یہ قہر خداوندی ہے یا ہماری نااہلی

ہم قدرتی آفات (زلزلے، سیلاب) کو ختم تو نہیں مگر اپنی کاوشوں سے کم ضرور کرسکتے ہیں۔


Zuber Rehman July 08, 2015
[email protected]

گزشتہ دنوں ایک دانشور نے اپنی دانست میں لکھا کہ ''کراچی میں جوگرمی پڑ رہی ہے یہ قہر الٰہی اور عذاب خداوندی ہے۔'' یہ عذاب الٰہی صرف پسماندہ ملکوں میں ہی کیوں نازل ہوتا ہے؟ ترقی یافتہ ممالک اور جہاں طبقاتی نظام نہیں ہے وہاں عذاب الٰہی کیوں نازل نہیں ہوتا۔ درحقیقت قدرتی یا فطری آفات تو صدیوں سے رونما ہوتی آ رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی، لیکن حضرت انسان ہمیشہ فطرت کا مقابلہ کرتا آیا ہے۔

جب جنگلوں میں خونخوار جانور اس پر حملہ آور ہوتے تھے تو وہ آگ کی مشعل بنا کر انھیں بھگاتا تھا۔ آج کے دور جدید میں سردی لگتی ہے تو ہیٹر جلاتے ہیں، کورٹ اور اوور کوٹ پہنتے ہیں اور رضائی اوڑھتے ہیں۔ جب گرمی لگتی ہے تو ایئرکنڈیشن کا استعمال کرتے ہیں۔ اب تک کراچی میں 1500 سے زائد مرنے والوں میں کوئی بھی کلفٹن، ڈیفنس کا آدمی نہیں مرا۔ کوئی وزیر، مشیر، وزیر نہیں مرا۔ مرا تو محنت کش۔ میٹروپولیٹن کمشنرکراچی سمیع الدین کی رپورٹ کے مطابق 25 جون کو بلدیہ عظمیٰ کے طبی مراکز میں قائم 42 ہیٹ اسٹروک مینجمنٹ رسپانس سینٹر میں گرمی سے متاثر 39 ہزار 837 مریضوں کو ابتدائی طبی امداد دی گئی جن میں 213 افراد جاں بحق ہوئے۔ سب سے زیادہ ساڑھے 4 ہزار مریض عباسی شہید اسپتال لائے گئے ، 3 ہزار لانڈھی میڈیکل کمپلیکس میں آئے اور 3 ہزار مریض سوبھراج میٹرنٹی ہوم میں لائے گئے۔

ان اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سن اسٹروک اور اموات کی بڑی تعداد لانڈھی،کورنگی، رنچھوڑ لائن، کھارادر، لیاری، اورنگی ٹاؤن، کیماڑی، ماڑی پور، ملیر، نیوکراچی، شاہ فیصل کالونی، لیاقت آباد، ناظم آباد اور لائنز ایریا میں ہوئی ہے۔ اس لیے کہ یہاں بیشتر لوگوں کے گھروں میں ایئرکنڈیشن نہیں ہیں۔ کلفٹن، ڈیفنس اور پی ای سی ایچ ایس میں گرمی سے مرنے والوں کی کوئی اطلاع اب تک نہیں ملی ہے۔

گزشتہ دنوں نیوزی لینڈ میں طوفان آیا تو حکومت نے ہزاروں کی آبادی کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا اور ایک بھی موت نہیں ہوئی۔ کئی سال پہلے کیوبا میں طوفان آیا تو 48 گھنٹوں میں وہاں کی حکومت نے 5 لاکھ کی آبادی کو مختلف جگہوں پر منتقل کر دیا، صرف چند لوگ لقمہ اجل بنے۔ جاپان میں بہت زلزلے آتے ہیں لیکن وہاں کی حکومت نے ایسے مکانات بنائے ہیں اور قبل ازوقت ہوشیارکرنے اور ریپڈ ریسکیو کا انتظام کیا ہے کہ بہت کم اموات واقع ہوتی ہیں۔

مشرقی پاکستان میں سیلاب سے 1970ء میں 20 لاکھ انسان لقمہ اجل ہوئے لیکن اب بنگلہ دیش نے بند بنانے کے بعد طوفان میں لاکھوں نہیں بلکہ سیکڑوں مرتے ہیں۔ ''ہوانگ ہوا'' دریا چین کا دکھ کہلاتا تھا۔ مگر چین میں انقلاب کے بعد ماؤزے تنگ نے ایسا مضبوط بند بنایا کہ اب سیلاب تو درکنار بلکہ یہ دریا چین کے لیے فرحت زندگی بن گیا ہے۔ ہم بھی یہ کام کر سکتے ہیں۔ لیکن ہماری ترجیحات کچھ اور ہیں۔ اپنی نااہلی کو عذاب الٰہی کہہ کر اپنی غلطیوں سے مبرا ہونا چاہتے ہیں۔ ہم 120 ایٹم بم بنا سکتے ہیں، اسلحے کی تجارت میں 11 واں نمبر ہو سکتا ہے لیکن سانحات کی روک تھام میں بھکاری بن جاتے ہیں۔

گزشتہ برسوں پاکستان میں زلزلے اور سیلاب کشمیر، سندھ بلوچستان اور پختون خوا میں آئے، بڑی تباہی ہوئی۔ ملک بھر سے اور دنیا بھر سے بے تحاشا امدادیں آئیں، صرف کراچی سے ایک ہی دن میں 55 ٹرک سامان اور فیصل آباد سے 15 ٹرک بریانی کی دیگیں کشمیر بھیجی گئیں۔ ملک اور دنیا بھر کے عوام نے مدد کی جب کہ ہمارے ریاستی کارندوں نے لوٹ مار کی۔ ہم طوفان، زلزلے اور خشک سالی کو اپنی کاوشوں سے ختم تو نہیں مگر کم ضرور کر سکتے ہیں۔ صرف اگر ہم ملک کو درختوں سے بھر دیں تو موسم بدل سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کا فیصلہ ہے کہ کسی بھی ملک کے کل خطے کے 25 فیصد جنگلات ہونے چاہئیں۔ اس وقت ہندوستان میں جنگلات 20 فیصد، بنگلہ دیش میں 16 فیصد، جنوبی کوریا میں 69 فیصد، امریکا میں 40 فیصد، جنوبی امریکا میں 35 فیصد، سوری نام میں 97 فیصد، یورپ میں اوسطاً 30 فیصد جب کہ پاکستان میں 2.5 فیصد ہیں۔ کیوبا میں تقریباً ایک کروڑ کی آبادی ہے وہاں کی فوج نے ایک سال میں 5 لاکھ درخت لگائے۔ ہماری فوج کو درخت لگانے کا وقت ہی کہاں ملتا ہے۔ ملائیشیا کا دارالحکومت کوالالمپور میں روزانہ 3/4 بجے سہ پہر بارش ہوتی ہے اور اسی بارش کے پانی سے کارہائے زندگی چلتے ہیں۔

کراچی کے گزشتہ میئر مصطفیٰ کمال نے کراچی کو درختوں سے بھر دیا تھا۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اب انھیں کاٹا جا رہا ہے اس لیے کہ پھر مال بنانا ہے۔ دنیا میں موسم تبدیل ہونے کے ذمے دار دنیا کے حکمران ہیں۔ جن میں سب سے زیادہ ذمے دار امریکا اور چین ہیں۔ امریکا اور روس کے پاس تقریبا 15000 ایٹم بم ہیں۔

ان کے تجربات، دیکھ بھال اور جدید بنانے کے عمل سے بھی تابکاری بڑھتی ہے۔ چین کوئلے سے بجلی پیدا کرتا ہے جس کی وجہ سے چین کے 30 فیصد علاقوں میں تیزابی بارش ہوتی ہے۔ امریکا کی کل صنعتی پیداوار میں 70 فیصد دفاعی پیداوار ہے جس کے نتیجے میں گلوبل وارمنگ پیدا ہو رہی ہے۔ مشرقی وسطیٰ، پاکستان افغانستان اور یوکرائن کے جنگوں میں بارود کے استعمال سے فضائی آلودگی ہو رہی ہے۔ برف کے پہاڑ پگھل رہے ہیں۔ یہی صورتحال رہی تو سب سے پہلے آسٹریلیا کے ساحل بنگلہ دیش، مالدیپ، مغربی بنگال، انڈونیشیا کے جزائر (تقریباً 800 میں سے 200 غرق بھی ہو چکے) اور ہالینڈ سب سے پہلے غرق آب ہو گا۔

ضروری ہے کہ صنعتی آلودگی، اسلحے کی پیداوار کو فوری روکا جائے، دنیا بھر میں جنگلات میں تیزی سے اضافہ کیا جائے۔ پاکستان میں تو درخت لگانے کے موافق حالات موجود ہیں اور کم پانی سے یہ درخت لگائے جا سکتے ہیں۔ کچھ بڑے ہونے پر انھیں پانی کی بھی ضرورت نہیں۔ مثال کے طور پر بلدیہ ٹاؤن اور اورنگی ٹاؤن سے کوئٹہ تک خالی جگہیں پڑی ہیں۔ گزشتہ برسوں میں سابقہ میئر کراچی مصطفیٰ کمال نے جو درخت چین سے منگوائے تھے وہ بہت کارآمد رہے، انھیں خوب لگایا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ سندھ بلوچستان کی وسیع ترین زمین پر نیم، کیکر، ارنڈی، زیتون اور کھجور کے درخت لگائے جا سکتے ہیں۔ نیم کا درخت جو سب سے زیادہ آکسیجن چھوڑتا ہے، اس کی افزائش پاکستان میں خاص کر سندھ کی زمین اس کے لیے موافق ہے۔ اس کے علاوہ ساحل سمندر پر ٹمبر اور مینگروز کے درخت بہت کارآمد ہو سکتے ہیں۔ کراچی میں تیزی سے بڑھنے والے درختوں کا ٹمبر مافیا کٹاؤ کرتی رہتی ہے۔ اگر کہیں بجلی کے تاروں کی وجہ سے رکاوٹ پیدا ہوتی ہے تو ایسے علاقوں سے گریز کر کے جہاں تاریں نہیں ہیں وہاں درخت لگائے جا سکتے ہیں۔

حکومت دنیا جہاں کا اعلان کرتی رہتی ہے لیکن درخت لگانے کا اعلان نہیں کرتی۔ ایک بار آصف علی زرداری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت میں بیان دیا تھا کہ ''ہم کراچی سے گوادر تک ناریل کے درخت لگا کر اس خطے کو سبز و شاداب کر دیں گے۔'' ایسا تو نہیں ہوا لیکن وہ خود شاداب ہو گئے۔ ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک آزاد سوشلسٹ نظام اور پھر بے ریاستی کمیونسٹ نظام میں مضمر ہے لیکن اس سرمایہ داری میں رہتے ہوئے درخت تو لگائے جا سکتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں آکسیجن کا پھیلاؤ ہو گا اور بارش بھی ہوتی رہے گی۔ برسات سے مختلف بیماریاں بھی ختم ہوتی ہیں اور ماحول بھی شفاف ہو گا۔ لہٰذا یہ گرمی عذاب الٰہی نہیں بلکہ عذاب نااہلی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں