ملالہ پر حملہ اور شمالی وزیرستان میں آپریشن

ملک کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں مجوزہ فوجی آپریشن پر منقسم نظر آرہی ہیں


Malik Manzoor Ahmed October 17, 2012
سیاسی اور عسکری قیادت نے ایسے تمام خدشات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کا کوئی فیصلہ نہیں کیاگیا ہے۔ فوٹو: فائل

وطن عزیز کے طول وعرض میں امن اور تعلیم کے فروغ کیلئے سرگرم عمل ایک 14سالہ ہونہار طالبہ ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔

معاشرے کے تمام طبقات یک زبان ہو کر انتہاپسندوں کے اس بزدلانہ اقدام پرتاسف وملال کا اظہار کرتے ہوئے دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا پرزور مطالبہ کررہے ہیں ۔ پاکستان طویل عرصے سے بدترین دہشت گردی اور انتہاپسندی کا شکار ہے۔کئی اندرونی اور بیرونی عوامل اس دہشت گردی کے پس پردہ محرکات میں شامل ہیں۔ ان عناصر کا بنیادی مقصد پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنا ہے۔ ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملے کو ذرائع ابلاغ نے بھرپور کوریج دی ہے ،غیر معمولی میڈیاکوریج پر بعض حلقے نالاں ہیں اور بعض مذہبی اور سیاسی قائدین نے ملالہ کے واقعہ کی غیر معمولی کوریج کے تناظر میں یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس معاملہ کو بنیاد بنا کر شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع کرنے کا جواز تیار کیاجارہا ہے ۔

سیاسی اور عسکری قیادت نے ایسے تمام خدشات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کا کوئی فیصلہ نہیں کیاگیا ہے اور نہ ملالہ کے واقعہ کی آڑ میں ایسا آپریشن کیاجائے گا جبکہ دوسری طرف ایم کیوایم کے قائدالطاف حسین اور عوامی نیشنل پارٹی کے قائدین نے طالبان کے خلاف آپریشن بڑے پیمانے پر شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے،ملک کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں مجوزہ فوجی آپریشن پر منقسم نظر آرہی ہیں اور اسی آپریشن کے حوالے سے قطعی طور پر اتفاق رائے نہیں ہے۔ ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ایسے سینکڑوں واقعات ظہور پذیر ہوچکے ہیں بعض حلقے یہ سوال کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے واقعات میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنتے ہیں تو ان شہریوں کے جانی ومالی نقصانات پر اس پیمانے پر نہ احتجاج کیاجاتا ہے اور نہ ہی حکومت ایسے واقعات کو غیر معمولی اہمیت دیتی ہے؟

وزیراعظم راجہ پرویزاشرف نے ملالہ یوسفزئی کو پاکستان کا چہرہ قرار دیتے ہوئے اسے پاکستانی اقدار اور طرززندگی پر حملہ قرار دیا ہے ۔ وزیراعظم راجہ پرویزاشرف نے ملالہ یوسف زئی کی عیادت کے لئے اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کو ساتھ لے کر چلنے کی دعوت دی تھی مگر اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم کی دعوت کو پذیرائی نہیں دی،غیر جانبدار حلقے یہ کہتے ہیں کہ ایسے واقعات پر سیاست کرنے کی بجائے اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کو ملالہ کی عیادت کے لئے ضرور وزیراعظم کی دعوت کو قبول کرنا چاہیے تھا مگر ہمارے ہاں مفادات کا کھیل کھیلنے والی سیاسی جماعتیں ہر واقعہ کو نہ صرف سیاست کی نذرکردیتی ہیں بلکہ قوم کو تقسیم کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ ایک طرف ملالہ یوسف زئی پر افسوسناک اور قابل مذمت واقعہ نے جہاں منقسم معاشرے کو بڑی حد تک دہشت گردی کے خلاف متحد کیا ہے اور اسی اتحاد ویگانگت نے جہاں مبثت پیغام دیا ہے وہاں بعض مذہبی رہنمائوں نے اپنی سیاست چمکانے کے لئے اس واقعہ کو سیاست کی نذر کردیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن ،قاضی حسین احمد اور حافظ سعید احمد کے بیانات قوم کے سامنے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن تو کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔

سپریم کورٹ کی طرف سے سوئس حکام کو بھیجے جانے والے خط کا مسودہ منظور کئے جانے کو ایک اہم بریک تھرو قراردیاجارہا ہے۔ عدلیہ اور حکومت کے درمیان گذشتہ 3سے 4سالوں کے دوران اس معاملہ پر زبردست محاذ آرائی اور کشمکش دیکھی گئی اور کئی بار ریاستی اداروں کے درمیان تصادم کے قوی امکانات پیدا ہوئے۔سابق وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ ان کے بعد بھی کوئی سوئس حکام کو خط نہیں لکھے گا۔ پیپلزپارٹی کے قائدین یہ فرمایا کرتے تھے کہ سوئس حکام کو خط لکھ کر شہیدوں کی قبروں کا ٹرائل کسی قیمت پر نہیں ہونے دیں گے مگر یہ سارے بیانات اور حکومتی موقف ایک طرف ،اب پیپلزپارٹی کے ہی نامزد وزیراعظم راجہ پرویزاشرف کی ایڈوائس پر صدر آصف علی زرداری کے قابل اعتماد دوست اور موجودہ وزیرقانون فاروق ایچ نائیک نے خط کا مسودہ سپریم کورٹ میں پیش کردیا ہے۔صدر مملکت کو حاصل استثنیٰ بھی عدالت نے تسلیم کرلیا ہے۔

عدالت نے یہ خط سوئس حکام تک پہنچانے کے لئے ایک ماہ کا قابل ذکر وقت بھی عنایت کردیا ہے۔ یہ سوال حقائق پر مبنی لگتا ہے کہ آخر یہ خط سوئس حکام کو لکھنا مقصود ہی تھا توسیدیوسف گیلانی کے سیاسی کیریئر کو ہمیشہ کے لئے ''داغدار'' کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ عدلیہ کے ساتھ اتنی طویل اور کٹھن لڑائی کی کیا ضرورت تھی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات پیپلزپارٹی کی قیادت کو دینے ہوں گے۔ یہ بھی کہاجا رہا ہے کہ موجودہ وزیرقانون فاروق ایچ نائیک 3سال پہلے بھی سوئس حکام کو خط لکھنے کے حق میں تھے مگر اس وقت کے وزیرقانون بابراعوان اس تجویز کے خلاف تھے اور انہوں نے اسی سارے معاملے کو غلط رنگ دیا۔ جبکہ سوئس حکام کو خط لکھنے کے مخالفین اب بھی یہ دلائل دیتے ہیں کہ فاروق ایچ نائیک صدر آصف علی زرداری کو اسی خط کے ذریعے مشکلات کا شکار کردیں گے۔صدر آصف علی زرداری کی طرف سے ایوان صدر میں طلبی کے بعد سید یوسف رضاگیلانی ''خاموش'' ہوگئے ہیں یوسف رضاگیلانی اپنے بیٹے کی گرفتاری اور اپنی سیاسی شہادت پر ایوان صدر سے سخت نالاں ہیں ۔ صدر نے ان کے مخالفانہ بیانات پر غصے کا اظہار کیاتھا۔ صدر کے ساتھ ملاقات کے باوجود گیلانی اور ایوان صدر کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے کم نہیں ہوئے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں