میانمارکے مسلمان قبیلہ’’روہنگیا‘‘پرمظالم

آج کل پرنٹ میڈیا پر میانمارمیں ہونے والے اقلیتی مسلم قبیلہ’’روہنگیا‘‘پر ریاستی مظالم کاخوب چرچاہورہا ہے۔


قمر عباس نقوی July 04, 2015

آج کل پرنٹ میڈیا پر میانمارمیں ہونے والے اقلیتی مسلم قبیلہ''روہنگیا''پر ریاستی مظالم کاخوب چرچاہورہا ہے۔ سب سے پہلے ہم میانمارکے پس منظرکوماضی کے تناظرمیں دیکھیں گے۔ یہ ریاست اپنی علاقائی وسعت کے اعتبار سے لگ بھگ سات لاکھ مربع کلومیٹررقبے پر محیط ہے۔زمینی جغرافیائی محل ووقوع کے لحاظ سے یہ ریاست جنوب مشرقی ایشیاکی خلیج بنگال کے مشرقی ساحل پر واقع ہے جس کی سرحدیں بنگلا دیش اور تھائی لینڈ سے ملتی ہیں۔ میانمار کیاہے؟ماضی میں تاجِ برطانیہ کے زیر اثر رہنے والی ایک قدیم ریاست''برما'' کا جدید نام ہے۔

دارالحکومت ینگون (سابقہ رنگون) ہے ،کرنسی کا نام ''کیات''ہے۔ ایک طویل عرصے سے طرزِ حکومت ''فوجی'' ہے۔ 4جنوری 1948 کو برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ عالمی تسلیم شدہ عدالتی نظام کا شدید فقدان ہے۔ زرعی اعتبار سے چاول کی پیداوارمیں خودکفیل ہے۔ یہاں تیل کے کنویں بھی ہیں جہاں سے تیل کشید کرکے بیرون ممالک فروخت کیا جاتاہے۔میانمار (برما)کو انگریزوں نے 1826اور1886کے مابین تسخیرکیا تھا۔1935تک برما ہندوستان کا حصہ رہا۔1935کے گورنمنٹ آف انڈیاایکٹ کے تحت برما کو بھارت سے الگ کردیاگیا۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران برما پرجاپان نے قبضہ کرلیا تھا۔یہاں کی اکثریتی آبادی ''بدھ مت'' ہے جن میں عیسائیوں کی تعداد 4 فیصد ہوگی ۔مسلمانوں کی غالباً2فیصد ہوگی وہ بھی مختلف چھوٹے چھوٹے قبائل کی صورت میں پھیلے ہوئے ہیں۔یہاں میںبدھ مت کے حوالے سے وضاحت کرتا چلوں کہ بدھ کے لفظی معنی ''عقل، دانائی، فہم'' کے ہیں۔

کہتے ہیں کہ بدھ برکت والا دن ہے اس لیے ''بدھ کم سدھ'' یعنی بدھ کو جو کام کیا جائے وہ سدھر جاتا ہے۔شمسی سال میں آنے والے منگل کے بعد جمعرات سے پہلے کا دن بھی بدھ کہلاتاہے ، فارسی زبان میں چہار شنبہ اور عربی زبان میں یوم الاربعاکہیں گے۔ یہ تو رہی بدھ مت کی تعریف جس کا خالق مہاتما بدھ تھا۔چین اور جاپان کی اکثریتی آبادیاں اہل بدھ مت پرمشتمل ہیں۔اقتصادی اعتبار سے یہ ملک قدرتی ومعدنی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود یہ دنیا کے غریب ترین ملکوں کی فہرست میں شامل ہے۔اس کی بنیادی وجہ شاید یہی ہو کہ وہاں جمہوریت کے بجائے فوجی آمریت ہے۔ ملکی معیشت شدید عدم توازن کا شکار ہے۔

اسی فوجی آمریت سے نجات حاصل کرنے میں برما کی جدوجہدآزادی کے ہیروجنرل آنگ سان کی بیٹی آنگ سانگ سوچی نے جمہوریت کے قیام اور برماکی آزادی کے لیے علم بغاوت بلند کیا۔اس خاتون کی بھی عجب کہانی ہے۔ موصوفہ کے شوہر سات سمندر پار برطانیہ کے شہرلندن میں قیام پذیرہیں ،اولاد بھی غیرممالک میں کہیں مقیم ہیں۔وہ خود تنہاملک کے دارالخلافہ ینگون میں گھرمیںنظربند ہیں۔اسی صبرواستقامت کے ساتھ جدوجہد کی پاداش میں انھیں عالمی برادری نے نوبل انعام سے نوازا ہے۔ ان کا مقصد حیات برماکی عسکری آمریت سے مکمل طور پر نجات ہے۔

جس کارخیر کے لیے وہ سیاست میں آئی ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے عوام کو ''خوف سے آزادی'' کا نعرہ دیا۔ عدم تشدد کے پرچارکے لیے انھوں نے اپنی تحریک ''نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی '' کی باضابطہ بنیاد رکھی۔ جس کا ثمر انھیں 1990 میں ہونے والے انتخابات میں بھرپورکامیابی کی صورت میں ملا۔ ان کی کامیابی کو عسکری آمروں نے یکسرمستردکرتے ہوئے انھیں قیدوبند کی صعوبتیں دیں۔ دورانِ اسیری نوبل انعام کی عالمی کمیٹی نے انھیں''کمزوروں کی آواز'' قرار دیتے ہوئے 1991میں امن کے نوبل انعام سے نوازا۔ قابل ذکرپہلو یہ ہے کہ یہ خاتون اپنی جدوجہد کے 25 سالہ دور میں 15برس قید میں رہیں۔2010ء میں عالمی دباؤپر برماکی فوجی حکومت نے ان کی نظربندی ختم کرنے کا اعلان کیا۔

اخباری اطلاعات کے مطابق ان دنوں میانمار (برما) میں حزب اختلاف کی رہنما آنگ سان سوچی اسی شمسی سال کے ماہ نومبر میں منعقدہ عام انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیںاور یہ انتخابات ایسے نازک حالات میں ہو رہے ہیں جب وہاں دنیا کی مظلوم ترین قوم روہنگیا بدھ بھکشوؤں کے وحشیانہ ظلم وستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ ایک معتبر رپورٹ کے مطابق گیارہ لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمان دربدرکی ٹھوکریںکھا رہے ہیں ،جن کے پاس رہنے کے لیے زمین ہے نہ کھانے کے لیے خوراک ہے۔ تین سال قبل 2012 میں جب برمی مسلمانوں پر وحشیانہ تشددکاسلسلہ شروع ہوا تو صرف میانمارکے دارالحکومت سے ایک لاکھ چالیس ہزارروہنگیا مسلمانوں کو ریاست سے بے دخل کیا گیا۔ سرکاری سرپرستی میں نہایت بے دردی کے ساتھ برمی مسلمانوں کے قتل عام کے ساتھ ساتھ ان کی جائیداد واملاک کو خاکستراورمساجد کو مسمارکیاگیا۔

بدھ حکومت ایک عرصے سے برمی مسلمانوں کی سرکاری شناخت ختم کرکے ان کی نسل کشی میں سرگرم عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی جان بچانے کی خاطر لگ بھگ گیارہ لاکھ روہنگیا مسلمان جنگلوں، صحراؤں میںغیرانسانی ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبورہیں جب کہ پچیس ہزار کے قریب روہنگیا مسلمان بحیرہ ہند کے کھلے سمندر میں کشتیوں میں ہچکولے کھا رہے ہیں۔ جن کے پاس بنیادی اشیائے ضرورت تک کا کوئی بندوبست نہیں اورنہ ہی انھیں دنیا کاکوئی ملک قبول کرنے کو تیارہے مگر اسلامی ہمسایہ ملک بنگلادیش کی بے حسی تودیکھیے کہ اس نے بھی ان کو قبول کرنے سے انکارکردیا ہے۔

خودغرضی اورظلم وبربریت دیکھیے کہ خاموش نوبل انعام یافتگان کا گروپ اس سنگین انسانی مسئلے پر خاموش نہ رہ سکا اور انھوں نے اس ضمن میں عالمی کانفرنس بلالی مگر برماکی آزادی کی علمبردارخاتون کی خاموشی کسی مصلحت کا شکار ہی معلوم ہوتی ہے ۔

باعث حیرت ہے کہ برمامیں بدھ بھکشوؤں کی حکومت ہے جن کی تعلیمات میں یہ بات واضح طورپرعیاں ہے کہ انسان تو انسان کسی جاندار کو بھی تکلیف دینا اور ماردینا کسی بھی طرح جائزنہیں تو یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پھر مسلمانوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیوں اور کیسے کیا جا رہا ہے۔ اس انسانی بربریت پر حقوق انسانی کی عالمی تنظیمیں، عالمی عدالت انصاف،اقوام متحدہ اورآرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز جیسے فلاحی عالمی ادارے اور انسانی حقوق کے علمبرداروں میں سے کوئی بھی مظلوم مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کرنے اور ظالموں کے خلاف عالمی قوانین کے دائرہ میں رہتے ہوئے نبردآزما ہونے کو تیارنہیں جب کہ پوری دنیا میں ساٹھ کے قریب اسلامی ریاستیں قائم ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں