وارث میر اور مستقل نشان
تمام مہذب دنیامیں فکری اختلاف کونہ صرف برداشت کیاجاتاہے بلکہ اس کی آبیاری کی جاتی ہے
ہماراپوراملک"یکساں فکر" (Monolithic)رکھنے والاسماج ہے۔اس میں چندسماجی مفروضوں کوتقدس حاصل ہوچکا ہے۔ ان کے متعلق بات یا بحث بھی نہیں کرسکتے۔ اگر آپ اپنی اختلافی سوچ کاسرِعام اظہارکرنے کی جرات کرتے ہیں تو آپکو مغرب کا ایجنٹ یااین جی اوزسے امداد لینے والاانسان ثابت کردیاجائیگا۔آپ ذراسی فکری آزادی سے بات کریں توآپ کو "سیکولر" اور لادین کہا جانے لگے گا۔آپ پرزندگی کے تمام دروازے بندکرنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔
تمام مہذب دنیامیں فکری اختلاف کونہ صرف برداشت کیاجاتاہے بلکہ اس کی آبیاری کی جاتی ہے۔وہ اس تضاد کو ایک اثاثہ سمجھتے ہیں اوراسی اساس سے ان کی فقیدالمثال ترقی کی نموہوئی ہے۔وہ یہ جانتے ہیں کہ ہربات ماننے والے دانشور، دراصل دانشورنہیں ہوتے۔ اختلاف کرنے کی جرات انتہائی لائق اورسنجیدہ طبع کے لوگ ہی کرتے ہیں۔ پوری دنیاچین کی ترقی کوایک مثال سمجھتی ہے۔اس ترقی کی بنیادچین کااپنے سیاسی عقیدے یعنی کیمونزم سے تبدیلی کاراستہ اپناناہے۔70ء کی دہائی میں جس چینی سیاسی لیڈرنے اس بات پربحث کی،کہ اس کا ملک دنیامیں ہرطریقے سے پیچھے رہ گیاہے اورچین کو Capitalismکی جانب بتدریج جاناچاہیے۔ اس کو نہ صرف تمام سرکاری مراعات سے محروم کردیاگیابلکہ اسے جیل بھیج دیاگیا۔اس عظیم آدمی کانام ڈنگ زیاؤپنگ تھا۔آج وہ اپنے ملک کا حقیقی مسیحا گردانا جاتا ہے۔ جدیدچین کالیڈرڈنگ زیاؤپنگ ہی ہے۔باقی سب کچھ تاریخ کاجزدان ہے۔
ہمارے ملک میں فکری اختلاف کی کوئی جگہ نہیں۔ مزیدلکھنے سے پہلے ایک عجیب احساس کو تمام دوستوں سے شیئر (Share) کرنا چاہتا ہوں۔ رمضان ہمارے لیے برکتوں اوررحمتوں کامہینہ ہے۔اس کی تقدیس اوراحترام قرآن حکیم میں تفصیل سے درج ہے۔ہمارے آقاﷺ نے ہر رمضان المبارک میں انتہائی سادگی،ریاضت اور صبرکابے مثال مظاہرہ فرمایا ہے۔ آقاﷺاور صحابہ اکرامؓنے ذات کی نفی کی شاندارمثالیں قائم کی ہیں۔ مسافرکوکھاناکھلایا،افطارکروایامگرخودفاقہ سے رہے۔ بھوک اورپیاس کوبرداشت کرنااپنے کردارمیں اس طرح سمولیاکہ رہتی دنیاتک مثال بن گئے۔ہم نے اس مقدس مہینہ کا کیا حال کردیاہے؟کھانے پینے اورروزمرہ کے استعمال کی چیزوں کی تشہیراس طرح کی جارہی ہے کہ ان کا استعمال عین ثواب معلوم ہوتاہے۔مختلف طرح کے مشروب، جو طب کے حوالے سے انسانی جسم کے لیے ضرر رساں ہیں۔
ان کی تشہیر میں مذہب کوایسے شامل کیا گیا ہے کہ معلوم ہوتاہے کہ یہ مشروب بنانے والوں کا واحد مقصد لوگوں کی مفت خدمت ہے؟تیل اور گھی بنانے والے کارخانے اپنی اشیاء کواس مبارک مہینہ میں اس مذہبی تقدس سے مشتہرکررہے ہیں کہ طالبعلم کولگتاہے کہ انکو بنانے اور استعمال کرنے والے سیدھے جنت میں داخل ہوجائینگے۔ اداکار اور اداکارائیں، گویے، ماڈل اور ماڈلز انتہائی قیمتی لباس پہن کراس عظیم مہینے کے فضائل بیان کرنے میں مصروف کار ہیں۔ قرآن اورسیرت نبویؐ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں یہ عرض کرنا چاہونگاکہ یہ سب کچھ اس عظیم اوربابرکت مہینے کی اسلامی روح سے مطابقت نہیں رکھتے۔ میری نظر میں رمضان کا پیغام سادگی ہے۔ کیاآپ اس ملک کے کروڑوں سفیدپوش اورغریب روزے داروں پرغور کرینگے جواتنی مالی استطاعت نہیں رکھتے کہ افطارکے لیے دس بارہ طرزکی اشیاء سے ٹیبل سجا سکیں۔ جنکی اولاد انتہائی حسرت سے ٹی وی پر یہ سب کچھ دیکھتے ہیں۔ دل دکھتا ہے۔ صاحب۔دل دکھتاہے۔ مگراس طرف کسی کی توجہ نہیں۔ کیااس مہینہ میں مذہبی احکامات کے پیشِ نظرکھانے پینے اوردیگرمعاملات میں مکمل سادگی نہیں ہونی چاہیے۔
فکری اختلاف پربات کرتے ہوئے کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔خواجہ ظفر پرانے دوستوں میں سے ہے۔انتہائی زندہ دل اوربذلہ سنج انسان۔ میں اسسٹنٹ کمشنرشکرگڑھ تعینات ہونے سے پہلے دوماہ کے لیے لاہوررہ رہاتھا۔ماڈل ٹاؤن میں ایک قریبی عزیز قادر بھائی نے مجھے اپنے گھر میں ایک کمرہ دے رکھاتھا۔خواجہ ظفران دنوں میں پنجاب یونیورسٹی میں جنرلزم (Journalism) میں M.A کررہا تھا۔ نئی کاربھی خریدرکھی تھی۔ایک دن شام کومیرے پاس آیا۔ہمراہ ایک انتہائی سنجیدہ اور متانت سے بھرپورشخص تھا۔وہ انتہائی سادگی سے باتیں کررہاتھا۔ابتدائی تعارف کی نوبت ہی نہیں آئی۔انھوں نے آتے ہی مجھے کہاکہ آپ نے انڈیاکی فلاں نئی فلم دیکھ لی ہے۔یہ وی سی آرکازمانہ تھا۔میرانفی پرمبنی جواب ان کے لیے باعث ِحیرت تھا۔ خیر اب ہم تمام،ان کی بیان کردہ فلم کرائے پرلے کرآئے۔ مجھے یادہے کہ یہ نصیرالدین شاہ کی کوئی فلم تھی۔تھوڑی سی فلم دیکھنے کے بعدکہنے گے۔بس یار،اب ذراباہرچلتے ہیں۔
میرے لیے یہ مزیدتعجب کاباعث تھاکہ ابھی ان کی فرمائش پر ہم سب فلم دیکھ رہے تھے اورسب کچھ چھوڑکراب وہ فرما رہے ہیں کہ باہرچلیں۔خواجہ ظفرانکواستادکہہ رہاتھا اور بڑے ادب سے مخاطب تھا۔اس شخص میں کمال کی سادگی، بھولپن اور تغیر تھا۔خیرہم تینوں گاڑی میں سوار ہوکر کھانا کھانے نکل پڑے۔تین گھنٹوں میں مجھے احساس ہواکہ یہ ایک غیر معمولی شخص ہے۔نہ انھوں نے میرانام پوچھا، اور نہ ہی مجھے ان کا نام معلوم ہوا۔رات کوہم سب انھیں پنجاب یونیورسٹی چھوڑنے گئے۔ خواجہ ظفر نے واپسی پر بتایاکہ یہ شخص میرے استادہیں۔ان کا نام وارث میرہے۔ اس زمانے میں صرف انگریزی اخبارپڑھتاتھا،لہذااس نام سے مجھے کوئی شناسائی محسوس نہ ہوئی۔مگراس صرف ایک دن کی ملاقات کے بعد ہمارا ایک احترام اوربے تکلفی پرمبنی دوستی کارشتہ قائم ہوگیا۔جب تک میں لاہور رہا، تقریباً روزانہ خواجہ ظفراوروارث میر ماڈل ٹاؤن میرے پاس آجاتے۔ہم ایک فلم لاتے،اسے تھوڑا سا دیکھ کرکھانا کھانے چلے جاتے۔
وارث میرعمرمیں مجھ سے بڑے تھے۔مگرانھوں نے کبھی اس فرق کودیوارنہ بننے دیا۔میں نے محسوس کیاکہ ہرمعاملے میں ان کی ایک مدلل رائے ہے۔وہ اپنی رائے پرقائم رہتے تھے۔ بلکہ قلیل سی بحث میں ہم تمام دوست بھی ان کی رائے تسلیم کرنے پرمجبورہوجاتے تھے۔انھیںدلیل سے بات کرنے کانایاب فن آتاتھا۔مجھے یہ بھی ادراک ہوا کہ ان کے فکری رجحانات قطعاً عامیانہ نہیں۔پنجاب یونیورسٹی میں اس وقت ایک مذہبی طلباء تنظیم کاطوطی بولتا تھا۔یونیورسٹی میں ہرکام ان کی مرضی سے ہوتاتھا۔وارث میر اپنے ضمیرکے مطابق اپنے خیالات کوہرجگہ بے باکی سے بیان کرتے تھے۔لازم ہے کہ ان کے شعبہ اور ادارے میں ان سے اختلاف کرنے والوں کی تعدادبہت زیادہ تھی۔ وارث میرنے کبھی بھی اپنی فکری اورذاتی مخالفت کو اہمیت نہ دی۔انھیں ہرجگہ اپنے منفرد خیالات کی بدولت تکلیف پہنچائی گئی۔ جوانھوں نے ہنس کربرداشت کی۔ان کی شگفتگی اور بذلہ سنجی قائم درقائم رہی۔میں نے کبھی انھیں رنجیدگی کے صحرامیں آبلہ پانھیں دیکھا۔ سارے دکھ اپنے اندر سمولینے پر مہارت حاصل کرچکے تھے۔ہم جیسے لوگوں کووہ بے تکلفی سے وہ نکتے بیان کردیتے تھے جودراصل اپنی قیمت میں سونے سے مزین زریں اقوال ہوتے تھے۔
ڈیڑھ ماہ بعدمیں شکرگڑھ چلاگیا۔کچھ عرصے کے بعد لاہورآیاتوخواجہ ظفرسے ملاقات ہوئی۔محسوس کیاکہ ظفربہت زیادہ دکھ کی کیفیت میں ہے۔بات کرتے کرتے خاموش ہوجاتاتھا۔ اسے اس عجیب حالت میں پہلے کبھی نہیں دیکھاتھا۔پندرہ بیس منٹ بعد خود پوچھاکہ وہ اتنا پریشان کیوں ہے۔ظفرنے روناشروع کردیا۔بتایاکہ وارث میرصاحب انتقال کرگئے ہیں۔میں یقین اوربے یقینی کے گرداب میں غوطے کھانے لگا۔محض چنددن پہلے ہم تمام لوگ روزانہ شام کواکھٹے ہوتے تھے۔بے تکلف گفتگو ہوتی تھی۔فلمیں دیکھتے تھے۔مجھے ظفرسے یہ پوچھنے کی بھی ہمت نہ ہوئی کہ وہ کیسے فوت ہوئے۔میری نظرمیں وہ ایک صحت مندانسان تھے۔آنکھوں میں بادل سا آگیا۔ ظفرتھوڑی دیربعدکمرے سے چلاگیا۔میں عجیب سی کیفیت میں ڈوب گیا۔اتنی جلدی، کیوں اورکیسے۔شائدوہ اپنے داخلی غم،دکھ اوراپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کواپنے اندرپالتے پالتے تھک چکے تھے۔ میں توصرف محدودمدت سے ایک دوست تھا۔میرے جیسے لاتعداد لوگ، شاگرد، طالب علم اوردوست مزیدبھی ہونگے۔ ایسے لگاکہ میرے دل پراس عظیم شخص کی جدائی کاایک داغ سابن گیا ہے۔ ایک مستقل نشان۔جوآج تک قائم ہے۔