آم رمضان اور عید کارڈ
رمضان المبارک میں خوشحال لوگوں کی افطار ٹیبلوں پر فروٹ ضرور ہوتا ہے
ماہ صیام کی بابرکت آمد کے ساتھ ہی پھلوں کا بادشاہ آم بھی روزہ داروں کی افطار ٹیبلوں کو زینت بخشنے کے لیے پھل فروشوں کی دکانوں پر ٹوکروں میں سج گیا ہے۔ مارکیٹ میں سندھڑی آم ہمیشہ پہل کرتا ہے اور بھر پور طریقے سے ٹیک اوور کر لیتا ہے لیکن چونسہ اور انور لٹور اس کے تعاقب میں ہوتے ہیں۔ آم کے منفی اثرات کو زائل کرنے کے لیے جامن بھی چلا آتا ہے۔
لیکن آم کی بے شمار اقسام بھی مارکیٹ کا رخ کرتی ہیں جب کہ لنگڑا، طوطاپری، فجری، سبزہ، لال بادشاہ، کماس، کلکٹر، گل نواز، لہوتیا، بیگن پھلی، سرخا، تمورا، صالح بھائی، نیلم اور فخر نواز جو غیر معروف قسمیں ہیں۔ اب صرف زرعی یونیورسٹی کی نمائش میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ البتہ چونسہ اور انور لٹور کی اپنی ہی بات ہے۔
مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ کو آم بے حد پسند تھے۔ اسی لیے وہ کہتے تھے کہ ''بس آم ہوں اور بہت سارے ہوں'' لیکن ایک روز مصاحب کے ہمراہ بازار میں دیکھا کہ سڑک پر آموں کے چھلکے بکھرے پڑے ہیں۔ پاس سے گزرتے ہوئے کچھ گدھے چھلکوں اور گٹھلیوں کو سونگھتے اور چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ مصاحب کو شرارت سوجھی اسے معلوم تھا آم مرزا غالبؔ کی کمزوری ہیں، بولا ''دیکھیے مرزا گدھے بھی آم نہیں کھاتے'' مرزا بھی دیکھ رہے تھے بولے ''سچ کہتے ہو گدھے آم نہیں کھاتے''
رمضان المبارک میں خوشحال لوگوں کی افطار ٹیبلوں پر فروٹ ضرور ہوتا ہے اور آج کل تو پھل فروشوں کو گاہکوں کو نمٹانے کی فرصت ہی نہیں، پھلوں کے منہ مانگے دام وصول کیے جا رہے ہیں۔ پندرہ بیس اقسام کے پھل نظر آ رہے ہیں۔ سال کے دوران امپورٹڈ پھل بھی اس غریب اور مقروض ملک میں مل سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر ناشپاتی اور کیلا فلپائن اور انڈیا کا، مالٹا ترکی کا، گریپ فروٹ ساؤتھ افریقہ کا، انگور آسٹریلیا کا، کیوی چین کا، انناس ملائشیا کا، پپیتہ تھائی لینڈ کا اور انڈے کے سائز کا کینو کے ذائقے والا پھل مینٹرین چین سے امپورٹ ہو کر امرأ کے لیے دکانوں پر سجتا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن درآمد شدہ تھوم اور ادرک چین اور تھائی لینڈ سے پیاز ٹماٹر اور لیموں تک انڈیا سے اور اسی طرح شملہ مرچ اور ایوا کارڈو امپورٹ ہوتے ہیں۔ اس جگہ مہنگے جنرل اسٹورز اور شاپنگ مالز کا ذکر نہیں کرتے جہاں اس مقروض ملک کے شہریوں کے لیے کھانے پینے پہننے اور سجنے کے لیے ہر قسم کی امپورٹڈ اشیاء منہ مانگے داموں پر برائے فروخت موجود ہیں۔
معلوم ہوتا ہے بالکل اسی طرح جیسے سعودی عرب کے بارے میں مشہور ہے کہ تیل کی دولت سے مالا مال ہونے سے قبل وہاں کے تاجر اور دکاندار حج کے دنوں کا انتظار کیا کرتے تھے اور اسی طرح یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے تاجر اور دکاندار بھی سال بھر کی کمائی اور راشن کے لیے ماہ رمضان کا انتظار کرتے ہیں تا کہ وہ خریداروں کی جیبوں پر ڈاکے ڈالیں۔
آموں کے سیزن کا رمضان المبارک کے ساتھ ملاپ ہو جانے کی وجہ سے بہت سے لوگ ثواب کمانے کے لیے عزیزوں اور دوستوں کو آموں کی پیٹیاں بطور سامان افطار بھیجتے ہیں۔ یہ اندازہ اس لیے ہے کہ بہت سے ملنے والوں نے اس تحفے کی وصولی کا اقرار کیا ہے۔
چند روز قبل لاہور جمخانہ میں داخل ہونے والے ایک کار سوار کو افطار کے لیے گاڑی میں سے شربت کی بوتلیں نکال نکال کر سیکیورٹی گارڈز کو پکڑاتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔ اسی طرح ایک خاتون کی پھل فروش محمد طارق کے پاس کھڑے ہونے اور فروٹ کا ٹوکرا تیار کروانے کی شہادت بھی موجود ہے۔ افطاری کے لیے اس طرح کے مختلف تحائف ایک دوسرے کو بھجوانے کی روایت قابل ستائش ہے۔ جہاں ایک طرف مذکورہ روایت پسندیدہ فعل ہے وہیں تحفہ وصول کرنے والے کی حیثیت مقبولیت اور Nuisance value کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے۔
بڑی عید پر تو لوگوں نے ایک افسر اعلیٰ کی وسیع کوٹھی کے پچھواڑے کئی موٹے تازے بکرے بھی بندھے دیکھے جو انھوں نے پوچھنے پر ایک ملاقاتی کو بتایا کہ انھوں نے چھ ماہ سے ایک وڈیرے کے فارم ہاؤس پر انھیں بندھوا رکھا تھا تا کہ آزاد فضا میں ان کی پرورش قدرتی ماحول میں ہو سکے۔ عید ملن کے لیے جانے والے عموماً مٹھائی یا کیک کا ڈبہ ساتھ لے جاتے ہیں جب کہ ہمارے ایک جاننے والے Nuisance value والے افسر کے گھر عید ملنے جائیں تو لاہور ہی سے خریدا ہوا قیمتی سوت پیس، پرفیوم اور لاکٹ بھی تحفۃً یہ کہہ کر پیش کر دیتے ہیں کہ لندن جانا ہوا تو گھر کے لیے خریداری کرتے ہوئے آپ کا خیال آ گیا اور یہ چند حقیر تحفے بھی لے لیے کہ بھابی کو سنہری لاکٹ بہت پسند ہیں۔
ٹیلیوژن کے ایک چینل کے دیکھا دیکھی جس میں کمپیئر کے حاضرین پر انعامات کی بھر مار بلکہ برسات دکھائی جا رہی ہے دوسرے قابل ذکر چینلز نے بھی پروگراموں کے حاضرین کو سوال کا صحیح جواب دینے پر موبائل فون سے لے کر موٹر کار اور پلاٹ تقسیم کرنے کا مقابلہ شروع کیا ہوا ہے۔ رمضان کا مہینہ بہت سوں کے لیے ثواب کے علاوہ مال کا ذریعہ بھی بن گیا ہے۔ انعامات بانٹنے کا یہ سلسلہ کم از کم ماہ صیام میں تو قائم رہے گا۔ کوئی ہرج نہیں اس سے بہت سوں کا بھلا ہو جائے گا۔
ماہ رمضان کی برکتوں کو انتہا تک پہنچانے کے لیے عیدالفطر کے ذریعے Celebrate کیا جاتا ہے۔ اس کا ایک انداز اپنے دوستوں، عزیزوں اور تعلق داروں کو عید مبارک کہنے کے لیے عیدکارڈ بھجوانا ہوتا تھا۔
پرنٹر اور آرٹسٹ نت نئے ڈیزائن کے عیدکارڈ مارکیٹ میں لاتے جن پر خوبصورت تحریریں چھپی ہوتیں، رشتوں کو مخلوط رکھ کر انھیں اجاگر کرنے کے لیے شعروں اور آرٹ کے نمونوں کو عیدکارڈ کی زینت بنایا جاتا۔ بچے بوڑھے اور جوان اپنے ذوق اور عیدکارڈ کے مخاطب سے تعلق کی بنیاد پر کارڈ منتخب کرتے۔ یوں محبت اور تعلق کا خوبصورت اظہار ایک دوسرے کو آپس میں جوڑنے کا ذریعہ بنتا۔ اب پہلے کی طرح کارنس اور میز عیدکارڈوں سے نہیں سجتے اب موبائل فون پر SMS پیغام کے ذ ریعے روکھا پھیکا عیدمبارک کا Message آتا جاتا ہے۔ جسے پڑھنے کے بعد Delete کر دیا جاتا ہے۔ جب کہ کارنس پر رکھے عید کارڈ مہینوں تک اپنی خوشبو بکھیرتے رہتے تھے۔