موسم گرما کا عذاب
لوٹی ہوئی دولت کو باہر لے جانا مشکل ہے‘ اس کے لیے بیوروکریسی اور پولیس کی مدد درکار ہو گی۔
آصف علی زرداری نے صدر مملکت کے طور پر پورے پانچ سال کی مدت مکمل کر کے سیاسی طور پر اپنے ناقابل شکست ہونے کا ثبوت فراہم کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کا ٹھنڈا مزاج اور سیاسی افہام و تفہیم کی پالیسی نے ان کو ایک منفرد مقام عطا کر رکھا ہے۔ 2013ء کے انتخابات سے پہلے انھوں نے 2008ء کے انتخابات میں میاں نواز شریف کے ساتھ شرکت اقتدار کے فارمولے پر اتفاق کیا اور میاں نواز شریف کی وفاقی حکومت نے جوابی طور پر پیپلز پارٹی کو سندھ میں حکومت کرنے کا کھلا اختیار دے دیا جو کہ اب بھی ان کے پاس موجود ہے۔
جہاں تک کراچی میں دہشت گردی کے تحفظات کا تعلق ہے تو وزیر اعظم نے اب سندھ کی وفاقی سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لیا ہے اور آرمی کو حالات کے درست کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ زرداری پر الزام ہے کہ انھوں نے کرپٹ وفاقی حکومت چلائی لیکن اس کے باوجود فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنے کا موقع نہیں دیا۔ جس کو وہ اپنی شاندار کامیابی تصور کرتے ہیں۔ جہاں تک آرمی کا تعلق ہے تو وہ خود بھی اقتدار پر قبضہ کرنا نہیں چاہتی بلکہ اس کا مقصد اپنی اہمیت کو محسوس کروانا اور انتہا درجے کی کرپشن کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنا ہے۔ جنرل کیانی کئی مقامات پر سمجھوتہ کرتے نظر آئے لیکن راحیل شریف ان کے برعکس پورے عزم کے ساتھ قومی سلامتی کے معاملے پر ایک سخت موقف اختیار کیے ہوئے ہیں۔ کیونکہ منی لانڈرنگ کے ذریعے حاصل کی جانے والی بھاری رقوم دہشت گردی کے فروغ کے لیے استعمال ہوئی۔ اس اعتبار سے سابق صدر آصف علی زرداری بہت خوش قسمت ہیں کہ ان کے زمانے میں جنرل کیانی چیف آف آرمی اسٹاف تھے۔
آصف علی زرداری نے بھٹو کے وفاداروں کو اقتدار کی صفوں سے الگ کیا۔ آج پارٹی میں وہ لوگ جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ پارٹی میں شمولیت اختیار کی یا وہ جو محترمہ بینظیر بھٹو کے وفادار تھے وہ پارٹی میں نظر نہیں آتے۔ البتہ اعتزاز احسن' رضا ربانی' فرحت اللہ بابر استثنائی حیثیت رکھتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ لوگ آصف علی زرداری کے دور حکومت میں بھی دیانتدار رہے۔ قمر الزمان کائرہ' شیری رحمن' تاج حیدر اور دیگر لوگ ہمیشہ پارٹی کے ساتھ رہے۔ آصف زرداری کے گرد جو لوگ موجود تھے ان میں سے اکثر کا ایجنڈا مال بنانا تھا۔ وہ بڑی آسانی سے بچ کر نکل سکتے ہیں اور کوئی بھی ان کا احتساب نہیں کر سکتا حتٰی کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو پولیس کی موبائل گاڑیاں اسکارٹ کرتی رہی ہیں۔
2013ء میں پیپلز پارٹی پنجاب' بلوچستان اور کے پی کے میں شکست سے دوچار ہوئی اور اس کے بہت سے اہم اراکین پارٹی کو چھوڑ کر مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے۔ سندھ میں پارٹی کو انتخابی نظام میں تبدیلی کے ذریعے بچا لیا گیا۔ 2013ء کے انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کی رپورٹ کو جنرل کیانی نے نظر انداز کر دیا اور اس سے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو آگاہ نہیں کیا گیا اور یوں جمہوریت کو بچانے کے لیے آئین کی ذمے داری سے دستبردار ہو گئے۔ اب جوڈیشل کمیشن سے بڑی عاجزی کے ساتھ درخواست کی جاتی ہے کہ براہ مہربانی مذکورہ رپورٹوں پر کوئی ایکشن لیا جائے۔
لوٹی ہوئی دولت کو باہر لے جانا مشکل ہے' اس کے لیے بیوروکریسی اور پولیس کی مدد درکار ہو گی۔ اس مقصد کے لیے بہت سے قواعد و ضوابط کو تبدیل کرنا پڑا اور بہت سے افراد کو ایسی جگہوں پر متعین کرنا پڑا تا کہ ان سے اپنی مرضی کے کام کروائے جا سکیں۔ اس وقت سندھ پر وفاقی حکومت' نیب اور آرمی (بذریعہ رینجرز) کا دباؤ ہے تا کہ وہاں اچھی گورننس عمل میں لائی جا سکے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اچھی حکمرانی کے لیے دیانتدار سرکاری اہلکار درکار ہوتے ہیں۔ لیکن اس وقت سندھ میں جو لوگ اہم سیاسی یا انتظامی پوزیشنوں پر تعینات ہیں ان کا بنیادی مقصد زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنا اور اپنے باسز کو زیادہ سے زیادہ سیاسی فائدہ پہنچانا ہے۔
تاہم دباؤ پڑنے پر بہت سے اہم لوگ احتساب کے ڈر سے ملک سے فرار ہو گئے ہیں یا انھوں نے ضمانت قبل از گرفتاری کروا لی ہے۔ حکومت سندھ اس وقت بری حکمرانی کی علامت بن کر رہ گئی ہے۔ بری حکمرانی کی ایک مثال کراچی میں گرمی کی لہر کے باعث 1250 ہلاکتیں ہیں لیکن صوبائی حکومت نے اس سلسلے میں انتہائی ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا جب کہ آرمی اور رینجرز نے نہ صرف کراچی بلکہ پورے سندھ میں بہت سے لوگوں کی جان بچائی۔ قائم علی شاہ کی حکومت صرف وفاقی حکومت اور کے الیکٹرک پر الزامات ہی عائد کرتی رہی۔ ریاست کے شہریوں کو کون بچائے گا جب ان کو آئینی تحفظ دینے والے حکمران خود ہی آئین شکنی کا شکار ہو جائیں۔
بلاول کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے والد سے خفا ہو کر واپس یو کے چلے گئے تاہم بعدازاں زرداری نے اپنی صاحبزادیوں کو وہاں بھیجا تا کہ وہ اپنے بھائی کو منا کر واپس یہاں لے آئیں۔ بلاول کرپشن کے بہت سخت خلاف ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ اگر انھوں نے کسی غیرقانونی اقدام کو تحفظ دینے کی کوشش کی تو اس سے ان کی سیاسی ساکھ کو سخت نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اب درحقیقت بلاول کا اپنا امتحان شروع ہو رہا ہے اور یہ دیکھا جائے گا کہ ان پر اپنے والد کا کس قدر اثر و رسوخ موجود ہے۔ کیا وہ والد کی ہدایات پر ہی چلتے رہیں گے یا اپنا راستہ خود متعین کریں گے۔ یہی ایک طریقہ ہو گا جسے وہ اپنی ماضی کی عظیم پارٹی کی قیادت کا حق ادا کر سکیں گے۔