برکت والا افضل مہینہ

اس دنیا میں ہم پر ہمارے نبی کریم حضور اکرم ﷺ کی وجہ سے ہمیں جو ریلیف ملا ہے ہمیں اس کا ذرا بھی احساس نہیں


Shehla Aijaz July 07, 2015
[email protected]

رمضان المبارک کا مبارک مہینہ 2005 جب پاکستانی قوم ملک میں زلزلے کی تباہ کاریوں سے بے چین ہوگئی تھی،آنکھیں اشکبار تھیں، دل غم سے بوجھل اور سب ایک ہوکر اپنے بھائیوں کی مدد میں جت گئے۔ یہ بات بڑی عجب سی تھی کہ اتنا مبارک مہینہ اور پاکستان کے ایک خطے میں ایسی قیامت وہ بھی قدرت کی جانب سے؟

2015 رمضان المبارک کا مہینہ نہ زلزلہ نہ سیلاب نہ طوفان۔ پھربھی صرف کراچی میں گرمی کی شدت سے مرنے والوں کی تعداد سو سے نکل کر ہزار کے ہندسوں میں داخل ہوگئی؟

حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم ملک شام کے قریب مدین میں آباد تھی، رب العزت نے ان لوگوں پر بڑی نعمتیں فرمائی تھیں گھنے باغات، جنگلات عطا فرمائے تھے اسی لیے یہ قوم ''اصحاب الأیکہ'' بھی کہلاتی تھی، ان کے یہاں رب العزت نے تجارت میں بھی بڑی برکت رکھی تھی، غرض ایک خوشحال قوم تھی لیکن اس قوم نے خدا کا شکر ادا کرنے کی بجائے ناشکری شروع کردی، جس کی انتہا ہوگئی، تجارت کرتے تو بے ایمانی کرتے منافعے کے باوجود ناپ تول میں ڈنڈی مارتے تاکہ زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو۔ اسی طرح لیتے ہوئے بھی زیادہ لینے کی کوشش کرتے جو حق سے آگے تک چلا جاتا، تجارتی قافلوں کو لوٹتے ان کا مال چھین لیتے، اس قوم کو راہ راست پر لانے کے لیے حضرت شعیب علیہ السلام کو رسول بناکر بھیجا گیا۔

آپ کو اپنی قوم کی ان نافرمانیوں پر شدید غم تھا آپ نے اپنی قوم کو راہ راست پر لانے کی شدید کوشش کی اور سمجھایا کہ صرف ایک مالک کی عبادت کرو اور ناپ تول میں کمی نہ کرو، لوگوں کا مال نہ لوٹو۔ لیکن ان کی قوم نے ان کا مذاق اڑایا اور کہا کہ ہم تو سمجھتے تھے کہ تم بڑے سمجھدار ہو۔کیا تمہاری نماز تم کو یہی سکھاتی ہے کہ ہم برسوں سے ہونے والے بتوں کی پوجا چھوڑدیں؟ اور ہم اپنے مالوں میں اپنی مرضی بھی نہ چلائیں؟ حضرت شعیب علیہ السلام نے قوم کو ڈرایا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری بداعمالیوں کی وجہ سے تم پر بھی ہولناک عذاب آجائے جیساکہ تم سے پہلے قوم نوح علیہ السلام، قوم ثمود اور قوم لوط پر آیا تھا۔ قوم نے کہا کہ اگر ہمیں تمہارے قبیلے کا خیال نہ ہوتا تو تم کو ہلاک کردیتے۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہیں میرے قبیلے کا اللہ سے زیادہ لحاظ ہے اور تم اللہ کو بالکل بھلا چکے ہو۔

وہ بگڑی قوم باز نہ آئی تو عذاب کو (بادل کے ) سایہ کی شکل میں ان کی طرف بھیجا گیا لوگ اسے اپنی طرف آتا دیکھ کر خوشیاں منانے لگے کہ اب بارش ہوگی،گرمی دور ہوجائے گی، باغات ہرے بھرے ہوجائیں گے، لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ (بادل کا سایہ) سایہ اللہ کی رحمت نہیں بلکہ اس کا عذاب لارہا تھا۔ جس کے ساتھ ہی ایک زوردار چیخ اور زلزلے نے نافرمانوں کو ہلاک کردیا ان کی بستیاں ایسے ہوگئیں جیسے کبھی یہ لوگ یہاں بسے ہی نہ ہوں۔ حضرت شعیب علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والے اس عذاب سے بچا لیے گئے۔

حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم سے پہلے حضرت لوط علیہ السلام کی قوم جو فلسطین کے قریب عمورہ اور سروم کی بستیوں میں آباد تھیں بے حیائی کا شکار تھیں اور حضرت لوط کے سمجھانے کے باوجود راہ راست پر نہ آئی تو رب العزت کی جانب سے ان پر عذاب نازل ہوا۔ بستیاں اٹھا کر پٹخ دی گئیں آسمان سے ان پر پتھروں کی بارش ہوئی۔ آج بھی ہم مدین اور بحر مردار کے قریب ان دونوں قوموں کے عبرت کے نشان دیکھ سکتے ہیں۔

آج ہم جس دنیا میں بستے ہیں ہمیں انسانی ذہن کی عقل وشعور اور اس کی ایجادات پر بڑا غرور ہے ہمیں غرور ہے کہ اگر گھر یا آفس سے باہر آگ برس رہی ہے توکیا ہوا۔ ہمارے پاس تو اے سی ہے لیکن کراچی والے گواہ ہیں کہ جس روز کراچی میں 46 ڈگری سینٹی گریڈ گرمی پڑ رہی تھی کتنے لوگوں کے اے سی چل رہے تھے اس دن اے سی کی ٹھنڈا کرنے کی طاقت جیسے سلب ہوگئی تھی، یہ اموات یہ ہیٹ اسٹروک ہمارے لیے محض گرمی نہیں ہے بلکہ عذاب الٰہی ہے۔

بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ہم اسے اپنے منہ سے ادا کرتے اچھا محسوس نہیں کرتے لیکن ہم اسے اچھا نہیں سمجھتے ان ہی بہت سی باتوں میں نجانے کتنی باتیں پوشیدہ ہیں ہم سب جانتے ہیں کہ یہ عذاب ہم پر کیوں نازل ہو رہا ہے ۔سائنسدانوں کی جانب سے مستقل گلوبل وارمنگ کا الارم بجایا جا رہا ہے لیکن ایسا کیوں ہو رہا ہے پاکستان میں کیا کراچی ہی خط استوا سے اتنا نزدیک ہے کہ اس کا درجہ حرارت اتنے بلند درجوں پر پہنچ گیا کہ لوگ اپنے ہی گھروں میں گرمی کی شدت سے دم گھٹنے سے مرنے لگے، گھروں میں بجلی نہیں، پانی نہیں، گھر چھوٹے، ہوا کی آمد و رفت کا کوئی سلسلہ نہیں، کتنے لوگ میرے آپ کے جاننے والے چھوٹے دکاندار، غریب، مستری، پلمبر، مزدور، خوانچہ فروش گرمی کی شدت کا شکار بنے۔

اس دنیا میں ہم پر ہمارے نبی کریم حضور اکرم ﷺ کی وجہ سے ہمیں جو ریلیف ملا ہے ہمیں اس کا ذرا بھی احساس نہیں انسان کو اس کے عمل کی آزادی دی گئی تھی، اس آزادی کا مطلب ہرگز یہ نہ تھا کہ بے سونڈ کے ہاتھی کی مانند جہاں دل چاہا گھس گئے بلکہ یہ تو ہمارے لیے امتحان ہے کہ کون اس آزادی کا صحیح استعمال کرتا ہے اور یہی استعمال ہر انسان کی رپورٹ تیار کرتا ہے مثلاً اگر میں ایک غریب خوانچہ فروش ہوں فالسے بیچتا ہوں لیکن تولتے ہوئے کم ازکم میں ہلکا باٹ استعمال کرتا ہوں یا تول میں ڈنڈی مار سکتا ہوں کیونکہ میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ تو میرا حق ہے میں کتنا غریب ہوں میں اپنی آزادی کو اس حد تک تو استعمال کرسکتا ہوں لیکن اس آزادی کی پاداش میں جسے میں نے منفی انداز میں استعمال کیا میری زندگی کی فائنل رپورٹ میں رب العزت کی جانب سے کیا ریمارکس لکھ دیے گئے اس کا مجھے خیال ہی نہیں۔

کیا ایک خوانچہ فروش اور کیا ایک ذمے دار وزیر سب کی اپنی اپنی آزادی کی حد ہے، اسے کون استعمال کرتا ہے منفی انداز میں یا مثبت انداز میں اس لیے کہ برکت دینا اوپر والے کا کام ہے یہ ہمارا کام نہیں، کہاں کہاں کیسے کیسے یہ برکت ہماری آبادیوں میں سرائیت کرتی ہے ہم اتنے مصروف ہیں کہ ہمارے پاس تو سوچنے کے لیے بھی ٹائم نہیں یقینا قوم لوط اور قوم شعیب کے پاس بھی ٹائم نہ ہوگا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں