طالبان بنے ظالمان
حملہ افغانستان پر ہوا تھا اس سے نمٹنا وہاں کے طالبان کی ذمے داری تھی۔
جس ملک کو دنیا بھر میں دہشت گردی کا مرکز قرار دیا جا رہا تھا اور جس فوج کے کردار کو دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا جا رہا تھا، آج اسی ملک کو نہ صرف دہشت گردی میں نمایاں کمی واقع ہونے والا ملک قرار دیا جا رہا ہے بلکہ دہشت گردی کے خاتمے میں اس کی فوج کی کامیابیوں کا کھلے دل سے اعتراف کیا جا رہا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ نے 2014ء میں دنیا بھر میں دہشت گردی کے واقعات کے بارے میں اپنی رپورٹ میں اس بات کا باقاعدہ اعلان کیا ہے کہ جہاں دنیا کے بیشتر ممالک میں دہشت گردی میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جن میں بھارت بھی شامل ہے وہاں پاکستان میں دہشت گردی میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس ضمن میں پاک فوج کے کردار کو سراہا جانا ہم پاکستانیوں کے لیے قابل فخر اور باعث اطمینان بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس رپورٹ کا سب سے زیادہ غم بھارت کو ہوا ہو گا۔ کیونکہ پاکستان میں جاری تمام دہشت گردی کے تانے بانے اسی سے جا کر مل جاتے ہیں۔
پھر اس کی مکاری دیکھیے کہ ایک طرف وہ پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے تو دوسری جانب اپنی ہی دہشت گردی کو جواز بنا کر پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک قرار دلوانے کے لیے تگ و دو کر رہا ہے۔ خود امریکی وزارت خارجہ ماضی میں پاکستان کو دہشت گردی میں صفحہ اول کا ملک قرار دیتی رہی ہے۔ اس امریکی طرز عمل سے بھارت کو بہت تقویت ملتی رہی ہے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا عذاب نازل کرنے میں امریکا بھی کم ذمے دار نہیں ہے۔ وہ نہ افغانستان پر حملہ کرتا نہ پاکستانی طالبان کا جنم ہوتا اور نہ ہی پاکستان تباہی و بربادی کی دلدل میں پھنستا۔ ویسے حقیقتاً پاکستانی طالبان کے وجود میں آنے کا کسی طرح کوئی جواز ہی نہیں بنتا تھا۔
حملہ افغانستان پر ہوا تھا اس سے نمٹنا وہاں کے طالبان کی ذمے داری تھی۔ کچھ مذہبی جماعتوں کی حوصلہ افزائی سے پاکستانی طالبان خودسر اور خوفناک ہوتے چلے گئے اور کچھ لوگوں نے ان کی معاونت کرنے میں سخاوت کے دریا بہا دیے اور اس رقم سے انھوں نے بارود کے پہاڑ اور جدید اسلحے کے ڈھیر لگائے۔ پھرکیا تھا پہلے انھوں نے جنوبی اور شمالی وزیرستان کو اپنی مملکت بنا ڈالا اور بعد میں سوات پر حملہ آور ہوکر اسے بھی فتح کرلیا۔ سوات پر حملے کے بعد حکومت کی آنکھیں کھلنا شروع ہوئیں اور پھر انھیں سوات سے بے دخل کر دیا گیا۔
اس کے بعد انھوں نے انتقامی کارروائیاں شروع کردیں اور پھر پورا ملک خودکش دھماکوں کے ذریعے خاک و خون میں لوٹنے لگا۔ اس کے بعد سیکیورٹی اہلکاروں اور ان کے درمیان باقاعدہ محاذ آرائی شروع ہو گئی۔ طالبان اپنے لیے گھیرا تنگ دیکھ کر مالی امداد کے لیے بھارت کی گود میں جا بیٹھے۔ پاکستان میں کچھ لوگ اب بھی طالبان کو محب وطن اور پاکستان میں اسلامی نظام کا داعی قرار دیتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ واقعی محب وطن ہیں تو پھر انھوں نے پاکستان کے اہم ترین دفاعی اداروں پر حملے کر کے انھیں زبردست نقصان کیوں پہنچایا اور اگر وہ سختی سے اسلامی تعلیمات پر چلنے والے ہیں تو پھر انھوں نے مساجد، امام بارگاہوں اور مزاروں کو اپنی دہشت گردی کا نشانہ کیوں بنایا، مساجد میں محو نماز ہزاروں مسلمانوں کو اذیت ناک موت سے کیوں ہمکنار کر دیا گیا؟
پاکستان کے دفاعی اداروں پر جتنے بھی حملے ہوئے ان سب کی ذمے داری طالبان نے ہی قبول کی تھی اس ضمن میں طالبان کا ترجمان باقاعدہ بڑی ڈھٹائی اور انتہائی فاتحانہ انداز میں قبول کرتا تھا ساتھ ہی آیندہ مزید سخت حملوں کی دھمکیاں بھی دیتا تھا۔ بھارتی حکمراں چونکہ پاکستان کے وجود کے دل سے منکر ہیں اور اسے نقصان پہنچانے کے لیے نت نئے منصوبے بناتے رہتے ہیں چنانچہ انھوں نے پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے سلسلے میں صرف پاکستانی طالبان پر ہی انحصار نہیں رکھا ہے بلکہ افغانستان میں ازبک اور افغانوں کو بھی دہشت گردی کی باقاعدہ تربیت دینے کا ایک مربوط نظام وضع کر رکھا ہے جہاں بھارتی فوج کے افسران انھیں تربیت دیتے ہیں۔ کرزئی حکومت اس وقت بھارتی حکام کے ساتھ ہر طرح معاونت کر رہی تھی۔
یہ بات ضرور ہے کہ پاکستان کے دفاعی اداروں اور ہوائی اڈوں پر ہونے والے حملوں میں زیادہ تر ازبک اور افغانی دہشت گرد مارے گئے تھے جس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ شاید پاک دفاعی اداروں پر اکثر حملوں میں پاکستانی طالبان ملوث نہیں تھے مگر اسے کیا کہا جائے کہ ان تمام ہی حملوں کی ذمے داری پاکستانی طالبان کا ترجمان فخریہ انداز میں قبول کرتا تھا ،جس سے بھارتی ''را'' اور پاکستانی طالبان کے درمیان ضرورت سے زیادہ قربت کا پتہ چلتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں جو مذہبی دھڑے طالبان کے لیے ہمدردانہ نظریات رکھتے ہیں وہ حالات و واقعات کا صحیح ادراک نہیں کر پائے کہ پاکستانی طالبان کے نظریات میں یکسر تبدیلی آ چکی ہے اور وہ دشمن کا آلہ کار بن چکے ہیں۔
جہاں تک افغان طالبان کا تعلق ہے ان کے بارے میں ضرور کہا جا سکتا ہے کہ وہ آج بھی اپنے پرانے موقف پر قائم ہیں وہ کسی کے ہاتھوں فروخت نہیں ہوئے وہ اب بھی امریکا اور بھارت کے خلاف افغانستان میں برسر پیکار ہیں۔ پاکستانی طالبان کے بھارت کے ساتھ رشتے کا ایک بڑا ثبوت مولوی فضل اللہ ہے جس نے پاکستان کا وہ نقصان کیا ہے جس کے لیے اسے رہتی دنیا تک لوگ کوستے رہیں گے یہی مولوی فضل اللہ ہے جو پاکستانی طالبان کا موجودہ سربراہ ہے اس کے ہی حکم سے پشاور کے آ رمی پبلک اسکول میں ڈیڑھ سو معصوم بچوں کو شہید کر دیا گیا تھا۔ کیا اب اس واقعے کے بعد بھی پاکستان کی کوئی مذہبی جماعت پاکستانی طالبان کو اون کرنے کے لیے تیار ہے؟ فضل اللہ آج بھی افغانستان میں بھارت کے حصار میں چھپا بیٹھا ہے اور پاکستان کو مزید نقصان پہنچانے کے لیے منصوبہ سازی میں مصروف ہے۔
خوش قسمتی سے اس وقت ضرب عضب آپریشن کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔ اس نے طالبان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ طالبان پہلے خودکش دھماکوں کے ذریعے معصوم شہریوں کی بے دریغ جانیں لے چکے ہیں آج وہ خود اپنی جانیں بچاتے پھر رہے ہیں۔ یہ نادان لوگ گزشتہ دس برس سے اپنے ہی ملک کی فوج سے نبرد آزما ہیں اور ملک کو معاشی طور پر مفلوج بنا دیا ہے۔ اگر یہ بات بھی مان لی جائے کہ ان کا اصل ٹارگٹ امریکا ہے تو امریکا نے افغانستان پر قبضہ کیا ہے نہ کہ پاکستان پر چنانچہ انھیں افغانستان میں امریکی سامراج سے رجوع کرنا چاہیے۔
پاکستانی طالبان کی ظالمانہ اور بے رحمانہ کارروائیوں سے جہاں ملک کے ہر شعبے کو نقصان پہنچا وہاں ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کو بھی انھوں نے مشکل میں ڈال دیا ہے۔اس میں شک نہیں کہ اس ملک کے قیام کا مقصد یہاں اسلامی نظام کا نفاذ ہے مگر افسوس کہ انھوں نے حالات اس قدر گمبھیر بنا دیے ہیں کہ اب لوگ اسلامی نظام کے نام سے ہی سہم جاتے ہیں۔ طالبان کی غیر اسلامی حرکات سے جہاں غیر مسلم قوتوں کو فائدہ پہنچا ہے وہاں مسلمانوں میں انتشار اور ڈر و خوف کی فضا پیدا کر دی ہے۔ اب تو طالبان اور القاعدہ سے بھی زیادہ شدت پسند نام نہاد مسلمان میدان کار زار میں اتر چکے ہیں جنھیں داعش کا نام دیا جا رہا ہے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ وہ ایک طرف اسلام کا نعرہ بلند کر رہے ہیں اور دوسری جانب اسلامی اقدار کو پامال کرتے جا رہے ہیں۔
ان نئے شدت پسندوں کا ظہور شام اورعراق میں ہوا ہے اور یہ وہ ممالک ہیں جنھیں سامراجی طاقتیں اپنے کنٹرول میں لے چکی ہیں۔ اس گروہ میں مغربی ممالک کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جوق درجوق شامل ہو رہے ہیں پھر سوال یہ بھی ہے کہ اس نئے شدت پسند گروہ کو رقم اور اسلحہ کہاں سے مل رہا ہے؟ لگتا ہے یہ اسلام دشمن قوتوں کی ہی پیداوار ہیں جو خود پیچھے رہتے ہوئے ان نام نہاد مسلمان جنگجوؤں کے ذریعے اسلام کا روشن چہرہ داغ دار کرانا چاہتے ہیں۔
اب تو کچھ لوگ تنگ ہو کر یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ پاکستانی طالبان بھی مغرب کے ہی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ بھارت نے پاک افغان خوشگوار تعلقات میں پھر تلخی بھرنے کے لیے اپنے افغانی زرخرید غلاموں کے ساتھ مل کر افغان پارلیمنٹ پر خودکش حملہ کروایا ہے جس کا بلا تحقیق الزام پاکستان پر عائد کیا گیا ہے اگر طالبان واقعی محب وطن ہیں تو پھر انھیں اپنے سربراہ مولوی فضل اللہ سے بھارت کی مذمت میں ایک جان دار بیان دلوانا چاہیے۔