ایسی ہے جمہوریت تو خریدار نہیں میں

شدت پسندوں کی جانب سے جمہوری نظام کو کفر کا نظام کہا جاتا ہے


قادر خان June 28, 2015
[email protected]

ہمارے یہاں جمہوری نظام کے تحت ووٹ ڈالنے کو مقدس امانت کہا جاتا ہے، لیکن خیبر پختونخوا و بلوچستان کے بعض علاقوں میں خواتین کے دوران انتخابات ووٹ ڈالنے پر متعدد سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے ایک روایتی معاہدہ کرلیا جاتا ہے کہ خواتین ووٹ کا حق استعمال نہیں کریں گی۔ اس معاہدے کو الیکشن کمیشن جرم قرار دیتی ہے اور سول سوسائٹی سمیت شہری حقوق کی تنظیمیں اس پر شوروغوغا کرتی ہیں۔

ہمارا میڈیا بھی اس ایشو کو شدت سے اٹھاتا ہے۔ شدت پسندوں کی جانب سے جمہوری نظام کو کفر کا نظام کہا جاتا ہے، اس لیے وہ تو پور ے جمہوری عمل ہی کے مخالف ہیں۔ لیکن یہ بھی دیکھا جاچکا ہے کہ ان ہی عناصر سے جو جمہوری نظام کو کفر کا نظام قرار دیتے ہیں، جمہوریت کے داعی بیٹھ کر مذاکرات کرتے ہیں، ان کے علاقوں میں جاتے ہیں، سپر پاور کہلانے والی قوتیں بھی مسکرا مسکرا کر ان کو تسلیم کرتی ہیں۔

جمہوریت کا نظام اسلامی ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا، اس لیے کہ اس میں اقلیت، اکثریت پر حکومت کرتی ہے اور ایوانوں میں اکثریت اقلیت کو نظر انداز کرتے ہوئے من پسند قوانین بنا کر اسے عوام پر زبردستی مسلط کردیا جاتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات سے لے کر سینیٹ کے انتخابات تک امیدوار لاکھوں، کروڑوں، اربوں روپے خرچ کرتے ہیں، جیتنے والے اپنی بولیاں لگاتے ہیں، جماعتوں سے وابستگی رکھنے والے کسی بھی شخص کے معیار کے پیمانے کے بغیر اپنی قیادت کے حکم پر کسی بھی نااہل کو مسند اقتدار پر بیٹھا کر جمہوریت کی کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ اعلیٰ عہدوں کے لیے ہر وہ کام کر گزرتے ہیں جسے اخلاقی قرار نہیں دیا جاسکتا۔

جب جمہوری نظام نہیں تھا تو دور نوح سے لے کر خلافت عثمانیہ کے خاتمے تک لاکھوں ہزاروں سال کی حکومتیں بھی کسی نہ کسی نظام کے تحت چلتی رہی ہیں اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ خواتین بھی اتنی بااختیار ہوئیں کہ اقتدار کے مسند پر بیٹھ کر مردوں پر حکومت چلاتی رہیں۔ خواتین کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کی باتیں کرنے والے کیوں اس بات کو نظر انداز کرتے ہیں کہ ان علاقوں کی اپنی کچھ ثقافتیں ہیں، روایتیں ہیں۔

اگر آپ روشن خیالی کے نام پر اپنے اہل خانہ، خواتین کی فیس بک پر تصاویر لگا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سب ایسا کریں تو یہ سب کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کسی ڈانس پارٹی میں اپنی بیوی کو کسی دوسرے کی بانہوں میں دے کر اس کی بیوی اپنی بانہوں میں لے لیتے ہیں تو اس قسم کی جمہوریت نما ثقافت یا ثقافت بنا روایت سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی عوام ناآشنا ہیں بلکہ سندھ، پنجاب کے لاکھوں خاندان بھی ایسی جمہوریت پر لعنت بھیجتے ہیں جس میں ترقی اور حقوق کے نام پر خواتین کی عزت و حرمت کی پامالی کی جاتی ہو۔

ووٹ دینا ایک گواہی ہے کہ جس کو ووٹ دیا جارہا ہے، وہ نیک خصلت ہے، ایماندار ہے، وغیرہ وغیرہ، اب پردے دار، گھر بیٹھی خاتون خانہ کو کیا معلوم کہ فلاں شخص کون ہے، کیا کرتا ہے، اس کا کردار کیسا ہے، اس نے قوم کی کتنی خدمت کی، یہ جمہوریت کا امیدوار خواتین کے مسائل کو سمجھتا بھی ہے کہ نہیں، تو خاتون جھوٹی گواہی صرف اس لیے دے کیونکہ جمہوریت ہے۔

سابق امریکن صدر ابراہام لنکن جمہوریت کو عوام کا نظام قرار دیتے تھے۔ لیکن کیا آپ دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتے ہیں جو جمہوریت کا نظام نافذ ہے وہ عام آدمی کے لیے ہے یا خواص کے لیے ہے؟ افلاطون پہلا شخص تھا جس نے سیاسیات کو باضابطہ طور پر اپنے مطالعہ کا موضوع بنایا اور اس کے تمام پہلوئوں کا باریکی سے جائزہ لینے کے بعد بڑی بے باکی کے ساتھ اپنا نظریہ پیش کیا، افلاطون نے یونانی جمہوریت پسندوں کے ہاتھوں اپنے استاد سقراط کی موت کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جمہوریت جم غفیر کی حکمرانی ہے۔

افلاطون جمہوری روایتوں کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ایک فرسودہ نظام قرار دیتا ہے اور اس نے جمہوریت سے تنگ آکر کمیونزم (اشتمالیت) کا نظریہ پیش کیا۔ اس کی آرا کی سب سے بڑی خوبی یہ رہی کہ اس وقت کے مفکرین اس کا متبادل پیش کرنے سے قاصر رہے، بعد میں افلاطون کے شاگرد ارسطو نے اپنے استاد کے نظریات کی تردید کی لیکن وہ بھی متبادل تجویز لانے میں ناکام رہا۔ افلاطون کے مطابق ''سیاست کے مسئلے کا حل یہ ہے یا تو فلسفی کو حکمران بنادو یا حکمرانوں کو فلسفی بنادو''۔

ہندوئوں کی تاریخ میں 'رام' کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے، قرآن و حدیث میں 'رام' کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ لیکن بعض مفکریں 'رام' کے کردار کے حوالے سے دلچسپ نظریات رکھتے ہیں اور 'رام' کی صفات کے حوالے سے مختلف دعوے بھی کرتے ہیں۔ 'رام شہزادے تھے اور اقتدار کے مستحق مگر ان کے والد نے ان کی سوتیلی ماں سے وعدہ کرلیا تھا کہ وہ اپنے بعد اس کے بیٹے کو بادشاہ بنائیں گے۔ 'رام' کے والد کا انتقال ہوا تو رام کے سوتیلے بھائی کو بادشاہ بنادیا گیا، پھر چودہ سال جنگلوں میں اپنی بیوی سیتا اور سوتیلے بھائی لکشمن کے ساتھ رہنا، ایسی داستان ہے جسے بھارتی ثقافتی یلغار کی وجہ سے بچے بچے بھی جانتے ہیں۔

لیکن اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ سوتیلا بھائی اپنے بڑے بھائی کو بادشاہ بنانا چاہتا تھا لیکن انھوں نے اپنے والد کی نصیحت پر عمل کیا، چھوٹے بھائی نے ان سے جوتے مانگے کہ کم ازکم اپنے جوتے دے جائیں، بھائی کی ضد کے بعد انھوں نے اپنے جوتے اپنے سوتیلے بھائی کو دے دیے، 'رام' کے جوتوں کو تخت پر رکھ دیا گیا کہ چودہ سال تک بھائی کے جوتوں کی حکمرانی ہوگی اور ان کا سوتیلا بھائی ایک کارندے کے طور پر حکومت چلائے گا۔ یہاں یہ سوچنے کی بات ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوری حکومت بھارت، رام کو بھگوان کا درجہ دیتی ہے لیکن اس کے کیے گئے عمل پر بھی عمل نہیں کرتی۔

یہودی اپنے مذہب، تہذیب اور بانی تاریخ کے سب سے بڑے منکر ہیں، یہودیوں نے اسرائیل کی ریاست حضرت سلیمان علیہ السلام کی 'یاد' میں قائم کی اور وہ بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔

یہ اور بات ہے کہ اسرائیل پہلے دن سے سیکولر ریاست کہلانے پر مصر ہے۔ بلکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور حکومت سے لاتعلقی کا بھی بعض یہودی اعلان کرتے ہیں بلکہ ایسے ''زائن ازم'' کی سازش قرار دیتے ہیں۔ رسول اکرم ﷺ کی ایک حدیث مبارکہ ہے کہ، مفہوم کے مطابق، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ''میرا زمانہ رہے گا، جب تک اللہ تعالی چاہے گا، میرے زمانے کے بعد خلافت راشدہ ہوگی اور اس کا زمانہ رہے گا، جب تک اللہ تعالی چاہے گا، خلافت کے بعد ملوکیت ہوگی اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ تعالی چاہے گا، ملوکیت کے بعد کاٹ کھانے والی آمریت ہوگی، اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ تعالی چاہے گا اور اس کے بعد زمانہ ایک بار پھرخلافت علی منہاج انبوہ کی جانب جائے گا۔''

اسلام میں حکمرانی چار طاقتوں کا مجوعہ ہے، روحانی طاقت، اخلاقی طاقت، علمی طاقت اور جسمانی طاقت۔ اقبال کہہ چکے ہیں کہ ''جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔'' جمہوریت کا نیا نظام اقبال کے مفہوم کے مطابق فریب کے سوا کچھ نہیں۔ کہنے کو امریکا دنیا کی سب سے مضبوط جمہوریت ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ امریکا کے اکثر فیصلے امریکی عوام نہیں بلکہ امریکی سی آئی اے، پینٹاگون، امریکا کے ایوان صنعت و تجارت، ملٹی نیشنلز اور امریکا کے ذرائع ابلاغ کرتے ہیں۔

پاکستان کے حکمرانوں نے پاکستان کا آئین اس بات پر رکھا کہ قرآن و سنت کے علاوہ کسی قانون کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ مسلم معاشرے میں حاکمیت صرف اللہ تعالی کے قوانین کی ہوگی۔ لیکن پاکستان کے حکمران طبقے نے اسلام کو کبھی آئین کی قید سے نکلنے نہیں دیا۔ دیکھا جائے تو پاکستان کا آئین اسلام کا سب سے بڑا زندان ہے۔

جمہوریت اسلامی نظام نہیں ہے، اس لیے اگر کوئی اپنی معاشرتی اقدار کے مطابق ووٹ نہیں ڈالتا تو وہ اسلام سے خارج نہیں ہوجائے گا۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والے پہلے اپنے گھر کو درست کریں، اپنے گھر میں انسان کو آزاد کریں۔ لاکھوں برسوں کی تاریخ میں دیکھیں کہ جمہوریت کہاں تھی؟ اگر کوئی کہتا ہے کہ جمہوریت کفر کا نظام ہے تو اس کا متبادل تو وہ پیش کرنے سے رہا، گو بیشتر کے پیش کرنے کا طریقہ خودساختہ و متشدد ہے۔

جمہوریت کے نقصانات جنگ عظیم اول، دوئم اور آج تک ہم سب بھگت رہے ہیں۔ اور پھر دلچسپ بات یہی ہے کہ یہی توجمہوریت کہ ایک طرف یہ جماعتیں معاہدے کرتی ہیں تو دوسری جانب اسٹیجوں اور جلسوں میں خواتین سمیت رقص کرتے ہیں۔ تو جمہوری جماعتوں کے فیصلوں کو ماننے سے انکار کرکے 'کفر جمہوریت' کے مرتکب کیوں بنتے ہو؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں