ہم خوش نصیب تو ہیں نہیں
مسولینی خود کہا کرتا تھا ’’میں اپنی قوت ارادی سے تاریخ پر اپنے نشان چھوڑجاؤں گا۔
مسولینی خود کہا کرتا تھا ''میں اپنی قوت ارادی سے تاریخ پر اپنے نشان چھوڑجاؤں گا۔ میرے نشان شیرکے پنجوں کے نشانات سے مشابہ ہونگے یہ خواہش میرے دل ودماغ پر محیط ہے یہ مجھے اندر ہی اندرکھائے جارہی ہے۔'' یہ ایک انا پسند شخص کا اعتراف ہے ایک ایسے شخص کا اعتراف جس نے پانچ لاکھ آدمی محض اس لیے موت کے بھینٹ چڑھا دیے کہ اسے بیسویں صدی کا جولیس سیزرکہا جائے ۔
مسولینی نے اپنا بچپن نفرت اور بغاوت کے ماحول میں بسرکیا ''میں ایک مضافاتی ڈاکو ہواکرتا تھا ہر وقت لڑنے مرنے کے لیے تیار اکثر جب میں گھر آتا تو میرا سر پھٹا ہوتا لیکن مجھے انتقام لینا آتا تھا۔ ہٹلرکی طرح مسولینی نے بھی اقتدار حاصل کرنے کے بعد اپنی تلخ جوانی کی تلافی کرنے کی کوشش کی اس نے کہا بچپن میں کوئی مجھ سے نرمی اور شفقت سے پیش نہ آتا تھا میں ایک غریب گھر میں رہتا تھا اورمیری زندگی انتہائی تلخ تھی مجھ میں شفقت کہاں سے آتی ۔ جہاں کہیں بھی مسولینی گیا اس نے نفرت اور تشدد کا مظاہر ہ کیا بذات خود وہ اس قدر بزدل تھا کہ سوشلسٹ اخبار '' اوانٹی''کی ادارت کے دنوں میں اس نے ہمیشہ اپنی میز پر ایک چاقو اور بھرا ہوا پستول رکھا ہوتا تھا ۔
مسو لینی کے اس زمانے کی زندگی کے بارے میں اس کی ایک نائب مدیرخاتون سے زیادہ اورکوئی نہیں جانتا اس خاتون کاکہنا ہے کہ وہ مسولینی کے اس ناقابل یقین خوف پر بے حد حیران تھی۔ مسولینی نے اس کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ وہ تو اپنے سائے سے بھی خوفزدہ ہوجاتا تھا وہ اس قدر بزدل تھا کہ اندھیرے میں اکیلا گھر جانے سے گھبراتا تھا۔ یہ حقیقت اسے اپنے دفترکے دوسرے لوگوں کے سامنے تسلیم کرنے میں شرم محسوس ہوئی تھی ۔لہذا اس نے خاتون مدیرہ سے کہہ رکھا تھا کہ وہ اسے ہر روز اس کے گھر چھوڑ آیا کرے ۔وہ خاتون مسولینی کو اس کے گھرکے دروازے پر چھوڑ کر پھر اپنے گھر جایاکرتی تھی ۔یہ تمام باتیں اس خاتون نے ایک کتاب کی شکل میں لکھی ہیں۔
اس خاتون کا نام انجیلیکا بالانوف ہے،اٹلی کا آمر بننے کے بعد اس نے پندرہ ہزار سپاہیوں پر مشتمل ایک پرائیویٹ فوج بنا رکھی تھی، جو اس کے محل کی پوری طرح نگرانی کرتی تھی جب مسولینی نے آمرانہ اقتدار حاصل کیا تو اس زمانے میں ہٹلرکی کوئی حیثیت نہ تھی۔ مسولینی ہی سے ہٹلر نے آمرانہ اقتدار حاصل کرنے کے گر سیکھے ۔1933 میں نازی پارٹی نے ہٹلرکے زیر قیادت جرمنی میں حکمرانی کی باگ ڈور سنبھالی۔پارٹی نے اپنا اقتدار قائم کرنے کے لیے انتہائی بیدردی سے کام لیا جمہوری حکومت کے تمام رہے سہے سلسلے ختم کردیے گئے ۔
جن لوگوں نے اختلافی رائے ظاہر کیں انہیں بے رحمی سے دبا دیاگیا، یہودی کثیر تعداد میں موت کے گھاٹ اتاردیے گئے، ہٹلر عوام کو بہت حقیر سمجھتا تھا اوراس کااظہار اس نے مختلف صورتوں میں بار بارکیا ایک جگہ انہیں بھیڑوں کے بے دماغ ریوڑکہا۔ دوسرے مقام پر مجسمہ حماقت قرار دیتا ہے اپنا یہ عقیدہ بھی اس نے مسلسل ظاہر کیا کہ عوام سست، بزدل، زنخے اور جذباتی ہوتے ہیں۔ ہٹلر آسٹریا کے ایک مقام برانو میں پیدا ہوا وہ خود بتاتا ہے کہ میری زندگی کے شروع کے سال انتہائی عسرت و تنگ دستی ، رنج ومصیبت ، ناکامی، محرومی کے سال تھے ۔
تیرہ برس کی عمر میں اس کی رسمی تعلیم ختم ہوگئی یہ ہی زمانہ ہے جب اس کے ماں باپ نے وفات پائی اس نے ویانا میں پہلے بطور مصور زندگی شروع کی لیکن اس میں کامیابی نہ ہوئی تو معماری کا پیشہ اختیار کرلیا۔ اس میں بھی نہ چل سکا کیونکہ اس نے تعلیم کم پائی تھی وہ ایک خود غرض اور خود پسند شخص تھا۔ اس نے کہا تھا طاقت میری شریک حیات ہے اس کے حصول نے مجھے اتنے جوکھم میں ڈالا ہے کہ اب میں کسی اورکو اس پر ہاتھ ڈالنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ جب کہ نپولین کہا کرتا تھا ''میرے زوال کا الزام اگر کسی کو دیا جاسکتا ہے وہ خود میں ہوں اپنا سب سے بڑا دشمن خود میں تھا اورمیری تباہی کاسبب یہ ہی تھا '' اپنی طاقت کے غرور میں بد مست نپو لین یہ کہتا تھا ''اس سے پہلے کہ آسمان ہم پرآن گریں ہمیں ان کو اپنے نیزے کی انیوں سے سنبھالے رکھنا ہوگا '' لیکن آخر میں صرف ایک اجڑی ہوئی قبر ان سب کی آخری آرام گاہ بنی ۔
ان سب نے صرف اقتدارکی قربان گاہ کی تعظیم کی ان کی عبادت ان کی محبت صرف اقتدار تھا جس کی بنیاد لوٹ ،کھوسٹ اور استحصال پر قائم تھی یہ سب کے سب نفسیاتی مسائل کا شکارتھے اور اپنی محرومیوں ، زندگی کی تلخیوں کا بدلہ اپنے عوام کو برباد اورانہیں ذلیل وخوار کرکے لیتے رہے یہ سب خود کے دشمن ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے عوام کے دشمن تھے اورانھوں نے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے تمام نفیساتی حربوں اورطریقوں کو استعمال کیا کہ جن کے ذریعے وہ اپنے عوام پر قابو پا سکیں ۔ اگر ہم اپنی 67 سالہ سیاسی قیادت پر تیزی سے نظریں دوڑائیں اور ان کی زندگی کا باریکی سے مطالعہ کریں تو ہم پر یہ حیرت انگیز انکشاف منہ پھاڑے کھڑا ہوجائے گاکہ ان سب میں مسولینی،ہٹلر، نپولین موجود تھے بس ان کے نام تبدیل ہیں لیکن سوچ وہی ہے رویے وہی ہیں زندگی کے گذرے واقعات تقریباً وہی ہیں۔
خواہشات وہ ہی رہی ہیں جو مسولینی،ہٹلر اور نپولین میں موجود تھیں ۔ہم نصیب کے مارے نہیں بلکہ خواہشات کے مارے ہیں ۔طاقت کی خواہش،اقتدار کی خواہش،اربوں روپوں کی خواہش کے مارے ہیں اور ساتھ ساتھ اول درجے کے خود غرضی اور اپنی محرومیوں کے بدلوں کے مارے ہیں،کیا کریں ہم اٹلی،جرمنی، فرانس کے لوگوں کی طرح خوش نصیب تو ہیں نہیں ۔کہ ان کی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مسولینی، ہٹلر اور نپولین سے جان چھٹ گئی اورآج وہ اپنے ملکوں کے خود حکمران ہیں جب کہ دوسری جانب ہم آج بھی مسولینی، ہٹلر اورنپولین کو بھگت رہے ہیں اور ان کے ہاتھوں ذلیل ورسوا ہورہے ہیں اور نا جانے کب تک ہوتے رہیں گے ۔