ایک آنسو ایک مسکراہٹ
پہلی، پرانی دشمنیوں اور خون خرابہ کو ختم کرنا، دشمنی کو دوستی میں تبدیل کرنا اور مجرم کو پناہ دینا
GILGIT:
خوشحال خان خٹک پختون قوم کے ایک بڑے شاعر ہیں، کہتے ہیں کہ ''میں اس شخص کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں جو اپنی زندگی عزت سے نہ گزارے، لفظ بے عزتی مجھ کو غصہ دلاتا ہے۔'' عزت کی ذمے داریوں کو چار حصوں میں کچھ اس طرح تقسیم کیا جاتا ہے، پختون ولی کے رسم و رواج جس کا مطلب پختون پر چار ذمے داریاں واجب کرتے ہیں۔
پہلی، پرانی دشمنیوں اور خون خرابہ کو ختم کرنا، دشمنی کو دوستی میں تبدیل کرنا اور مجرم کو پناہ دینا۔ یہ 'نَنَواتے' کہلاتا ہے۔ دوسرا، دو فرقوں کے درمیان خون خرابے کو روکنے کے لیے جرگہ کا التوائے جنگ فیصلہ، یہ 'تیگہ' کہلاتا ہے۔ تیسرا، انتقام لینے کا فرض، یہ 'بدل' کہلاتا ہے۔ چوتھا، مہمان داری، اعلیٰ ظرفی، دلاوری، سچائی، سادگی، ملک سے محبت اور اس کی خدمت، یہ 'میلمستیا' کہلاتا ہے۔ پختون ولی ایک اصطلاح پاک افغان سرحد کے اطراف میں بسنے والے پختونوں کی طرز معاشرت کے حوالے سے مستعمل ہے۔
پختون ولی کا تصور چند اصلاحات تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں تین چار ہزار برسوں پر محیط ارتقائی سفر طے کرنے کے بعد موجودہ ایک حیثیت اختیار کرلی ہے۔ معروف افغان اس کا لر صداق اللہ رشتن پختونوں کی تمام اقدار اور رسومات کو پختون ولی کے تصور سے منسلک کرتے ہیں۔ ماہر بشریات اکبر ایس احمد 'ننگ' (غیرت) کے تصور سے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ جب کہ مکولیکا بینرجی Mukulika Banerji نے اپنی کتاب The Pathan Unarmed میں پختون ولی کے تاریخی تصور کو اجاگر کرتے ہوئے اس کی وکالت کی ہے۔ پختون ولی کا تصور تین چار ہزار برسوں کے دوران تشکیل پایا ہے، یہ چند رسمی احکامات الٰہی یا رسومات جیسا کہ 'ننگ' (غیرت)، بدل (بدلہ)، تربرولی (رشتہ داری)، نانا وتی ملمیستیا یا محض پختونوں کی مذہبیت تک محدود نہیں ہے بلکہ سماجی زندگی میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔
ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ قبائلی دشمنیوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو اس کا سلسلہ دراز سے دراز تک ہوتا چلا جاتا ہے۔ دشمنی کا تصور ایک جرگہ کی صورت میں کسی منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پرانی دشمنیوں اور خون خرابے کو روکنا، دو، دشمنی کو دوستی میں تبدیل کرنا، تین پناہ دینا اور چار مہمان نوازی، یہ 'ننواتے' کہلایا جاتا ہے۔ ایک جرم کرنے والا بھی کسی کی پناہ میں آتا ہے تو اس پر اپنے راج کی پابندی لازمی ہوجاتی ہے، حالانکہ تصور تو یہی کہلایا جائے گا کہ اسے قانون کے حوالے کردیا جائے، لیکن ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ایسا نہیں ہوتا۔
سب سے بڑی مثال اسامہ بن لادن کی تھی جب افغان حکومت کے امیر ملا عمر سے اسامہ کی گرفتاری کے لیے کہا گیا تو انھوں نے امریکا کے حوالے کرنے سے انکار صرف اس لیے کردیا کیونکہ اسلام یا پختون ولی روایات کے برخلاف وہ نہیں چل سکتا تھا۔ چونکہ ہزاروں برسوں کی رسوم و رواج ہیں کہ پختون پناہ کے عمل کو جرم پر فضلیت دیں گے، پناہ پر پابندی نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ یہ نظریہ کسی دوسری قوم کے لیے عجیب تر نظر آئے لیکن جو قومیں صدیوں کے ارتقا کے عمل سے گزرتی ہیں وہ اپنے اس عمل کو درست سمجھتی ہیں کہ ان کے گھر پناہ لینے کوئی بھی ہو، کسی بھی جرم کا ہو، لیکن ان کی روایات ایسی ہی ہیں جس سے روگردانی نہیں کی جا سکتی۔
چاہے وہ کسی بھی ذات، عقیدہ، رتبہ، دوست یا دشمن ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی بڑی مثال تاریخ میں بھی ہے کہ 1870 میں کچھ مفرور لوگوں نے آدم خیل آفریدی کے ایک قبیلہ 'جوواکیس' کے لوگوں سے پناہ لی، انگریزوں نے جو واکیس کے سرداروں کو حکم دیا کہ مفروروں کو حکومت کے حوالے کردیا جائے، جو واکیس کے لوگوں نے انکار کیا۔ برطانوی حکومت نے پانچ ہزار سپاہیوں کی فوج بھیجی، ہر دُرہ اور وادی پر فوج کا قبضہ ہوگیا، بہت مویشی مارے گئے، قبیلے کا بہت نقصان ہوا۔
قبیلے کے سردار انگریزوں کے پاس آئے اور ہتھیار ڈالنے کی شرط پوچھی، انگریز نے کہا ''نقد جرمانہ، مہم کی قیمت، کچھ ہتھیاروں کی حوالگی اور دو مشہور مفرور لوگوں کی سپردگی۔'' سرداروں نے کہا ''تمھاری دو شرطیں منظور، لیکن ہم اپنے پاس پناہ دینے والوں کو تمھارے حوالے نہیں کرسکتے، تم نے ہمارے ملک (علاقے) پر قبضہ کرلیا، رکھ لو، ہم کہیں اور گھر بنالیں گے، لیکن جن کو ہم نے پناہ دی ہے ان کی حفاظت کریں گے، ان کو ہم سپرد نہیں کریں گے۔''
بینرجی کے الفاظ میں ''سرحدی علاقے مکانی طور پر توسیع خطے ہوتے ہیں اور ان کا ثقافتی ارتقا جاری رہتا ہے، جو جدلیات کے لیے موزوں ہوتا ہے''۔ گندھارا کی تہذیب بھی ایک ایسے ہی ارتقائی عمل کے نتیجے میں تخلیق پائی، تہذیبوں کے طویل عرصہ تک قائم رہنے والے غیر معمولی ملاپ کا حصہ ہے۔ برطانیہ کے 'کپلنگ' نے پندرہ سو برس قبل یہ کہہ دیا تھا کہ مشرق و مغرب کبھی نہیں مل سکیں گے، لیکن برطانیہ نے بزور طاقت جنگ لڑی، برطانیہ نے ایسا اپنے استعماری عزائم کے باعث کیا، جیسا کہ وہ زار روس (اور بعد ازاں سوویت یونین) کے ساتھ 'گریٹ گیم' کا حصہ تھا، اس کی افغانستان اور شمالی انڈیا کے حوالے سے تمام پالیسیاں روسی خطرے کے خوف کے پیش نظر تشکیل پاتی تھیں اور یہی عوامل پختون ثقافت (پختون ولی) اور معاشرے پر اثر انداز ہوئے۔
افغانستان کی موجودہ صورتحال کو ہم پختون ولی (پختون ثقافت) کی رو سے باآسانی سمجھ سکیں گے۔ پختون اپنی ثقافت میں اسلامی روایات کی آمیزش بھی شامل کرنے لگا ہے۔ اپنی عزت اور بے عزتی پر احساس ایک پختون کی خاصیت رہی ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ پختون اپنے آپ کو کسی سے کم بھی نہیں سمجھتا۔ پختون اپنی غیرت کے لیے اس بات پر یقین کرتا ہے کہ اسلامی شریعت کے مطابق آنکھ کا بدلہ آنکھ، خون کا بدلہ خون ہے، کیونکہ اس کی خو میں یہ شامل کردیا جاتا ہے کہ بے عزتی کا بدلہ لینے سے بے عزتی دُھل جاتی ہے۔ وہ اس کا بھی خیال نہیں کرتا کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا بھی یہی ماننا رہا ہے کہ پختون وہ نہیں جو پشتو بولتا ہے، بلکہ اصلی پختون وہ ہے جو ''پختون ولی پر عمل کرتا ہے۔''
پختون ولی کے حوالے سے اگر اقبال کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ بے انصافی ہوگی، علامہ اقبال کی شاعری اور افغانوں سے محبت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اقبال نے اپنی زندگی میں فلسطین اور کشمیر کے علاوہ افغانستان کے لیے بھی عملی جدوجہد کی، 1929 میں جب افغانستان کے بادشاہ غازی امان اللہ کے خلاف افغانستان کے پہلے تاجک حبیب اللہ کلکانی حکمران بن کر بچہ سقہ کے نام سے مشہور، تو علامہ اقبال کا خیال تھا کہ بچہ سقہ کو اقتدار دلوانے میں برطانیہ حکومت کی سازشوں کا عمل دخل ہے۔
علامہ اقبال نے بچہ سقہ کے خلاف لاہور میں مظاہرہ بھی کرایا۔ 25 فروری 1929 میں محمد ہاشم خان، شاہ ولی خان کے موجودگی میں کچھ رقم نادر شاہ کو دینی چاہی لیکن انھوں نے شکریے کے ساتھ رقم واپس لوٹادی۔ ان کی آنکھوں میں امڈتے آنسو دیکھے جاسکتے تھے، نادر شاہ لاہور سے پشاور، وہاں سے وزیرستان گئے اور علی خیل میں اپنے ساتھیوں کو منظم کرکے بچہ سقہ کو شکست دی۔ نادر شاہ نے 1933 میں علامہ اقبال کو افغانستان کے دورے کی دعوت بھی دی۔ کابل یونیورسٹی کے لیے اقبال اپنے ہمراہ سید سلیمان ندوی، راس مسعود اور بیرسٹر غلام رسول خان کو بھی لے گئے اور کابل یونیورسٹی کو عظیم درس گاہ بنانے کا تحریری منصوبہ نادر شاہ کے حوالے کیا۔
کابل میں تحریک آزادی ہندوستان کے عظیم مجاہد حاجی صاحب ترنگزئی اور ملا شور بازار سے ملاقات اور غزنی میں حضرت علی ہجویری کے والد حضرت عثمان ہجویری کی قبر تلاش کرکے فاتحہ بھی پڑھی۔ یہ افغانستان اور پاکستان کے نہ ٹوٹنے والے رشتے ہیں۔ پاک، افغان کے بزرگوں کے طفیل جو پختون ولی دونوں ممالک میں قائم ہے، ایسے ارباب اختیار کو مضبوط بنانے کے لیے اخلاص سے کام لینا ہوگا۔ بھارت سمیت استعماری قوتیں نہیں چاہتیں کہ پاک، افغان کے درمیان بھائی چارہ پروان چڑھے، کالی بھیڑیں جن صفوں میں ہوں اسے ختم کرنا ہوگا۔ افغان ثقافت ہزاروں سال پرانی ہے، پاکستان قائم ہوئے 68 سال ہوئے ہیں، فیصلہ ہم کو کرنا ہوگا کہ ہم پختون ولی کا جواب کیسے دیں۔