پر ان صفحات میں ڈیگوگارشیا کے قیدخانے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ مبصرین کے خیال میں اس کا ذکر کلاسیفائیڈ صفحات میں بند ہے۔ بھارت کی متعدد سیاسی پارٹیاں بحرہند میں اس امریکی اڈے کو ہٹانے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں، کیوں کہ ان کے خیال میں یہ علاقائی امن کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ تاہم گزشتہ چند برسوں کے دوران بھارت اور امریکا ایک دوسرے کے اور قریب آگئے ہیں اور 2001 اور 2004 کے درمیان امریکا اور انڈیا کی جنگی بحری مشقیں ڈیگوگارشیا ہی میں ہوتی رہی ہیں۔
Fantasy Land
ڈیگوگارشیا بحرہند کا ایک دور افتادہ جزیرہ ہے، اس لیے امریکی فوجی اڈے کے لیے وہ ایک محفوظ پناہ گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی لیے اسے "Fantasy Land" کا نام دیا گیا ہے۔ مارچ 1971 میں امریکی نیوی کی کنسٹرکشن بٹالینوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا، جنھوں نے سب سے پہلے مواصلاتی مراکز اور ہوائی اڈے تعمیر کیے۔
1970 کے بعد امریکا کو متعدد محاذوں پر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ سب سے بڑی شکست ویت نام میں ہوئی۔ کمبوڈیا میں کھمیرروج نے غلبہ حاصل کرلیا۔ پاکستان میں جاسوسی کے لیے استعمال ہونے والا پشاور ایئراسٹیشن اور اریٹیریا میں کیگنو ایئر اسٹیشن بند ہوا۔ عدن میں سوویت نیوی کی طاقت میں اضافہ ہوا اور باربیرا، صومالیہ، میں ایک سوویت ایئربیس تعمیر ہوا۔ ایسے میں ان تمام علاقوں میں بروقت اور تیزرفتاری سے فوجی کارروائیاں کرنے کے لیے امریکا کو ایک نیا اور محفوظ اڈا تعمیر کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ سروے کیا تو ڈیگوگارشیا سازگار مقام نظر آیا۔ چناں چہ اس نے برطانیہ کو آمادہ کرلیا کہ وہ یہ جزیرہ اس کے حوالے کردے۔ابتدائی مرحلے میں اس اڈے کی تعمیر پر 400 ملین ڈالر صرف ہوئے۔ بعد میں ان اخراجات میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ سب سے پہلے دو متوازی رن وے تعمیر کیے گئے، جن میں سے ہر ایک کی لمبائی بارہ ہزار فیٹ ہے۔ اس کے علاوہ، اہم تنصیبات میں بھاری بم بار طیاروں کے لیے پارکنگ ایپرن، Lagoon میں 20 نئے Anchorages، گہرے پانی میں ایک ُپشتہ۔ بڑے امریکی بحری بیڑوں کے لیے بندرگاہ کی سہولتیں، ایئر کرافٹ ہینگرز، مینٹیننس بلڈنگز ، اور ایک ایئرٹرمینل، 1340000 بیرل تیل ذخیرہ کرنے کے لیے ایک ذخیرہ گاہ اور ہزاروں فوجیوں اور سول ملازمین کے لیے قیام و طعام کی سہولتیں شامل ہیں۔1985 میں بندرگاہ میں نئی سہولتوں کی تعمیر کا کام مکمل ہوا، جس سے طیارہ بردار بحری جہازوں کا پڑاؤ آسان ہوا۔ 1987 میں نئی ایئر فیلڈز پر B-52 بم بار طیاروں اور فضا میں ایندھن بھرنے والے طیاروں کو رکھنا آسان ہوا۔ اگست 1990 میں کویت پر عراق کے حملے کے بعد گلف وار میں حصہ لینے کے لیے یہاں سے ایک میرین بریگیڈ کو سعودی عرب پہنچانے کے لیے تین بحری جہاز روانہ کیے گئے۔ پھر دو بحری جہازوں سے ڈیگوگارشیا میں بھاری ہتھیار اور تیل اتارا گیا، جو وہاں متعین امریکی بمبار طیاروں کے لیے تھے۔ پھر B-524 بم بار نے 44 دن کے دوران 17 گھنٹے بم باری کے لیے 200 پروازیں مکمل کیں، اس دوران عراق اور کویت پر 73 کروڑ کلو وزنی بم گرائے گئے۔
7 اکتوبر 2001 سے امریکا نے دوبارہ ڈیگوگارشیا سے اپنی فوجی کارروائیوں کا آغاز کیا، اور اس کے بی ون، بی ٹو اور بی باون طیاروں نے افغانستان پر دشمنوں کو نشانہ بنایا۔ 2003 کے موسم بہار میں جنگ عراق کے دوران ایک بار پھر یہاں متعین بم بار طیاروں کے ذریعے ''دشمن'' کے خلاف کارروائیاں کی گئیں۔ اور عراق کے شہروں پر بھاری بم باری کی گئی۔ 15 اگست 2006 کو ڈیگوگارشیا سے بم باری کے آپریشنوں کا یہ سلسلہ اختتام کو پہنچا۔ ان جنگوں کے دوران امریکا کی اتحادی افواج، آسٹریلین، جاپانی اور جمہوریۂ کوریا، کے دستے بھی یہاں مقیم رہے۔ اس وقت ایک اطلاع کے مطابق ڈیگوگارشیا میں پانچ ہزار فوجی اور سویلین موجود ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر اس سارے علاقے کی نمائندگی برطانیہ کرتا ہے۔ وہاں کسی مقامی حکومت کا وجود نہیں۔ قوانین اور ضوابط کے نفاذ کی نگرانی کا کام ایک برطانوی فوجی کمشنر انجام دیتا ہے۔ امریکا اور برطانیہ ڈیگوگارشیا کو ''افریقن نیوکلیئر ویپنز فری زون ٹریٹی'' کے تحت شمار نہیں کرتے، حالاں کہ اس معاہدے میں BIOT کا علاقہ شامل ہے۔ بہ ہرحال ابھی تک اس قسم کی کوئی مستند اطلاع سامنے نہیں آئی کہ امریکا نے ڈیگوگارشیا میں نیوکلیائی ہتھیار اسٹور کر رکھے ہیں۔ ویسے امریکا نے ڈیگوگارشیا کا نام ''کیمپ جسٹس'' رکھ چھوڑا ہے، گویا ایک اڈا ہے جہاں سے دنیا کو انصاف تقسیم کیا جاتا ہے۔ وہ خدائی فوج دار ہے، اسے کسی بھی جگہ کچھ بھی تقسیم کرنے کا حق ہے۔ ویسے وہ اب تک دنیا کے سارے براعظموں میں صرف موت ہی تقسیم کرتا رہا ہے۔