گدا گری ایک لعنت ہے
پاکستان میں گدا گری کا پیشہ قدیم ہے، اس کی ابتدا کب اورکیسے ہوئی؟ تاریخ بھی اس کی تاریخ بتانے سے قاصر ہے۔
پاکستان میں گدا گری کا پیشہ قدیم ہے، اس کی ابتدا کب اورکیسے ہوئی؟ تاریخ بھی اس کی تاریخ بتانے سے قاصر ہے۔ یہاں گداگری سے مراد حکومتی امداد لینا نہیں ہے بلکہ اس طبقے کے بارے میں بیان کرنے چلا ہوں جو غربت، مہنگائی، ناخواندگی اور بیروزگاری کے باعث اندرون ملک کئی علاقوں سے بھوک و افلاس سے تنگ آکر شہر کراچی کا رخ کرتے ہیں اور یہاں بھیک مانگنے کے پیشے سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔
امسال رمضان المبارک کے آتے ہی انھوں نے شہر کراچی کو اپنے نرغے میں لے رکھا ہے انھیں بھیک مانگنے کا فن خوب آتا ہے، معصوم چہرہ بناتے ہوئے دلوں میں چوٹ لگانے والے نفسیاتی حربے استعمال کرنا ان کا فن ہنر ہے خاص طور پر مخصوص مقامات کے اعتبار سے ان کی غمگین صدائیں دل کو موم کردیتی ہیں انھیں اگر کاروباری علاقے میں بھیک مانگنا ہوتا ہے تو وہاں یہ اپنے معصوم بچوں کو پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس کرتے ہیں، سر کے بال بکھیردیے جاتے ہیں اور پاؤں سے جوتے غائب کر دیے جاتے ہیں یعنی پاؤں ننگے ظاہر کرتے ہیں اور ان کی زبان سے ترقی کرنے کی دعائیں ہوتی ہیں۔
سٹی کورٹ کے ارد گرد غول کے غول نظر آنے والی یہ بھکارنیں لوگوں کو عدالتی مسائل سے چھٹکارے پانے اور عزیزوں کو ضمانت پر رہائی کی دعائیں دیتی ہیں، سرکاری اسپتالوں کے باہر خواتین گداگر ہاتھوں میں دواؤں کے نسخے اٹھائے والدین کو ان کے بیمار بچوں کا واسطہ دینے اور شفایاب ہونے کی دعا دینے کے بعد دوائیں خریدنے کے لیے پیسے مانگتی ہیں شہری ان کی درد مند صداؤں سے متاثر ہوکر انھیں دوائیں خرید کر دے دیتے ہیں جنھیں بعد میں گداگر خواتین میڈیکل اسٹور پر واپس کرنے کے بعد پیسے وصول کرلیتی ہیں۔
ان گداگروں کی اکثریت خواتین و بچوں اور بوڑھوں پر مشتمل ہوتے ہیں جو بیرون کراچی سے آتے ہیں، یہ باگڑی خانہ بدوش کراچی کے مختلف مضافاتی علاقوں میں جھونپڑیوں اور کچے پکے مکانوں میں قبیلوں کی صورت میں رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ مساجد، مزارات، گرجا گھروں، اور مندروں کے گرد بھی نظر آتے ہیں۔ ان میں سے اکثر بھکاری خواتین مختلف اشیا فروخت کرنے کی آڑ میں بھیک مانگتی نظر آتی ہیں یہ پیشہ ور گدا گر خواتین ہیئر پن، ازاربند، ٹشوپیپرز، پین، اسٹیشنری، قرآنی آیات، ڈرائنگ بک، کھلونے، گاڑیاں، ونڈ اسکرین اور بالوں کے کلپ وغیرہ فروخت کرتے ہوئے بھیک وصول کرتی ہیں اس کے علاوہ سگنل پر رکی گاڑیوں کے مسافروں کو پھول اور گجرے بھی فروخت کرتی ہیں۔
بیشتر خانہ بدوش خواتین گداگری اور منفی سرگرمیوں سے رقم کماکر برادری میں کمیٹیاں ڈال کر رقم جمع کر کے سونے کے زیورات بنوانا پسند کرتی ہیں، خانہ بدوش بستیوں میں گداگر خواتین رات کے وقت جوا کھیلتی ہیں اور چرس اور شراب بھی پیتی ہیں۔ شہر میں گداگر خواتین بھیک مانگنے کے علاوہ جسم فروشی جیسے گھناؤنے کام میں ملوث ہوکر معاشرے میں جنسی بیماریاں پھیلانے کا موجب بن رہی ہیں جن میں گنوریہ، ایچ آئی وی ایڈز اور ہیپا ٹائٹس شامل ہیں۔گذشتہ دو عشروں سے گداگر ٹولیاں کراچی سمیت ملک کے دیگر شہروں میں دن رات بھیک مانگتی نظرآتی ہیں، کراچی کا سماجی چہرہ گداگری کے قبیح مسئلہ نے مسخ کردیا ہے۔ رمضان المبارک کے ایام میں تو شہر قائد بالکل قدیم یورپ کی گلیوں کا منظر دکھاتا ہے، جہاں گداگر کئی روپ مین ملتے تھے۔
بھیک مانگنے والی گداگر خواتین اسٹریٹ کرائم اور گھروں میں چوریاں کرنے میں بھی ملوث ہوگئی ہیں، بیشتر وارداتیں جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کے لیے بطور مخبری کا نتیجہ ہوتی ہیں گداگر خواتین اسٹریٹ کرائم میں بھی ملوث ہیں جب کہ بعض گداگر خواتین مسافر بسوں اور رش کے مقامات پر جیب کاٹنے میں خصوصی مہارت رکھتی ہیں جیب تراش خواتین ٹولیوں کی صورت میں مختلف بسوں اورکوچز میں سوار ہوتی ہیں، تیز دھار بلیڈ کے استعمال سے مردوں کی جیب اور خواتین کے پرس کاٹ لیتی ہیں اور گھریلو ملازماؤں کی روپ میں گھر کے بچوں کو اغوا کے بعد والدین سے تاوان کا مطالبہ کرتے ہیں اور ایسی بھی گدا گر خواتین ہیں جو منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ بھی کرتی ہیں۔ایک بار ایک خاتون صحافی بلقیس جہاں کا ہار ایک بھکارن نے جناح اسپتال کے سامنے بس میں سفر کے دوران چوری کرلیا مگر وہ دلیر صحافی خاتون اس سے ہار چھین کر واپس لائیں۔ بھکارنوں کی ٹولی جناح اسپتال کے سامنے خالی پلاٹ پر ڈیرہ ڈالے بیٹھی تھی۔
یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بے گھر بچوں کو اغوا کرکے معذور کرکے بھیک منگوانے کے رجحان میں اضافہ ہوگیا ہے، معصوم بچے پہلے ہی بے آسرا ہوتے ہیں جب وہ معذور ہوجاتے ہیں تو وہ بھکاریوں کے چنگل سے نکل کر کہیں نہیں جاسکتے اور پھر بھکاری خواتین ان بچوں کو گاڑیوں میں بٹھاکر شہر بھر میں بھیک مانگنے کا کام کرتی ہیں اس مقصد کے لیے بھکاری خواتین شہر میں بے گھر بچوں کو مزارات اور دیگر مقامات پر مشروب میں نشہ آور اور گولیاں پیس کر پلانے کی کوشش کرتی ہیں جس کے پینے سے بچے بیہوش ہوجاتے ہیں اور انھیں اغوا کرلیا جاتا ہے پھر ان بچوں کو اپنے ڈیرے میں لے جاکر ہڈیاں توڑ کر انھیں معذور کردیاجاتا ہے تاکہ معذوربچوں کو دکھاکر بھیک زیادہ حاصل کی جائے۔
کراچی میں موسم، مذہبی تہوار اور قدرتی آفات کے تناظر میں بھکاریوں کی تعداد بڑھتی گھٹتی رہتی ہے سرد موسم، رمضان المبارک، عیدالفطر اور عیدالاضحی پر خانہ بدوش گداگر شہر کا رخ کرتے ہیں ان میں خاص طور پر باگڑی خانہ بدوش خاندان شاہ رسول کالونی، ابراہیم حیدری، ریڑھی گوٹھ ، اورنگی ٹاؤن، اتحاد ٹاؤن، چنیسر گوٹھ، کالا پل، نیلم کالونی، مچھر کالونی، بلاول گوٹھ، سرجانی ٹاؤن اور ضیاء الحق ٹاؤن میں رہائش پذیر ہیں۔
حکومت اور غیر سرکاری تنظیمیں بھکاری خواتین کی بحالی کے لیے کوئی موثر اقدامات کرنے سے قاصر ہیں ، شہر میں موجود بھکاریوں سے متعلق اب تک کوئی تحقیق نہیں کی گئی اور نہ ہی کوئی مربوط سروے کیا گیا ہے، سابق صدر پاکستان ضیاء الحق کے دور میں بھکاری ہومز قائم کیے گئے تھے جہاں انھیں مفت کھانا اور لباس فراہم کیا جاتا تھا لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا کیوں کہ جو بھکاری روزانہ 1500 روپے بذریعہ بھیک کماتا ہے وہ محنت کرکے کمانے کی زحمت آخر کیوں کریگا؟ رمضان المبارک میں اندرون سندھ اور سرائیکی بلیٹ سے30 ہزار خاندان بھیک مانگنے کے لیے کراچی کا رخ کرتے ہیں جنھیں گرفتار کر کے پولیس ایدھی سینٹر میں چھوڑ جاتے ہیں جو بھیک نہ مانگنے کا وعدہ کرکے بھاگ جاتے ہیں۔ شہری گداگری کی لعنت سے شہر کو پاک کرنے کے لیے بھکاریوں کو بھیک دینا ترک کردیں۔