کیا یہ ظلم نہیں ہے
ماہ مبارک معاشرتی اصلاح کے لیے ایک خاص مہینہ ہے کیوں کہ یہ وہ ماہ مبارک ہے
FAISALABAD:
ماہ مبارک معاشرتی اصلاح کے لیے ایک خاص مہینہ ہے کیوں کہ یہ وہ ماہ مبارک ہے، جس میں شیاطین کو مقیدکردیا جاتا ہے ، جنت کے دروازے وا کردیے جاتے ہیں، مگر افسوس آج وہ زمانہ ہے کہ جس کے بارے میں حضور ختمی مرتبؐ اپنی حیات میں اطلاع فرماچکے ہیں کہ لوگ مبارک دنوں میں بھی خلاف حکم خداوندی عمل پیرا ہوں گے، آج کل کے اخبارات مختلف شعبہ ہائے زندگی اور اداروں کے علاوہ اعلیٰ ترین شخصیات کی بد عنوانی اور لوٹ کھسوٹ کے واقعات سے بھرے پڑے ہیں، غیر اسلامی ممالک میں جن کی مذمت کرتے ہمارے علما اور مذہبی جماعتیں کسی وقت نہیں تھکتیں وہاں جب ان کے تہوار کے دن قریب آتے ہیں تو اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم کردی جاتی ہیں۔
خصوصی تحائف اسکیموں سے متعارف کرایا جاتا ہے بلکہ یہ خبر پڑھ کر مزید تعجب وحیرت ہوئی کہ کچھ ممالک میں مسلمانوں کے لیے رمضان اورعید پر بھی ایسا ہی اہتمام کیا جاتا ہے ، ہم ہر وقت یہودوہندو اور نصاریٰ کو اپنی تمام تر برائیوں اور خامیوں کا ذمے دار قرار دینے میں مصروف ہیں۔ ہمارے خطیب اپنے خطبات میں بھی ایسا ہی تاثردینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کوئی یہ سمجھانے کی کوشش نہیں کرتا کہ تم اپنے اعمال کے خود ذمے دار ہو، تمہاری ہدایت کے لیے نہ صرف قرآن مجید فرقان الحمید بلکہ احادیث نبویؐ اور سنت رسولؐ سب موجود ہیں۔کیا قرآن میں بار بار یہ نہیں فرمایا گیا کہ جو راہ ہدایت پر چلنے کی کوشش کرتا ہے ہم اس کی کوشش کو کبھی رائیگاں نہیں کرتے۔ پھر ہدایت آجانے کے بعد بھی کوئی گمراہی اختیارکرے اور شیطان کو اپنا ولی قرار دے تو ہم بھی اس کو گمراہی کے اندھیروں میں دھکیل دیتے ہیں۔
ہمارے معاشرے کی جو حالت آج ہے یہ ایک دم سے سامنے نہیں آئی بلکہ رفتہ رفتہ احکامات ربی سے روگردانی اور غیر اسلامی معاشروں کی خامیوں کو بطور فیشن اپنانے سے رونما ہوئی ہیں جن کی کورانہ تقلید ہم کرتے ہیں ان ہی معاشروں میں جو خوبیاں ہمیں آخر ہم ان کو کیوں نہیں اپناتے؟ بد عنوانی کی جس حالت سے آج ہم دو چار ہیں کیا وہ معاشرے اس حالت میں ہیں ان کی خوبیوں پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوگا کہ وہ معاشرے آج بھی بکھرنے سے کیوں محفوظ ہیں ۔ان ترقی یافتہ ممالک میں کیا اشیائے خورونوش میں ملاوٹ کا تصورکیا جاسکتا ہے۔
جعلی دواؤں کو کھلے عام مارکیٹ میں فروخت کیا جاسکتا ہے؟ ناپ تول میں ہاتھ کی صفائی دکھائی جاسکتی ہے؟ خرید و فروخت میں دیانتداری کا یہ عالم ہے کہ اگر کسی بھی غلطی سے کوئی غیر معیاری چیز فروخت ہوجائے تو فوراً فون آجائے گا کہ برائے مہربانی ہمارا نمایندہ آپ کے پاس آرہا ہے، وہ ناقص شے غلطی سے آپ کے پاس چلی گئی ہے آپ واپس کردیں اور دوسری اپنی پسند کے مطابق آکر لے جائیں ہم آپ سے اس غلطی پر بے حد معذرت خواہ ہیں۔کیا ایسا شائستہ رویہ ہمارے یہاں نظر آتا ہے اگر کسی چیز میں کوئی نقص گھر آکر نظر آئے اور آپ از خود اپنا ہی خرچ کرکے واپس کرنے جائیں۔ تو آپ سے دکاندار ہر گز وہ چیز واپس نہ لے گا چاہے نقص بالکل واضح ہو وہ آرام سے کہہ دے گا کہ ہم خریدا ہوا مال واپس نہیں لیتے اگر یہ نقص پہلے سے تھا تو آپ کو دیکھ کر لینا چاہیے تھا۔
حتیٰ کہ دواؤں کی دکان (فارمیسی) پر بھی بورڈ لگادیا جاتا ہے کہ فروخت شدہ مال واپس لیا جائے گا نہ بدلا جائے گا۔ بعض ضعیف افراد اپنے ڈرائیور یا کسی ملازم سے دوا منگواتے ہیں جو زیادہ پڑھے لکھے نہ ہوں تو اگر دوا صحیح بھی ہو مگر اس کی مقدار میں فرق ہو یعنی اگر کوئی دوا 50mg کی لینی ہے اور وہ 100mg کی آجائے تو وہ تک واپس نہیں لی جاتی یہاں تک تو خیر ہے مگر کھلے عام جعلی دوائیں اور زائد المیعاد بھی کھلے بندوں فروخت کردی جاتی ہیں جب نشان دہی کی جائے تو صاف کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ تو آپ اپنی رکھی ہوئی پرانی دوا لے کر آئے ہیں ہم نے تو آپ کو درست دوا دی تھی۔
سبزی، ترکاری، گوشت، کپڑا غرض کچھ بھی آپ کو پوری ناپ تول کے ساتھ نہیں دیا جائے گا، باسی ترکاری تازہ کہہ کر دی جائے گی، گزشتہ دنوں پھپھوند لگی ڈبل روٹی آگئی، دیکھا تو فوراً واپس کرائی لیکن دکاندار نے لینے سے صاف انکار کردیا کہ ہمارے یہاں تو روز تازہ ڈبل روٹی آتی ہے یہ ہماری دکان سے نہیں لی گئی۔
سوال یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ آخر اس قدر بد عنوانی میں ملوث کیوں اور کیسے ہوا؟ یہ وہ سوال ہے جو معاشرے کے ہر فرد سے جواب طلب ہے ہم سب کو یہ جواب دینا ہے، ہمیں اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہے کہ ہم خود کتنے ایماندار، کتنے ذمے دار ہیں، ہم سب جانتے ہیں، (الحمدﷲ بحیثیت مسلمان) کہ ہم سب ہر عمل کا ہر شے جو ہم استعمال کرتے ہیں کا حساب لیا جائے گا، اس کے باوجود کہ شہر میں قحط آب ہے مگر برتن دھوتے ہوئے غسل کرتے ہوئے، وضو کے دوران ہم کس قدر پانی ضایع کرتے ہیں۔ بجلی کی کمی کا واویلا مچاہوا ہے۔
مگر بجلی آجائے تو بلاوجہ کئی بلب، کئی پنکھے کھلے رہیںگے اس صورت حال کی ذمے داری ہماری تربیت پر بھی ہے، بعض گھرانوں میں بچوں کو کبھی ٹوکا ہی نہیں جاتا کہ کمرے سے نکلتے ہوئے بجلی اور پنکھا بلکہ اے سی بند کردیا کرو، کھانا کھاچکو تو کرسی کو باہر نکلا مت چھوڑ دیا کرو لہٰذا یہ عادات اتنی پختہ ہوجاتی ہیں کہ عمر بھر خود زائد بل کی صورت میں بھگتنا پڑتی ہیں۔
ان حالات کو دیکھ کر آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہم کیوں مسائل کا شکار ہیں۔ مغربی ممالک (کم از کم) اس طرح کے مسائل میں کیوں مبتلا نہیں۔ تب ہمیں امیر المومنین حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کے اس قول مبارک کا مطلب سمجھ میں آتا ہے کہ کفر پر معاشرہ قائم رہ سکتا ہے مگر ظلم پر نہیں'' یہ جو کچھ ہم ایک دوسرے کے ساتھ کررہے ہیں، حکمران سے لے کر خاکروب تک یہ ظلم نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟