فرقہ واریت کا خاتمہ قریب ہے

عالم اسلام ایک طویل مدت سے فرقہ واریت کی لپیٹ میں ہے جس نے مسلمانوں کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے


Zamrad Naqvi July 13, 2015
www.facebook.com/shah Naqvi

عالم اسلام ایک طویل مدت سے فرقہ واریت کی لپیٹ میں ہے جس نے مسلمانوں کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔ اس وقت مسلمانوں کو جوڑنے والی قوتیں بہت کمزور ہیں اور تقسیم کرنے والی قوتیں بہت طاقتور ہیں۔ تقسیم کرنے والی قوتیں اس لیے طاقتور ہیں کہ ان کے پیچھے عالمی اور علاقائی نادیدہ قوتیں کھڑی ہیں۔ اس فرقہ واریت کا شاخسانہ یہ نکلا ہے کہ اب مسجدیں بھی، جن کو امن و سلامتی کا مرکز کہا جاتا ہے، محفوظ نہیں رہیں۔ حال ہی میں کویت کی ایک مسجد میں خودکش حملہ کیا گیا جس میں ستائیس افراد شہید اور بہت سے زخمی ہوئے۔ اگرچہ یہ اندوہناک سانحہ تھا لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شیعہ اور سنی مسلمانوں نے دشمن کی سازش کو بھانپتے ہوئے قومی یکجہتی کا مظاہرہ اس طرح کیا کہ کویت سٹی کی سب سے بڑی سنی مسجد میں سنی اور شیعہ سیکڑوں نمازیوں نے جماعت نماز جمعہ ادا کی۔

اس موقع پر کویت کے حکمران الشیخ صباح الاحمد الجابر الصباح بھی نماز میں شریک ہوئے۔ ایک ہی مسجد میں مشترکہ نماز ادا کر کے دشمن کو منہ توڑ جواب دیا گیا۔ وہ دشمن جو چاہتا تھا کہ اس حملے کے بعد کویتی سنی شیعہ مسلمان ایک دوسرے کے خلاف قتل و غارت کا بازار گرم کردیں جس کے نتیجے میں اگر ایک طرف امن کا خاتمہ ہو گا تو اس کے بعد بدامنی کے نتیجے میں کویتی معیشت تباہ و برباد ہو جائے گی۔ لیکن کویتی سنی اور شیعہ مسلمانوں نے دشمن کی اس سازش کو بھانپتے ہوئے اس کے مذموم ارادوں کو ناکام بنا دیا۔ کویت مشرق وسطیٰ میں واقع ہے اور اس وقت مشرق وسطی فرقہ واریت کے جہنم میں جل رہا ہے اور یہ فرقہ واریت اس قسم کی ہے جس میں انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں اور اس کے ذہن میں صرف انتقام اور بدلہ ہی رہ جاتا ہے۔ یہ فرقہ واریت کس درجہ پر ہے۔ اس کا اندازہ پاکستان میں بیٹھ کر نہیں لگایا جا سکتا۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر اس آگ پر پانی نہ ڈالا گیا تو مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک کے علاقے کا امن اس آگ میں جل کر خاکستر ہو جائے گا۔

اس سے پہلے سعودی عرب میں دمام سمیت دو جگہوں پر مسجدوں میں حملے ہو چکے ہیں جس کی سعودی شاہ سلمان نے شدید مذمت کی۔ امام خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے امام نے کہا کہ مسجد امن کی جگہ ہے۔ اس جگہ پر حملہ سوائے خارجیوں کے کوئی مسلمان نہیں کر سکتا۔ جب ہم فرقہ واریت میں ڈوبنے والے ہوں تو ہمیں ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ خانہ کعبہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہر سال لاکھوں شیعہ اور سنی مسلمان اکٹھے حج ادا کرتے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ جب سنی شیعہ خانہ کعبہ میں اکٹھے عبادات کر سکتے ہیں تو یہ اپنی مسجدوں میں اکٹھے نماز ادا کیوں نہیں کر سکتے۔ جیسا کہ کویت کی سنی مسجد میں اہل تشیع اور اہل سنت نے اکٹھے نماز ادا کی۔ اگر ایسا ہو جائے تو بہت جلد فرقہ واریت کا جن پھر سے بوتل میں بند ہو سکتا ہے۔ جن اسلام دشمن طاقتوں نے اپنے مفادات کے لیے اس جن کو بوتل سے نکالا تھا ان کو تو نقصان ہے لیکن مسلمانوں کو ہر لحاظ سے فائدہ ہوگا۔

اس وقت مسلمانوں کے لیے بہترین راستہ یہی ہے کہ وہ ان معاملات پر عمل کریں جو ان کو متحد رکھ سکتے ہیں۔ اختلافی معاملات کو نہ چھیڑا جائے۔ آنے والے زمانے میں سائنس اتنی ترقی کر جائے گی جو ماضی میں گزرے واقعات کی سچائی کی تصدیق کر سکے گی۔ سائنس بتاتی ہے کہ جو الفاظ ہم بولتے ہیں وہ فضا میں باقی رہتے ہیں۔ ان کا وجود ختم نہیںہوتا۔ آنے والے وقت میں ایسی ٹیکنالوجی ایجاد ہو جائے گی کہ وہ الفاظ جو سیکڑوں ہزاروں سال پہلے کہے جا چکے ہیں ان کو ہم پھر سے سن سکیں گے۔ اس طرح سے سچ کیا ہے کیا نہیں ہے اس کا فیصلہ ہو جائے گا۔ اس وقت ہم بھی ذہنی سطح پر اتنی ترقی کر جائیں گے کہ اپنے اختلافات علمی سطح پر پر امن طریقے سے حل کر سکیں۔

ایرانی انقلاب کے قائد آیت اللہ خمینی نے ابتدائے انقلاب میں فتویٰ دیا تھا کہ جہاں سنی اکثریت ہوں وہاں شیعہ سنی مساجد میں نماز ادا کریں اور جہاں شیعہ اکثریت میں ہوں وہاں سنی شیعہ مساجد میں نماز ادا کریں۔ لیکن سامراج نے فرقہ واریت کا ایسا طوفان اٹھایا کہ جس میں شیعہ سنی اتحاد کی یہ تحریک بن کھلے مرجھا گئی۔ چند ماہ پیشتر اہل سنت کے ممتاز عالم دین مفتی منیب الرحمن نے اہل تشیع کے علمی مرکز ماڈل ٹاؤن لاہور کا دورہ کیا۔ جہاں ان کی امامت میں نماز ادا کی گئی۔ فرقہ واریت کے اس دور میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس خبر کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کی جاتی۔ ٹی وی ٹاک شوز میں اس کو موضوع بحث بنایا جاتا۔ کالموں میں اس پر اظہار خیال کیا جاتا تا کہ پاکستانی عوام کو اس موضوع پر زیادہ سے زیادہ آگہی ہوتی تو ان پر مثبت اثرات ہوتے۔ لیکن اس کے اس خبر کوزیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ مسلمانوں کی اس وقت فرقہ واریت سے سب سے زیادہ خطرہ ہمیںاس مسئلے پر اپنی فہم و فراست سے قابو پانا چاہیے علماء کرام کو اس معاملے میں رہنما کردار ادا کرنا چاہیے۔

...2050ء سے 2080ء کے درمیان مسلمان اپنے طویل زوال سے باہر نکل آئیں گے۔

سیل فون:0346-4527997۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں