خواتین میں مصنوعی زیورات پہننے کا رجحان بڑھ گیا

سونے کی قیمت میں اضافہ، امن و امان کی خراب صورتحال اورجدید ڈیزائن کے باعث مصنوعی زیورات کی فروخت میں تیزی


نمرہ ملک July 07, 2015
عیدالفطر کی تیاریوں کے سلسلے میں خواتین شاپنگ سینٹر کے ایک اسٹال پر جدید ڈیزائن کے مصنوعی زیورات خرید رہی ہیں(تصاویر :محمد نعمان)

عید الفطر کی آمدپر خواتین کی تیاریاں عروج پر ہیں، تقریب ہو یا تہوار خواتین بناؤ سنگھار پر خصوصی توجہ دیتی ہیں اور چونکہ زیورات خواتین کے سنگھار کا لازمی جزو ہے تو اس کے بغیر خواتین کی تیاری ادھوری سمجھی جاتی ہے لہٰذا بازاروں میں ملبوسات ، سینڈلزکی دکانوں کے علاوہ مصنوعی زیورات کی دکانوں پر خواتین کا انتہائی رش دیکھنے کو مل رہا ہے۔

ایکسپریس سروے کے مطابق مصنوعی زیورات کے استعمال میں پچھلے 5 سال میں بے حد اضافہ ہوا جس کی اہم وجوہات میں سونے کی قیمت میں اضافہ، امن و امان کی خراب صورتحال اورفیشن کے تیزی سے بدلتے رجحانات ہیں جس کے باعث مصنوعی زیورات کی صنعت کو فروغ مل رہا ہے، عید کے موقع پر خواتین بیش قیمت یا بھاری بھرکم زیورات کے بجائے ہلکے پھلکے زیورات کو ترجیح دیتی ہیں، عید کے لیے خواتین ہر سوٹ کے رنگ کی مناسبت سے جیولری کی خریداری کرتی ہیں اور حتی الامکان ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کم قیمت میں معیاری اور پائیدار جیولری خرید سکیں، زیورات کے حوالے سے اہم مراکز کلفٹن میں واقع گلف سینٹر، میٹرو مال، طارق روڈ، گلستان جوہر، گلشن اقبال، رنچھوڑ لائن، بولٹن مارکیٹ، صدر، زینب مارکیٹ پر قائم ہیں۔ لیکن جدید اور نت نئے فیشن رجحانات کی جیولری گلف سینٹر اور طارق روڈ پر دستیاب ہے۔

نئے رجحانات کی جیولری کی سب سے پہلے انہی مارکیٹوں میں دستیاب ہوتی ہے،زیورات کی خریدارخاتون صوبیہ کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ وقت انھیں زیورات کی خریداری میں پیش آتی ہے کیونکہ ہر سوٹ کی میچنگ کی مناسبت سے اچھی اور خوبصورت جیولری خریدنا ایک مشکل کام ہے اور میچنگ کرنے کا معاملہ تو بہت ہی حساس ہوتا ہے،مصنوعی زیورات کے تیارکنندگان اور فروخت کے کاروبار سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ کراچی میں طویل دورانیے کی لوڈشیڈنگ نے ان کی کاروباری سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا ہوا ہے لیکن عید کے پیش نظر کاروبار میں بہتری آرہی ہے،اکثر خواتین کا کہنا تھا کہ جدید فیشن اور معیار کی مصنوعی جیولری بھی دن بدن مہنگی ہوتی جارہی ہے اور مصنوعی زیورات خریدنا اب پہنچ سے دور ہوتا جا رہا ہے لیکن عید کا تہورا ہی ایسا ہوتا ہے کہ ہر شخص مہنگی چیزیں خریدنے پر بھی مجبور ہوجاتا ہے۔

مقامی صنعتوں نے عید الفطر کے سیزن کے لیے مختلف مصنوعی زیورات کے 1000 سے زائد نئے ڈیزائن متعارف کرائے ہیں،پاکستان میں مصنوعی زیورات کی فروخت کا حجم بلند ہے لیکن قیمتی دھات کی طرح مصنوعی زیورات بھی جب سے فی تولہ کے حساب سے فروخت ہونا شروع ہوئے ہیں اس وقت سے متوسط اور کم آمدنی کے حامل خاندانوں کے لیے مصنوعی زیورات کا شوق بھی مہنگا ہوتا جارہاہے۔



عید کے موقع پر خواتین ہلکی جیولری خریدنے کو ترجیح دیتی ہیں،مصنوعی جیولری کے فیشن رجحانات میں چھوٹے ٹاپس، کفلنگ ٹاپس، بالیاں، جبکہ مصری اور ترکش بالیاں کا فیشن عام ہے،انڈین، نیپالی، ترکش،سری لنکن، اور مصری جیولری خریدنے کا رجحان زیادہ ہے جبکہ مقامی جیولری بھی مناسب داموں میں مل رہی ہے، بڑے نگینوں والی مصنوعی انگوٹھیوں کی قیمت 250 سے 650 کے درمیان ہیں جبکہ چھوٹے نگینوں والی انگوٹھیاں 150 سے 400 میں دستیاب ہیں، مصنوعی جیولری سیٹ، ہار اور بوندے 500 سے 3000 تک کے درمیان ہیں۔

دھاگے، ربن، اور پینٹ سے تیار کی گئی جیولری 100 سے 500 کے درمیان میں ملتی ہیں، خواتین کی بڑی تعداد مصنوعی زیورات خریدتی ہے جبکہ بیشتر چاندی کے زیورات خریدنا پسند کرتی ہیں کیونکہ انکا کہنا ہے کہ مصنوعی جیولری خریدنا پیسہ ضائع کرنے کے مترادف ہے، چاندی کی جیولری کی کچھ مالیت ہوتی ہے اور یہ سالوں استعمال میں رہتی ہے کیونکہ اسے پالش کرایا جاسکتا ہے۔

مصنوعی زیورات کی تیاری کو گھریلو صنعت کا درجہ حاصل ہے کراچی حیدرآباد لاہور ملتان فیصل آباد کے علاوہ اب پشاور ودیگر چھوٹے بڑے شہروں میں بھی گھروں میں خواتین اور چھوٹے کارخانوں میں مرد کاریگر انتہائی نفیس اور خوبصورت جیولری تیار کررہے ہیں۔

جن میں چاندی تانبے منجوس ودیگر دھاتوں سے تیار شدہ سیٹ سونے کے زیوارت کی مشابہہ معلوم ہوتے ہیں سونے کے زیورات سے مماثلت رکھنے والے مصنوعی زیورات کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہوجاتا ہے، پاکستان میں چھوٹے درجے پر قائم مصنوعی زیورات کے کارخانوں میں95 فیصد آئٹمزسونے کے زیورات سے مشابہت رکھنے والے مصنوعی زیورات تیار کیے جاتے ہیں لیکن کسٹمز کی سطح پر بھارت اور چین سے درآمد ہونے والے تیار مصنوعی زیوارت کی امپورٹ ٹریڈ پرائس انتہائی کم ہونے کی وجہ سے مقامی صنعت بلحاظ مسابقت متاثر ہے،ایکسپریس سروے کے مطابق پاکستان بھر میں5000 سے زائد آرٹیفشل جیولری کی گھریلو کارخانے قائم ہیں جبکہ کراچی میں ان گھریلو صنعتوں کی تعداد 1000 ہے۔

عید کی خریداری کے پیش نظر شاپنگ مراکز میں جیولری کے اسٹالز لگائے جاتے ہیںجن میں چاندی تانبے ودیگر کم قیمت دھاتوں کے علاوہ پلاسٹک اور کپڑے سے تیارکردہ مصنوعی جیولری کی فروخت کے ہزاروں عارضی اسٹالز قائم ہوگئے ہیں، ان عارضی اسٹالز میں مقامی سطح پر تیار ہونے والی جیولری سیٹس، لاکٹ سیٹ، برسلیٹ، نیکلس، انگوٹھیاں، بندے، بالیاں، چین، کڑے، پازیب، چوڑیوں کے علاوہ دیگر مصنوعات فروخت کی جارہی ہیں تاہم بیشتر اسٹال ہولڈرز کا کہنا ہے کہ ماہ رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ شروع ہونے کے باوجود تاحال عید کی خریداری سرگرمیوں کا آغاز نہیں ہوسکا ہے۔

اسٹال ہولڈرز کا کہنا ہے کہ خواتین عید الفطر کے تیار ہونے والے اپنے ملبوسات کی میچنگ کی جیولری کا انتخاب کرتی ہیں بعض خواتین ملبوسات کے اعتبار سے نگینوں سے مزین جیولری آرڈرز پر تیار کرواتی ہیں، دفاتر میں کام کرنے والی ورکنگ ویمن بھاری بھرکم جیولری کے بجائے ہلکی پھلکی جیولری کی خریداری کو ترجیح دیتی ہیں اور ان میں سے بیشتر ورکنگ لیڈیز غیرملکی آرٹیفشل جیولری کی خریداری کو ترجیح دیتی ہیں۔

عیدالفطر کے موقع پر طالبات اورلڑکیوں کی بڑی تعداد اپنے دوستوں کو مصنوعی زیورات تحفے میں دیتی ہیں جس کیلیے وہ پارٹی سیٹس، گفٹ سیٹ، کنگن، بریسلیٹ، انگوٹھیاں، بندے اور کڑوں کی زیادہ خریداری کرتی ہیں، واضح رہے کہ پلاسٹک سے تیار ہونے والی مصنوعی جیولری خوشنما ہونے کے ساتھ کم قیمت بھی ہوتی ہیں جنھیں وہ خواتین زیادہ پسند کرتی ہیں جو جلدی امراض اور الرجی سے بچاؤ چاہتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں