دھچکوں پر دھچکے
ہم سب ایک ایسی کشتی پر سوار ہیں جہاں ہمارے دل ودماغ پر دھچکوں کی یلغار ہے
ہم سب ایک ایسی کشتی پر سوار ہیں جہاں ہمارے دل ودماغ پر دھچکوں کی یلغار ہے، ہماری نائو سمندرکے گہرے پانیوں میں ڈول رہی ہے، ہچکولے کھارہی ہے کہ نہ جانے کب سمندر برد ہوجائے کسی کو کچھ نہیں معلوم خوف اور وسوسوں کے سیاہ ناگ، مقام فنا کا نظارہ کرا رہے ہیں۔ امید کی روشنی کا دیا تیز ہوا میں ٹمٹما رہا ہے اور چراغ سحری کی یاد کو تازہ کر رہا ہے نہ جانے یہ روشنی کب گل ہوجائے یا آخری ہچکی کا انتظار بے کل کیے ہوئے ہے، روح فرسا سناٹا دور دور تک پھیل گیا ہے یاسیت نے چین کو نگل لیا ہے، اسی لیے چین کی بانسری ٹوٹ گئی ہے۔ان حالات میں بھلا کیسے جیا جائے یہاں پانی نہیں ہے، بجلی نہیں ہے اب رمضان میں گیس بھی غائب ہے ۔
افطاری کس طرح بنائی جاسکتی ہے، ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے رمضان کے مقدس ماہ اور تینوں عشروں کے خاص دنوں میں بنیادی ضرورتوں سے محروم کردیا جاتا ہے پاکستان کے شہری بے بس اور مجبور ہیں اپنے حقوق کے لیے لڑنے کا مطلب اپنی جانوں کو گنوانا ہے۔ پچھلے دنوں ایسا ہی ہوا تھا جب معذور نابینا افراد نے اپنے جائز حق کے لیے احتجاج کیا تو لاہور کی پولیس نے نہتے اور بینائی سے محروم افراد پر دھاوا بول دیا۔ اسی طرح ماڈل ٹائون میں ہوا ۔ اس قدر بے دردی سے مارا، جیسے یہ انسان نہ ہو، جنگلی جانور ہوں، جن سے جانوں کو خطرہ ہوتا ہے ایسا ہی دوسرے صوبوں میں ہورہاہے، اقتدار کی بھوک نے زمانہ جاہلیت کی یاد دلادی ہے۔ اندھیرا بڑھ رہا ہے، خوب بڑھ رہا ہے کہ طلبا کے مستقبل سے کھیلا جارہاہے، انھیں نقل کرانے کے لیے تحفظ دیا جاتا ہے اور امتحانی پرچوں کو مخصوص گھروں میں حل کرنے کے لیے مکمل انتظام کیا جاتا ہے۔
سوچنے کی بات اتنی سی ہے کہ اس طرح نقل کے ذریعے پاس ہونیوالوں کا مستقبل بھلا کیا ہوگا؟ یہی لوگ پاکستان کی بچی ہوئی روشنی کو بجھانے کے درپے ہوںگے، آج بھی حکمران طبقہ جن کرسیوں پر براجمان ہے کیا وہ اس قابل ہے کہ پاکستان کی تقریباً 18کروڑ عوام پر حکومت کرے جن لوگوں کو الف، ب، نہیں آتی وہ کس طرح اس ملک کی باگ ڈور سنبھال سکتے ہیں؟ کس طرح ملک ترقی کرسکتا ہے، یہ تو اپنے مفاد کی مالا جبپتے رہتے ہیں اور دولت کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے لیے راہ ہموار کرتے ہیں۔
اپنے دوست احباب کے لیے ایسے ایسے منصوبوں کی داغ بیل ڈالتے ہیں جن کے ذریعے وہ خوب منافع کما اور آنیوالی نسلوں کے لیے ایک تعیشات سے پر زندگی دے سکے، وہ یہ نہیں سوچتے کہ اس طرح وہ انصاف کی تکہ بوٹی کردیتے ہیں اور پھر خوب ہوٹلوں اور کلبوں میں باربی کیو کے مزے لیتے ہیں۔عدلیہ ایک ایسا ادارہ ہوتا ہے جسے تمام شعبوں پر دسترس حاصل ہوتی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح عہد مغلیہ میں قاضی ہوا کرتے تھے اور بادشاہوں کو بھی سزا سنانے میں لیت و لعل سے کام نہیں لیتے تھے، مجرم کے ہاتھ قلم کردیے جاتے تھے بس زنجیر عدل کوکھینچنے کی ضرورت ہوتی۔ مگر آج ایسا نہیں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہے۔
ہزاروں بے قصور قیدی زنداں میں سالہا سال سے قید ہیں، جیتے جی مرچکے ہیں، سانسیں چل رہی ہیں اور زندگی کے دن پورے کیے جانے پر مجبور ہیں،افسوس کی بات یہ ہے کہ یہاں بھی رشوت چلتی ہے صرف ملاقات کرانے کے لیے ہزاروں اور لاکھوں روپے طلب کیے جاتے ہیں، طلب پوری نہ ہونے کی صورت میں مار مار کر بھرکس بنادیتے ہیں اور اگر کوشش کے بعد بھی نہ مرا تب دوسرے حربے آزمائے جاتے ہیں۔
تشدد و بربریت کے حوالے سے ایک نہیں ہزاروں واقعات جنم لیتے ہیں کبھی راہ چلنے، گاڑی نہ رکنے پر فائر کردیا جاتا ہے حال ہی میں دو نوجوانوںکو سر راہ ہلاک کردیاگیا غلطی اتنی سی تھی کہ انھوں نے اپنی موٹر سائیکل اس وجہ سے نہیں روکی کی یہ لوگ (پولیس ) خوامخواہ تنگ کریںگے اور رشوت وصول کریںگے مارنیوالوں کے لیے حکومت نے فری ہینڈ مہیا کردیا ہے مائوں کے کیسے کیسے لعل وگوہروں کو زیر زمین سلا دیا گیا ان کے گھروں کو مدفن میں تبدیل کردیا جہاں غمزدہ ہوائیں چلتی ہیں اور ان گھروں میں اداسی کا نوحہ دلوں میں ثبت ہوجاتا ہے قیامت تک کے لیے۔
اپنوں کی جدائی کے غم کیا کچھ کم ہیں لیکن جیسے مرنیوالے تو اس دنیا سے ناتا توڑ دیتے ہیں جینے والے کیا کرتے؟ ہر سال بجٹ عوام دشمن پیش کرکے زندوں کو بھی زندہ ہی درگورکردیا جاتا ہے بجٹ کا جھٹکا پاکستان کے ہزاروں لوگوں کو افلاس کی چکی میں پیس دیتا ہے میں اکثر شب تنہائی میں سوچتی ہوں کہ انسانوں کا دکھ درد تو سانجھا ہوتا ہے تو کیا یہ لوگ انسان نہیں؟ ان کے سینے میں دل کی جگہ پتھر ہے کیا؟ مقتدر لوگوں کا ظلم اپنے ہی لوگوں کو افلاس اور خودکشی جیسے فعل میں مبتلا کردیتا ہے۔
بے بسی سے مرنیوالوں کی اموات کا سن کر ان کا دل نہیں دھکتا ہے انھیں دھچکا نہیں لگتا ہے ہزاروں لوگ مہنگائی کے ہاتھوں خودکشی کرنے پر مجبور ہیں دو تین روز کی ہی تو بات ہے جب ہمارے وزیر اعظم نے فرمایا کہ کراچی میں اگر مچھر بھی مرجائے تو یہ لوگ ہڑتال کرتے ہیں بالکل درست فرمایا۔ ہڑتال تو کرتے ہیں لیکن مچھر کھبی خوش نہیں ہوتا، چلے جانے والے کو معاف کردیا جاتا ہے شہرکراچی خون سے سرخ ہوچکا ہے، قصور وار اور بے قصور دونوں ہی مارے گئے ہیں۔
بھلا ہو ہمارے جنرل راحیل شریف کا کہ انھوں نے دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنے کا عزم کرلیا ہے۔ویسے اس موقعے پر ایک بات نے مجھے بے حد دکھی کردیا ہے کہ والدین اپنی اولاد کی اس طرح تعلیم و تربیت نہیں کرتے جس طرح کرنی چاہیے تھے، اسی وجہ سے وہ گمراہ ہوجاتے ہیں بڑی ہی پریشان کن صورتحال ہے کہ چھوٹی عمر کے بچے بمشکل 10 سال سے 15 سال تک کے موٹر سائیکلوں پر رات کے اندھیروں اور پر خطر راستوں پر اپنی موٹر سائیکل ہوائوںمیں اڑاتے،کرتب دکھاتے ہیں اور بے مقصود محلوں، گلیوں اور شاہراہوں پرگھومتے پھرتے ہیں یہی بچے دہشت گردوں کے ہاتھوں لگ جاتے ہیں۔
پھر کیا ہوتا ہے؟ مستقبل برباد، گھر برباد، والدین بہن بھائی تباہ حال جب پانی سر سے اونچا ہو جائے، اس وقت رونے اور پچھتاوے سے کیا فائدہ اپنے بچوں کو اپنی اولاد کو وقت دیں، اچھی تعلیم و تربیت فراہم کریں تاکہ یہ پھول سے بچے کانٹوں میں الجھ کر اپنے آپ کو زخمی نہ کریں اور نہ جان وعزت جیسی قیمتی شے کو موت کے منہ میں دھکیلیں۔