گریٹ پیپل ٹو فلائی ود
میاں نواز شریف نے شجاعت عظیم کو شہری ہوابازی کا شعبہ سونپ دیا جو پہلے پاک فضائیہ کے پائلٹ تھے
ISLAMABAD:
ہوا بازی کی ''اوپن سکائیز'' پالیسی پی آئی اے میں سیاسی عمل دخل کے باعث ناکامی کا شکار ہو گئی اور اس کی شہرت کو بھی خاصا نقصان پہنچا جس کے نتیجے میں اس کی کوئی بھی پرواز شیڈول کے مطابق بروقت نہ روانہ ہو سکی اور نہ ہی وقت پر اپنی منزل پر پہنچ سکی۔ اس کے باوجود اس قومی فضائی کمپنی کا جاری رہنا کسی معجزے سے کم نہیں جس کے لیے اس کے بنیادی اسٹاف یعنی پائلٹس، انجینئرز اور گراؤنڈ اسٹاف کی مہارت، احساس ذمے داری اور اپنے پیشے اور ادارے کے ساتھ گہری وابستگی کو ذمے دار قرار دیا جا سکتا ہے۔
میاں نواز شریف نے شجاعت عظیم کو شہری ہوابازی کا شعبہ سونپ دیا جو پہلے پاک فضائیہ کے پائلٹ تھے اور اس کے بعد انھوں نے کمرشل ہوابازی کے شعبے میں مہارت حاصل کی اور پی آئی اے میں اپنی انتظامی صلاحیتوں کو اجاگر کیا، اس کی آمدنی میں نمایاں اضافہ کیا، اس کے قرضوں کو کم کیا، قومی ایئرلائن پر مسافروں کا اعتماد بحال کیا، پٹرول کی کھپت کو کم کیا، دیگر غیرضروری اخراجات پر قابو پایا گیا اور فالتو ملازمین کی تعداد کو بھی گھٹایا گیا اور ایسی افرادی قوت کو بھرتی کیا گیا جو ادارے کے منافع میں اضافے کا باعث بنے۔
ایئر بس A-320 اور ایئربس A-310 میں ایندھن کی مقدار تقریباً آدھی کر دی گئی جب کہ ان کی کارکردگی میں کوئی فرق رونما نہ ہوا اس طرح کمپنی کے ایندھن پر جو سالانہ خرچہ ہوتا تھا وہ تقریباً آدھا رہ گیا۔ علاوہ ازیں کمپنی کے ہوائی بیڑے میں ایسے طیارے شامل کیے گئے جو کم ایندھن کے استعمال سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔
ان طیاروں کی تعداد 19 سے بڑھا کر 42 کر دی گئی جس سے ایندھن کی کھپت میں 38% کمی ہو گئی جب کہ مسافروں کی تعداد 40 لاکھ سالانہ سے بڑھ کر 50 لاکھ ہو گئی۔پی آئی اے کی بحالی کے پروگرام میں جدید ترین اسٹیٹ آف دی آرٹ طیاروں کے ذریعے امریکا، یورپ اور جاپان وغیرہ کے لیے پروازیں شروع کرنا، مسافروں کو بہترین سہولتیں فراہم کرنا شامل ہے۔ میاں نواز شریف نے حال ہی میں 13 ایئربس A-320، 5 اے ٹی آر 72 اور 3 بوئنگ 777 پی آئی اے کے بیڑے میں شامل کرنے کی منظوری دے دی ہے جو اس سال دسمبر تک قومی فضائی کمپنی کے فضائی بیڑے میں شامل کر لیے جائیں گے۔
اتنے کم وقت میں پہلے کبھی اتنی بڑی تعداد میں جدید ترین طیارے قومی ایئرلائن میں شامل نہیں کیے گئے۔ پی آئی اے کئی نئے روٹ بھی متعارف کرا رہی ہے جس سے قومی ایئرلائن کی آمدنی اور منافع میں نمایاں اضافہ ہو گا۔ایک منافع بخش فضائی کمپنی وہ ہوتی ہے جو مسافروں کو بحفاظت اور آرام دہ طریقے سے ان کی منزل تک بروقت پہنچا دے۔
پی آئی اے کے طیارے وقت کے ساتھ ساتھ پرانے ہوتے گئے اور ان کی کارکردگی بھی متاثر ہوئی۔ اس وجہ سے اس کی لمبی مسافت کی پروازیں زیادہ آرام دہ نہیں رہی تھیں تاہم اب نئے طیاروں کے حصول اور پرانے طیاروں کی نشستیں زیادہ آرام دہ بنانے کے لیے تقریباً 53 ملین امریکی ڈالر خرچہ آئے گا۔ کاروباری حضرات براہِ راست لندن اور نیویارک جانا اور پی آئی اے کے ذریعے راستے میں کہیں رکے بغیر براہِ راست گھر واپس آنے کو پسند کرتے ہیں جس سے پرواز کے وقت میں 5 سے 6 گھنٹے کی کمی ہو جاتی ہے۔ دبئی، ابوظہبی اور دوحہ وغیرہ میں ''اسٹاپ اوور'' کی صورت میں زیادہ وقت لگتا ہے۔
ہمیں وہ مسافر بسیں بھی تبدیل کرنا ہوں گی جو کراچی، ملتان، کوئٹہ، لاہور، اسلام آباد اور پشاور کے بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر استعمال ہوتی ہیں اور اس کے بجائے ہمیں 3000 COBUS خریدنی چاہئیں۔پیپلزپارٹی نے اپنی حکومت کے آخری دنوں میں 5نئے بوئنگ 300 ER-777 تقریباً ایک بلین امریکی ڈالر کی لاگت سے خریدے حالانکہ آج کل فضائی کمپنیاں نئے طیاروں کی خرید پر اتنی بھاری رقم خرچ کرنے کے بجائے لیز پر طیارے حاصل کرتی ہیں لیکن پی آئی اے اتنے بھاری خرچے کے بعد مالیاتی طور پر زبردست دباؤ میں آ گئی۔
اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے روٹ کی ری شیڈولنگ کی جس کے لیے جدید ترین 786 طیاروں کو لیز پر لیا گیا۔ تین سے پانچ طیاروں کو لیز پر حاصل کیا گیا جن کو بعد میں 787 طیاروں سے تبدیل کر لیا جائے گا۔ جہاں تک پی آئی اے کے مالیاتی حساب کتاب کا تعلق ہے تو 2012ء کے دوران پی آئی اے کو 32 ارب روپے کا خسارہ ہوا جب کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران اس کا مجموعی خسارہ سو ارب روپے ہو چکا تھا بعدازاں مسلم لیگ کی حکومت نے پی آئی اے کو اس بحران سے نکالنے کے لیے 2 ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کیا جس سے حکومت خود بھی سخت مشکل کا شکار ہو گئی البتہ اب اگر پی آئی اے کے موجودہ حسابات کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں اس میں بہتری کے آثار نظر آئیں گے۔
گزشتہ سال کی پہلی سہ ماہی میں خسارہ 3.93 ارب روپے کا تھا جو اس سال کی پہلی سہ ماہی میں کم ہو کر 3.83 ارب روپے رہ گیا۔ مزید برآں عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمت میں کمی سے بھی خسارے میں قدرے کمی واقع ہوئی ہے۔ نیز جو نئے طیارے حاصل کیے گئے ہیں ان میں پٹرول کی کھپت بھی قدرے کم ہے اور ادارے کی انتظامیہ بھی اخراجات کو کم رکھنے پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔جہاں تک دیگر انتظامی معاملات کا تعلق ہے تو پی آئی اے کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے کاک پٹ کے عملے کو بین الاقوامی ہوابازی کے معیار کے مطابق تنخواہیں اور سہولتیں دے۔ بصورت دیگر وہ بھی پی آئی اے کو چھوڑ کر کسی دوسری ایئرلائنز میں شمولیت اختیار کر لیں گے جیسے کہ اب تک وہ کرتے رہے ہیں۔
پاکستان میں چونکہ بیرونی ممالک کی نسبت کم خرچ میں گزارا ہو سکتا ہے لہٰذا اگر انھیں بین الاقوامی معیار سے 20، 25 فیصد کم بھی اجرت دی جائے تو وہ اپنے گھر میں اپنی فیملی کے ساتھ رہنے کی خاطر بخوشی اسے قبول کر لیں گے۔ اس سلسلے میں ہمیں رچرڈ برانسن کے اس مقولے کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ ''انھیں اچھی سے اچھی تربیت دو کہ وہ دنیا میں کہیں بھی جا سکیں لیکن اس کے ساتھ ہی اتنا اچھا سلوک کرو کہ وہ اور کہیں بھی نہ جانے کا نہ سوچیں۔''
گزشتہ برسوں میں پی آئی اے کے معاملات میں حکومتوں کی طرف سے بہت زیادہ مداخلت ہو تی رہی ہے خواہ وہ حکومت فوج کی تھی یا سویلین تھی اور صرف دو سال قبل اگر کوئی پی آئی اے کو دیکھتا تو وہ جان سکتا تھا کہ یہ ادارہ دیوالیہ ہو جائے گا۔ ملائشیا کی ائرلائن اسی انجام سے دوچار ہوئی مگر پی آئی اے بحالی کی امید افزا راہ پر گامزن ہو گئی ہے۔ بلکہ پی آئی اے دوبارہ ماڈل ائر لائن بننے جا رہی ہے جیسا کہ وہ پہلے تیسری دنیا کی ماڈل ائر لائن رہ چکی ہے۔ شجاعت عظیم اسے دوبارہ عظمت کی بلندیوں پر لے جانے کا عزم رکھتے ہیں۔