امید کی کرن
لیکن باطنی کرب بہرحال موجود رہتا ہے اور جب بھی منتقم مزاجوں کو موقع ملتا ہے، وہ حساب چکا ڈالتے ہیں۔
اس بات سے انکارکی گنجائش نہیں ہے کہ جنگ وجدل کسی معاملے کا حتمی حل نہیں ہواکرتے، حتمی فیصلے تو ہاتھ ملانے سے ہوا کرتے ہیں۔ ہاتھ گریبانوں تک پہنچ جائیں تو انجام خون کی ندیاں اور اگر یہی ہاتھ مصافحے کے لیے آگے بڑھائے جائیں تو دشمنیاں ختم ہوکر پیارومحبت اور امن و آشتی کی فضائیں قائم ہوجاتی ہیں اور حقیقت میں یہی امن وآشتی دیرپا اور طویل المدت ثابت ہوتی ہے اور اگرکوئی جنگ وجدل اور خوف ووحشت سے دیرپا امن کا خواہاں ہو تو وہ بھول پر ہے،کیونکہ خوف سے ظاہری صورت تو بدل سکتی ہے۔
لیکن باطنی کرب بہرحال موجود رہتا ہے اور جب بھی منتقم مزاجوں کو موقع ملتا ہے، وہ حساب چکا ڈالتے ہیں۔ غلطی کرنا تو انسان کی سرشت میں شامل ہے، لیکن اگر اس کا ازالہ تشدد سے کرنے کی سعی کی جائے تو وہ لاحاصل ہوتی ہے اور اگر ماضی کو بھلا کر مستقبل کو مدنظر رکھا جائے اور قصورواروں کی خطاؤں کو معاف کردیا جائے تو سدا کی بدامنی سدا کے امن میں تبدیل ہوسکتی ہے اور مایوسیاں امیدوں کی صورت اختیار کرلیتی ہیں۔ دیکھیے! اعلان نبوت کے بعد سرکار دوعالم ﷺ پرکفار مکہ نے کونسا ظلم روا نہ رکھا۔ ظلم کا جو طریقہ بھی آزما سکے آزمایا۔ بظاہر تو اس کا جواب تلوار تھی، لیکن جب مکہ فتح ہوا تو انتقام لینے پر قدرت کے باوجود آپ ﷺ نے بڑے بڑے دشمنوں کے لیے بھی معافی کے پروانے جاری کرکے ان کے سر ہمیشہ کے لیے امن وآشتی کے مذہب اسلام کی چوکھٹ پہ جھکا دیے، جس سے خونریزی کے خوفناک اندھیرے امن کی دائمی روشنی میں ڈھل گئے۔
شاید اسی بات کو سمجھتے ہوئے بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور بلوچستان کی افسر شاہی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ بلوچستان میں امن کو بھی موقع ملنا چاہیے۔ وزیراعلیٰ کی صدارت میں ایپکس کمیٹی نے مصالحت کے پیش نظر فیصلہ کیا ہے کہ جو نوجوان ہتھیار پھینکنا چاہتے ہیں، انھیں نہ صرف عام معافی دی جائے گی، بلکہ ان کو انعامات سے بھی نوازا جائے گا اور معاشرے میں ان کی باعزت بحالی کی ضمانت بھی دی جائے گی۔ سانحۂ پشاور کے بعد نیشنل ایکشن پلان کی تیاری اور صوبوں میں اپیکس کمیٹیوں کی تشکیل کے بعد متعدد مثبت اقدامات اٹھائے گئے ہیں، جن کے نتیجے میں امن وامان کی صورت میں قدرے بہتری پیدا ہوئی ہے اور ملک سے بدامنی کا کافی حد تک قلع قمع ہوا ہے۔
بلوچستان کی اپیکس کمیٹی نے صوبے میں مسلح کارروائیاں کرنے والے افراد کے لیے عام معافی کا اعلان کرکے ایک اہم اور بڑا قدم اٹھایا ہے۔ اب اس پر عمل درآمد کا طریق کار تیار کر کے اسے بروئے کار لانا ہو گا، تا کہ مسلح کارروائیاں کرنے والوں کو ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کیا جا سکے اور صوبے میں امن واپس آ سکے۔ کہیں ایسا نہ ہو ماضی کی طرح ان اعلانات پر عمل درآمد سراب ثابت ہو۔ بلوچستان میں شورش کے خاتمے کے لیے عام معافی کے اعلانات پہلے بھی کیے گئے، مگر ان پر بوجوہ عمل نہیں ہوا اور بلوچستان کے عوام آج تک وحشت و دہشت کے منڈلاتے سایوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
گزشتہ دنوں کیا گیا معافی کا اعلان امیدکی ایک کرن ہے اور رفتہ رفتہ پورا بلوچستان امن کا گہورا بن سکتا ہے۔ اب اس کے بغیرکوئی چارہ بھی نہیں ہے،کیونکہ بلوچستان ایک عرصے سے بدامنی اور دشمنوں کی سازشوں کا مرکز بنا ہوا ہے، جس سے دن بدن وحشت میں اضافہ ہوا جاتا ہے۔ضروری ہے بلوچستان کے عوام کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے اور ان کو روزگار مہیا کیا جائے۔ ذمے دار عہدوں پر زیادہ تر بلوچوں کو نمائندگی دی جائے، نہ صرف صوبائی سطح پر، بلکہ قومی سطح پر بھی ان کی موثر موجودگی نظر آنی چاہیے۔
اگر دیانت داری سے اپنے ان بھائیوں کا ہاتھ تھام لیا جائے، تو یہی پشتی بان کی حیثیت سے طاقت فراہم کرتے ہوں گے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ ہمیں خودسری اورخود نمائی چھوڑ کرحقیقت پسندانہ طرز اختیارکرنا چاہیے۔ قدرت اس ملک پر بہت مہربان ہے۔ یہاں لامحدود قدرتی وسائل موجود ہیں۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا اور قدرتی وسائل اور معدنیات کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے امیر ترین صوبہ ہے۔ یہاں گیس، لوہے، سونے، کاپر اورکوئلے کے بہت بڑے ذخائر موجود ہیں۔ پاکستان کی زیادہ تر ساحلی پٹی بھی بلوچستان میں ہے،جس کی سمندر کے ساتھ گہرائی ایک ہزار میٹر سے تین ہزار میٹر تک ہے اور اس طرح یہ نہ صرف بڑے تجارتی بحری جہازوں، بلکہ ہنگامی حالات میں پاک بحریہ کے جہازوں کی نقل وحمل کے لیے بھی سود مند ہے۔ اس طرح دفاعی لحاظ سے بھی اس کی اہمیت کسی طورکم نہیں ہے۔
بلوچستان گوادر پورٹ کی وجہ سے مزید اہمیت اختیارکرچکا ہے۔گوادر پورٹ کی تعمیر میں چین نے بھرپور تعاون کیا ہے اور اس کا فائدہ دونوں ملکوں کو پہنچے گا۔ چین کی بڑی تجارتی سرگرمیاں اس کی مشرقی ساحلی پٹی کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ مستقبل میں چین کی تجارت اس کے مغربی حصے میں ہوگی اور وہاں سے گوادرکے ذریعے اس کے سامان کی ترسیل ہوگی۔گوادر پورٹ کی تعمیر کے بارے میں پاک چین اشتراک دنیا بھرکی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ بلوچستان کی اسٹرٹیجک اہمیت کی وجہ سے یہاں متعدد ممالک کی خفیہ ایجنسیاں اپنی گھناؤنی سرگرمیوں میں ملوث پائی گئی ہیں۔
پاکستان دشمن غیر ملکی ایجنسیاں بلوچستان کو بدامنی کی بھٹی میں جھونکے رکھنا چاہتی ہیں اور پاکستان کی ترقی کے ان منصوبوں کو کسی صورت کامیابی سے ہمکنار ہوتا نہیں دیکھنا چاہتیں، اسی لیے آئے روز بلوچستان کو بدامنی کی بھٹی میں جھونکنے کے نت نئے طریقوں پر عمل درآمد کرتی ہیں اور بلوچستان میں شورش برپا کرکے پاکستان کی معاشی اور تجارتی خوشحالی پر چھری پھیرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ بلوچستان میں بدامنی کی وجہ صرف گوادر پورٹ نہیں ہے، بلکہ ایران اورافغانستان کے ساتھ اس کی سرحدوں کا ملنا بھی ایک سبب ہے۔ ان حالات میں بلوچستان میں بدامنی یقینا بہت خطرناک ہے۔ ایک زمانے سے جاری''گریٹربلوچستان'' کی تحریک جہاں افغانستان اور ایران کو حزن آشنا کرتی ہے، وہاں پاکستان بھی تکلیف میں رہتا ہے۔
حالات ثابت کرتے ہیںکہ صاحب اقتدار طبقے کی جانب سے بلوچستان پر اگرظلم نہیں بھی ہوا تو وہ غفلت کا شکارضرور ہوئے ہیں۔ بلوچ عوام پاکستان سے علیحدگی کے خواہاں نہیں ہیں، دراصل صوبے میں چونکہ غربت و پسماندگی انتہائی زیادہ ہے، جس سے وہاں کا غریب طبقہ آسانی سے غیرملکی ایجنسیوں کے ہتھے چڑھ کر اپنے ہی ملک کے خلاف استعمال ہوجاتا ہے۔
یہ ایجنسیاں پیسوں کا لالچ دے کر علیحدگی پسندوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں اور لسانی اور علاقائی تعصبات کو ہوا دے کر صوبے میں امن و امان کی صورتِ حال کشیدہ کرتی ہیں۔مسنگ پرسنزکی وجہ سے بھی بلوچ بھائیوں میں نفرت کے جذبات ابھرتے ہیں، جس کا سدباب کرنا ضروری ہے۔ ان حالات میں بلوچستان کے وسائل کا منہ بلوچ قوم کے لیے کھول دیاجائے تو بہت سی الجھنیں از خود سلجھنا شروع ہوجائیں گی۔ حکومتِ کو چاہیے کہ بلوچستان کے مسائل کو حل کرکے بلوچ قوم کو قومی دھارے میں واپس لائے۔ بلوچ قوم کے ایسے تمام مطالبات تسلیم کیے جائیں جو آئین پاکستان کی وسیع حدود کے اندر اور جغرافیائی سلامتی کے لیے نقصان دہ نہ ہوں۔ انھیں اقدامات کی بدولت بلوچستان میں امن قائم ہوسکتا ہے۔