حکومت کی کارگردگی
سیاست میں زمان و مکان کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ کون سی بات کب کرنی ہے اور کہاں کرنی ہے۔
سیاست میں زمان و مکان کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ کون سی بات کب کرنی ہے اور کہاں کرنی ہے۔ اگر کوئی بات صحیح وقت پر اور صحیح مقا م پر کی جائے تو نتائج مثبت بھی آتے ہیں اور عوام النا س کی حمایت بھی حاصل ہوتی ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نہ صر ف پی پی پی کے شریک چیئرمین ہیں بلکہ 5سال تک ملک کے صدر مملکت بھی رہے۔ فوج ہو یا بیوروکریسی دونوں سے جتنا وہ قریب رہے ہیں اتنا کوئی سویلین صدر نہیں رہا۔ انھوں نے بڑی بصیرت سے پاکستان میں پہلی دفعہ کسی جمہوری حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔
ان کے زمانے میں سندھ میں پی پی پی کی حکومت رہی، انھوں نے آئینی اختیارات بھی قومی اسمبلی کو منتقل کیے اور آئینی اصلاحات صوبوں کی خود مختاری اور گلگت بلتستان کو صوبائی حیثیت دی۔ سرحد کا نام خیبر پختون خوا رکھا۔ انھوں نے مفاہمت کی پالیسی کے ذریعے ایم کیوایم اور اے این پی کو سا تھ ملا کر رکھا لیکن انھوں نے دو اہم کام نہیں کیے۔ ایک تو صوبہ سند ھ میں کوئی ایسا وزیراعلیٰ نہیں بنایا یا جو اتنا خود مختار ہوتا کہ پی پی پی کی عوامی ترقی کے پروجیکٹ پر اسی انداز سے عمل کر تا جس انداز سے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے سند ھ میں خاص طور پر کراچی میں کیے۔
آصف علی زرداری اس پالیسی پر عمل کرتے رہے کہ کراچی اور حیدرآباد ایم کیوایم کا ہے اندرون سندھ پی پی پی کا اس طرح پنجا ب مسلم لیگ نواز کا اور خیبر پختون خوا اے این پی کا ۔ انھوں نے پی پی پی کی سیا سی وسعت پر کوئی توجہ نہ دی اگر دی ہوتی تو آج گلگت کے عام انتخابات میں پی پی پی نمبر ون ہوتی۔ انھوں نے کر اچی اور حیدرآباد میں ایک بھی ترقیاتی کام نہ کیا خاص طور پر ٹرانسپورٹ، بجلی، گیس اور پانی کے حوالے سے۔ یہی وجہ ہے ان کی مد مقابل سیاسی جماعت مسلم لیگ نواز کے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف نے کچھ تو پروجیکٹ ایسے کیے کہ عوام یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے میٹرو بس چلا کر لوگوں کے دل جیت لیے۔ کراچی جو کبھی مثالی شہر ہوتا تھا وہ آج کیسا نقشہ پیش کر رہا ہے۔
یہاں گلستان جوہر، گلشن اقبال، نارتھ ناظم آباد جیسے پوش علاقوں کے شاپنگ سینٹروں کے سامنے ہر وقت کچرے کے ڈھیر نظر آتے ہیں، گرمیوں میں تعفن پیدا ہو تا ہے۔ ناجائز تجاوزات کا حال یہ ہے کہ فٹ پاتھ پر لوگ نہیں چل سکتے۔ گورننس کا حال یہ ہے کہ اب فٹ پاتھوں پر سائیکل، موٹر سائیکل اور کاریں چلتی ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس شہر کراچی میں حکومت کی رٹ نہیں ہے جہاں حکومت کی رٹ نہ ہو۔ وہاں مافیا قبضہ کر لیتی ہے۔
اب تو شہر قائد کا حال یہ ہے کہ ناجائز تجاوزات ہو ں یا پتھارے دار پارکنگ کے علاقے ہوں یا پانی کے ہائیڈرنٹ، زمینوں پر ناجائز قبضہ ہو یا بھتے کی وصولی۔ اغواء برائے تاوان کی وارداتیں ہو یا فرقہ وارنہ قتل و غارت، لسانی یا مذہبی ٹارگٹ کلنگ ہو یا امن عامہ، بجلی گیس کی ترسیل ہو یا پانی کی تقسیم یہ سب اب حکومت کے ہا تھوں سے نکل کر ما فیا کے ہا تھوں میں چلے گئے ہیں، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے فوج اور رینجرز کی طاقت سے پو رے پاکستان میں خاص طور پر شہرکراچی کو مافیاز سے آزاد کرانے دہشتگردوں کی سرکوبی کرنے کے لیے 21 ترمیم کے تحت اختیارات حاصل کیے اور اس پر عمل سے کم سے کم ٹارگٹ کلنگ بھتہ خوری اور اغواء بر ائے تاوان میں کمی اس لیے آئی کہ ان پر رینجرز کا خوف طاری ہوا ہے حالانکہ وہ اب بھی موجود ہیں چھپے ہوئے ہیں، اگر رینجرز یا فوج ایسے لوگوں کی کھوج لگا کر انھیں گرفتارکر رہی ہے تو پی پی پی کے چیئرمین کو اس گند صاف کرانے میں حمایت کرنی چاہیے تھی۔
جو کام جمہوری حکومت کا تھا وہ کام فوج کے ذریعے ہو رہا ہے اب اس میں چاہے جو لوگ ملوث ہوں، چاہے لیڈر مافیا کے اداروں کے لوگ یا پولیس کے لوگ یا سیا سی جماعتوں کے لوگ سب کا صفایا ضروری ہے اختیارات کا معاملہ تو وزیر اعظم سے مل کر طے ہو جاتا ۔اس موقعے پر آپ کا احتجاج عوام قبول نہیں کر رہے ہیں۔ اپنی تقریر میں یہ کہہ کر کہ آپ تو 3 سال کے لیے آئے ہیں ہم ہمیشہ رہیں گے۔ یہ بہت طنزیہ توہین آمیزحملہ تھا۔ حالانکہ وہ تین سال کے لیے نہیں آئے، فوج بحیثیت ادارہ کل بھی تھی آج بھی ہو گی اورکل بھی۔ آج جنرل راحیل شریف ہیں تو کل کوئی اور جنرل ہو گا۔ جنرل تو صرف وطن پرست ہوتا ہے۔
اس لیے وہ اسی جذبے سے پاکستان کو دہشت گردوں اور مافیاز سے آزاد کرانے کے لیے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔ آصف زرداری پوری توجہ سندھ حکومت پر دیں اس شہر کر اچی میں گزشتہ 7 سا لوں سے پی پی پی کی حکومت ہے ایک بھی ترقیا تی کا م نہ ہو ا بلکہ عوام کو مصیبتوں میں مبتلا کرنے کے احکامات جاری ہو رہے ہیں کبھی ہیلمٹ کے نام پر عورتیں بھی پہنیں، کیا ہیلمنٹ پہن کر ان سڑکوں پر چلا جا سکتا ہے جہاں اسٹریٹ لائٹ نہ ہو ں کیا ہیلمنٹ ضروری ہے یا ان لوگوں کی جان جو بسوں پر شھد کی مکھیوں کی طرح چمٹ کر سفرکرتے ہیں، پہلے اس شہر کو معیار کے مطابق بنائیں پھر ایسے قوانین لا گوکریں تا کہ عوام عمل کر سکیں ورنہ پولیس کے لیے بھتے کا ایک اور در کھول دیا گیا ہے۔
بس یہ سمجھیں پورے پاکستان میں سب زیادہ نا اہل حکومت، حکومت سندھ ہے جس نے پی پی پی کی سیاسی قوت کوکمزورکر دیا، اس کی تمام تر ذمے داری پیپلز پارٹی کی بنتی ہے۔ پی پی پی بھٹو پا رٹی ہے، اس میں بھٹو ازم ہی اسے مقبول بنا سکتا ہے۔ اس کی پہچان یہ ہے کہ اس کے دیہی علا قوں سے زیادہ شہری علا قوں میں تر قی دی تھی، کراچی میں اسٹیل مل لگائی، عباسی شہید اسپتال بنایا، لوگوں کے لیے پاسپورٹ کا حصول آسان بنایا۔ عوامی مرکز بنایا، غریبوں کے گھروں میں بجلی پانی گیس دی۔ آپ نے سات سالوں میں اس شہرکو کھنڈر بنا دیا۔ نہ صفائی کا انتظام نہ ٹریفک کی روانی... کاش ہمارے الیکٹرونک میڈیا والے اس شہر کراچی کا حقیقی نقشہ عکس بند کر کے اپنے چینل پر دکھائیں کہاں کہاں تجاوزات، کہاں کہاں گندگی غلا ظت، کہاں کہاں فٹ پاتھوں پر چلتی گاڑیاں یہ سب دکھانے سے لو گوں میں احساس ہو گا کہ انھوں نے اپنا ووٹ غلط لوگوں کو دیا آیندہ بہتر لوگوں کو لائیں۔