جنون پرستی کی نئی فصل

جون کے آخری ہفتے میں پے درپے دہشت گردی کے چند خوفناک واقعات ہوئے۔


Muqtida Mansoor July 02, 2015
[email protected]

ISLAMABAD: جون کے آخری ہفتے میں پے درپے دہشت گردی کے چند خوفناک واقعات ہوئے۔ سب سے پہلے افغانستان کی پارلیمنٹ پر خودکش حملہ ہوا، جس میں ایک بچے سمیت دو افراد جاں بحق ہوئے۔ اس حملہ کی ذمے داری افغان طالبان نے قبول کی۔ چند روز بعد ہی یعنی جمعے کو کویت میں نماز جمعہ کے دوران مسجد پر خود کش حملہ ہوا۔ جس میں 30سے زائد افراد جاں بحق اور 200کے قریب شدید زخمی ہوئے۔اسی روز تیونس میں ساحلی تفریح گاہ پر بے دریغ فائرنگ ہوئی، جس میں کم و بیش40کے قریب سیاح ہلاک ہوئے، جن میں اکثریت یورپی ممالک کے شہریوں کی تھی۔

ان دونوں حملوں کی ذمے داری داعش (دولت اسلامی عراق وشام) نے قبول کرلی جب کہ اسی روز صومالیہ میں ہونے والے دھماکے کی ذمے داری الشباب نامی تنظیم نے قبول کی۔ البتہ فرانس کی فیکٹری پر حملہ کرنے والی تنظیم کا نام ابھی تک سامنے نہیں آسکا ہے۔ چند ہفتے قبل یعنی مئی کے اواخر اورجون کے اوائل میں سعودی عرب میں بھی دو مساجد پر خود کش حملے ہوچکے ہیں۔ ان حملوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مذہبی شدت پسند عناصر کا محور صرف مشرق وسطیٰ یا جنوبی ایشیاء نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی طاقت کے اظہار کے لیے دنیا کے کسی بھی خطے کا انتخاب کرسکتے ہیں۔

اسی سال جون کے ختم ہونے تک شام میں چار برس سے جاری خانہ جنگی میں 2لاکھ30ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوچکی ہیں جب کہ کئی شہر داعش کے قبضے میں ہیں۔ کرہ ارض پر پھیلے مسلم اور غیر مسلم ممالک میں مذہبی شدت پسند عناصر کے ہاتھوں مارے جانے والے ہزاروں افراد اس کے سوا ہیں۔ اس کے علاوہ یمن میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ کوئی معمولی سا اندرونی معاملہ نہیں ہے بلکہ ایک انتہائی پیچیدہ کھیل ہے جس کی جڑیں ماضی میں بہت گہری پیوست ہیں اور اس کے اثرات صرف یمن تک محدود نہیں ہیں، بلکہ پوری مسلم دنیا اس کی لپیٹ میںآچکی ہے۔

ان تمام واقعات میں عوامی مسائل کے حل کے لیے اٹھنے والی احتجاجی تحاریک کا رنگ بھی موجود ہے اور مذہبی شدت پسندانہ رجحانات کی آمیزش بھی۔ عرب بہار کا ردعمل بھی ہے اور عالمی ریشہ دوانیوں کی جھلک بھی۔ اس لیے ان واقعات کو سرسری طور پر نہیں دیکھا جاسکتا، بلکہ ماضی قریب کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہوئے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

مسلم معاشرے 1258ء میں تاتاریوں کے بغداد پر حملے اور تباہی کے بعد شدید مایوسی اور فکری اضمحلال کا شکار ہوگئے تھے۔ انھیں اس کیفیت سے1299ء میں قائم ہونے والی سلطنت عثمانیہ نے کسی حد تک نکال دیا تھا مگر ان گنت کامیابیوں اور یورپ میں پیش قدمی کی کئی اہم کامیابیاں حاصل کرنے والی یہ سلطنت بھی وقت گذرنے کے ساتھ روبہ زوال ہوتی چلی گئی۔

19ویں صدی کے آتے آتے اپنے اندر جنم لینے والے فکری جمود، سیاسی بے عملی اور انتظامی فرسودگی کے باعث یہ سلطنت مضمحل اور شکستہ ہوچکی تھی ۔ مشرق وسطیٰ سمیت مختلف زیر نگیں علاقوں میں شدید نوعیت کی بے چینی پیدا ہوچکی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد جب شکست و ریخت کا شکار ہوئی، توکچھ فطری ردعمل کے نتیجے میں اور کچھ اتحادی قوتوں کی ریشہ دوانیوں کے باعث اس کے زیر اثر علاقے ایک ایک کر کے الگ ہوتے چلے گئے۔

مسلم دنیا میں بھونچال اس وقت آیا جب ترک نوجوانوں نے خلافت کے انسٹیٹیوشن کو ختم کر کے جمہوری نظام رائج کرنے کا فیصلہ کیا۔ برٹش انڈیا سمیت دنیا کے کئی ممالک میں پشتینی خلافت کی بحالی کے لیے تحاریک بھی شروع ہوئیں لیکن قائد اعظم محمد علی جناح سمیت بیشتر روشن خیال مسلم رہنماؤں اور اکابرین نے پشتینی خلافت کی بحالی کے تصور کو رد کرتے ہوئے اتا ترک کے جمہوری اقدامات کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ یہ مسلم دنیا کی تاریخ میں ایک اہم موڑ (Turning Point) تھا مگر مسلم دنیا کے حکمران اور اکابرین اس نئے نظم حکمرانی کو جاری رکھنے میں ناکام رہے ۔

دوسرا مسئلہ 18 ویں صدی سے شروع ہونے والی وہ اصلاحی تحاریک ہیں، جن کا محور بظاہر مسلمانوں کی فکری اور نظریاتی اصلاح تھی۔ ان تحاریک نے مسلم معاشروں کو بعض سماجی برائیوں اور خرابیوں سے پاک کرنے کی سنجیدہ کوشش ضرور کی، لیکن ان کا محورصرف عقائد کی اصلاح تھا۔ اس لیے یہ تحاریک مسلمانوں کو جدید عصری تقاضوں کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرنے کے بجائے انھیں عقیدے کی بنیاد پر مزید تقسیم کرنے کا باعث بن گئیں۔ نتیجتاً مسلمان یورپ سے ابھرنے والی استعماریت کا علمی اور فکری بنیادوں پر مقابلہ کرنے کے بجائے عسکری تصادم کی راہ پر لگ گئے۔ اس کے علاوہ ان کے درمیان فرقہ وارانہ اور مسلکی اختلافات گہرے ہونے کی وجہ سے ان کی توانائیاں باہمی اختلافات اور آپس کی لڑائیوں میں ضایع ہونے لگیں۔

اس پہلو کو بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ مسلم معاشروں میں شدت پسندانہ رجحانات کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ لیکن شدت پسندی کے حالیہ مظاہر کی بنیاد پہلی عالمی جنگ کے دوران اس وقت پڑی، جب برطانیہ نے اپنے استعماری مفادات کی تکمیل کی خاطر مشرق وسطیٰ میں بعض سفاکانہ فیصلے کیے۔

پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے درمیان 20سالہ وقفے کے دوران برطانیہ نے دو ایسے اقدامات کیے جو مسلم دنیا میں تشویش اور اشتعال کا باعث بنے۔اول، بالفور معاہدے کے تحت فلسطین میں یہودی ریاست کا جبری قیام۔ دوئم،سلطنت عثمانیہ کے خاتمے میں سازشی کردار اور مشرق وسطیٰ کی غیر فطری تشکیل نو۔ برطانیہ کے ان غیر منصفانہ اقدامات کی نئی ابھرنے والی سپر پاور امریکا نے نہ صرف توثیق کی بلکہ انھیں مزید بڑھاوا دیا۔پھر1979 میں بھی دو اہم واقعات رونماء ہوئے۔اول، اس برس مسلم دنیا کی تاریخ میں پہلی بار کسی مسلم ملک(ایران) میں مذہبی اشرافیہ کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا جس نے دیگرعقائد اور مسالک کے مسلمانوں کی مذہبی اشرافیہ کو یہ شہ دی کہ وہ بھی سیاسی طاقت کے ذریعے اقتدار میں آسکتی ہے۔

یہی وہ رجحان ہے، جسے سیاسی اصطلاح میں سیاسی اسلام یا (Political Islam)کہا جاتا ہے۔ دوئم، اسی سال کے آخر میں جب سوویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں، تو امریکا کو یہ موقع مل گیا کہ وہ سوویت یونین کے بڑھتے قدم روکنے کے لیے اسلام کے تصور جہاد کا بھرپور استعمال کرے۔ یوں ایران کے مذہبی انقلاب نے شیعہ عسکریت اور افغانستان کی جنگ نے سنی عسکریت پسندی کو فروغ دیا۔اب ایک اور پہلو جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہر معاشرے کی طرح امریکا اور یورپ کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی ارتقاء کی اپنی روایات ہیں۔

ہر ملک اور معاشرے کی اپنی تاریخ، اپنا معاشرتی ڈھانچہ اور ثقافتی اقدار ہوتی ہیں،جس کے اندر رہتے ہوئے وہ فطری انداز میں تبدیلی کی طرف بڑھتا ہے۔ مغرب اپنے سیاسی اور بین الاقوامی مفادات کے حصول کے لیے 16ویں صدی میں جنم لینے والے سیاسی نظام جمہوریت اور18ویں صدی میں انقلاب فرانس کے نتیجے میں ابھرنے والے تصور سیکولر ازم کو پوری دنیا میں اپنے انداز میں روشناس کرانے کی کوششوں میں مصروف رہا ہے۔ حالانکہ برصغیر میں سیکولر روایات صدیوں سے صوفی طرز عمل سے جڑی چلی آ رہی ہیں، جنھیں مسلم صوفیوں اور ہندو سادھوؤں اور سنتوں نے پروان چڑھایا ہے۔اسی طرح مشرق وسطیٰ میں بھی سماجی ارتقاء کی اپنی تاریخ ہے۔

مگر دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا نے نوآزاد ریاستوں اور تیسری دنیا کے دیگر ممالک میں پشتینی بادشاہتوں، شیوخ ، شخصی و فوجی آمریتوں کی سرپرستی کر کے ان ممالک میں خود جمہوری عمل کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جب کمیونزم کے پھیلاؤ کا خطرہ ٹل گیا، تو امریکا کو تیسری دنیا کے ممالک میں جمہوریت پھیلانے کا خیال آیا۔ لیکن یہ نہیں سوچا گیا کہ معاشرے کو تیارکیے بغیر اچانک جمہوریت بحال کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں بنیاد پرست عناصر فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ2012ء سے کروٹ لینے والی عرب بہار کی بغیر سوچے سمجھے حمایت کے نتیجے میں پورے خطے کا سیاسی ڈھانچہ منہدم ہوگیا اور ایسے سیاسی انتشار نے جنم لینا شروع کردیا جو بنیاد پرستی کے فروغ کا سبب بننے جارہا ہے۔

لیبیا کے کرنل معمر قذافی، مصر کے حسنی مبارک،عراق کے صدام حسین اورشام کے بشار الاسد بے شک شخصی آمر ہیں لیکن انھوں نے اپنے معاشروں کو بہر حال سیکولر رکھا تھا۔اب ان کا متبادل ان کے ممالک میں یا فوجی آمر ہیں یا پھر مذہبی شدت پسند عناصر چنانچہ یہی ہوا یعنی حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے کے بعد اخوان انتخابات جیت گئے۔جنھیں ہٹانے کے لیے فوجی بغاوت کا سہارا لینا پڑا۔ لیبیا قذافی کے بعد سے شدید سیاسی انتشارکا شکار ہے۔ عراق صدام کے بعد تباہی کے دہانے تک جا پہنچا ہے۔ شام میں جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے،اب تک 2لاکھ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ یمن میں خانہ جنگی کا عفریت سرکھولے رقصاں ہے۔

اس پر طرہ یہ کہ اس پورے خطے میں مذہبی شدت پسندی کا مظہر ایک نئے متشدد انداز میں تیزی کے ساتھ پھیل رہاہے لیکن ساتھ ہی سیاسی بنیادوں پرجاری فرقہ واریت بھی مزید متشدد ہوتی جارہی ہے۔ اس لیے یہ سوچنا غلط ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ہونے والی Developmentsصرف وہیں تک محدود رہیں گی ۔اسی طرح ہمارے پڑوس میں افغانستان اور خود ہمارے قبائلی علاقے مذہبی شدت پسندی کا آتش فشاں بنے ہوئے ہیں۔ لہٰذا خدشہ یہ ہے کہ جنون پرستی کی جو نئی فصل ہم خود اپنے ہاتھوں سے کاشت کر رہے ہیں، اس کا نقصان کسی اور کو نہیں ہمیں ہی بھگتنا پڑے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں