اب انتظار کس بات کا
رمضان المبارک مہینے کا ایک منفرد چارم ہے جو دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو دہشت کی حد تک خوفزدہ کردیتا ہے
اسلام میں رمضان المبارک کا مہینہ نہایت مقدس اور بابرکت ہے جب کہ اس مہینے کا تقدس اور پاکیزگی دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو خوفزدہ کرتا ہے، پریشان کرتا ہے اذیت دیتا ہے۔ غورکیا جائے تو اس مہینے میں بہت سے ایسے واقعات دنیا بھر میں رونما ہورہے ہیں کہ جس سے اس خوف اس اذیت کے جذبے کی تصدیق ہوتی ہے، حال ہی میں نائیجیریا میں نمازیوں کی شہادت اس کی گواہی دیتی ہے، پہلے بھی مسلمانوں کو صبرکی انتہا تک برباد اور آگ وآتش میں جھونک دیا گیا تھا۔
رمضان المبارک مہینے کا ایک منفرد چارم ہے جو دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو دہشت کی حد تک خوفزدہ کردیتا ہے اور انھیں جو سمجھ آتا ہے کرگزرتے ہیں دراصل یہ ان کے اپنے وجودکی گواہی ہوتی ہے جسے وہ اپنی ذہنی و مادی طاقت سے نفی کرتے ہوئے شیطانی حرکات پر اتر آتے ہیں۔ بات اسلام اور دہشت گردی کی کرتے کرتے قلم ذرا الجھ گیا۔
9/11 کے بعد سے جو کچھ پاکستان میں اس دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کیا گیا اس کے جو ذمے دار تھے ان کا جو ہونا تھا وہ ہوا لیکن بے چارے بے قصور اپنی جانوں سے گئے۔ پاکستان جیسا غریب اور کمزور ملک بڑے بڑے سفید ہاتھیوں کے لشکر کے آگے سوائے ریں ریں کے کر بھی کیا سکتا تھا۔
اس پر بحث بے کار ہے جو گزر چکا اب کیا ہوسکتا ہے لیکن آگے کے لیے اپنے آپ کو اتنا مضبوط بنا لینا چاہیے کہ کسی کو کچھ کرنے سے پہلے کئی بار سوچنا پڑے۔ لیکن ہم مضبوط بظاہر تو بننے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اندر ہی اندر ایک ایسی دلدل میں پھنستے جارہے ہیں جس کی حالیہ مثال یونان کی ہے جو ہمارے سامنے ہے کیا ہم یونان کی طرح اس میں دھنس جائیں یا اس سے نکلنے کی کوششوں کے لیے ہاتھ پیر ماریں۔
نائیجیریا ایک ایسا اسلامی ملک ہے جہاں مسلم اکثریت ہے لیکن اس کی حیثیت اقلیت کی طرح ہے مسلمان اتنے کمزور اور ڈرے سہمے ہیں اس سرزمین پر لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں۔ وہ مظلوم ہیں اور ان پر ظلم کرنے والے اس ملک کے رکھوالے۔ اس ملک کے صدر عیسائی ہیں گڈ لک جوناتھن 2010 کے الیکشن میں جیت گئے تھے جب کہ دوسرے نمبر پر جیتنے والی جماعت مسلم تھی محمد بوہری ہارگئے لیکن ان کے ساتھ ہی سترہ کروڑ کی آبادی والے ملک میں 51 فیصد والے مسلمان بھی اپنے حوصلے ہارگئے اس کے بعد سے جو سلسلہ پرتشدد کارروائیوں کا شروع ہوا تو اس کا اختتام فی الحال تو نظر نہیں آرہا نہ اقوام متحدہ کو اور نہ ہی امریکا برطانیہ یا روس کو۔ کیونکہ دہشت گرد مسلمان نہیں کوئی اور ہیں۔
اور اس کوئی اور سے ان کا گہرا تعلق ہے تو پھر توجہ دینے کی بھی ضرورت نہیں، نائیجیریا میں 2014 میں بارہ ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ آٹھ ہزار کے قریب معذور ہوچکے ہیں ہزاروں کے قریب مسلمان اپنے گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اس واحد افریقی مسلمان اکثریت والے ملک میں مسلمانوں کا رہنا دشوار ہوگیا ہے لیکن کون تحقیق کرائے کون پوچھ گچھ کرے کہ دنیا بھر کی بڑی طاقتیں چپ بیٹھی ہیں۔ البتہ مسلمان دہشت گرد ہیں کے حوالے سے بڑی بند زبانیں کھل جاتی ہیں ابھی ڈبل اسٹینڈرڈ کا شکار یہ دنیا ابھی اور کتنے دکھ سہے گی؟ پروردگار کرم کرنے والے ہیں۔
بوسنیا، کوسوو اور ہر ملک میں جس طرح مسلمانوں کا قتل عام ہوا عورتوں کی بے عزتی کی گئی، چھ سو سے زائد مساجد کو نیست و نابود کردیا گیا جب کہ پانچ سو سے زائد مساجد کو شدید نقصان پہنچایا گیا لیکن کچھ نہیں کہا گیا کیونکہ خون مظلوم مسلمان کا تھا۔ فلسطین میں حالیہ اسرائیلی جارحیت سے کتنے مظلوم فلسطینیوں کا خون بہا کتنے مسلمان دہشت گردی کی آڑ میں جھونک دیے گئے کیونکہ خون مظلوم مسلمان کا تھا۔
یہ بات اب واضح ہوتی جا رہی ہے کہ دراصل ایک جنگ کی تخلیق کی جا رہی ہے اس ماڈرن دور میں اس جنگ کو کئی رنگوں میں پیش کرکے ظاہر کیا جا رہا ہے لیکن اس کا مقصد ایک ہی ہے 24 جون 2004 نیویارک ٹائم نے ایک خبر میں لکھا کہ ''عراق میں جاری بش کی جنگ ایک دینی مبلغ کا مظہر ہے'' اس آڑ میں کون کس جانب ہیں لیکن مسلمان کو ایک جانب کرکے انھیں تقسیم کرنے کی سازش زوروشور سے جاری ہے تاکہ اس طرح یہ آپس میں الجھ کر کمزور ہوجائیں اس کا فائدہ مخالفین کو پہنچے گا ۔ اب پرانے زمانے کی طرح گھوڑوں کی پیٹھ پر بیٹھ کر فتح کرنے کا زمانہ گزر چکا ہے اب گلیوں گلیوں محلہ محلہ آگ سلگا کر تماشا دیکھنے کا زمانہ ہے منی جنگ اسے ہی کہتے ہیں۔
عیسائی مورخین نے خود اعتراف کیا ہے کہ ''عیسائیوں نے بیت المقدس میں پناہ گزین مسلمانوں کا قتل عام اس طرح کیا کہ گھوڑوں کی ٹانگیں گھٹنوں تک خون میں ڈوب گئیں ، رچرڈ نے عکا شہر میں ستائیس سو مسلمان قیدیوں کو قتل کردیا بچوں اور عورتوں کو بھی قتل کردیا۔ وہ سڑکوں پر گھوم گھوم کر مردوں، نوجوانوں، بچوں اور عورتوں کے پیٹ چاک کرتے تھے ہر جگہ لاشیں ہی لاشیں نظر آتی تھیں اور ہماری قوم کے سفاکوں نے ایک لاکھ مسلمانوں کو قتل کردیا۔'' یہ ہم نہیں مشہور عیسائی مورخ سٹیفن انسماں، گوستاؤ لوبو، رابرٹ اور کاہن آبوس کا اعتراف تھا جو تحریر کی شکل میں اب بھی محفوظ ہے۔
ایک واضح خط کھینچا جا رہا ہے جسے ہم سمجھتے ہوئے بھی سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ حالیہ ریاض کی ایک مسجد میں بم دھماکہ یہ سمجھا رہا ہے کہ دہشت گردی کا کھیل کہاں تک پہنچنا چاہتا ہے۔ اب اجتماعی طور پر اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ تمام مسلم ممالک اپنی بقا اور دفاع کے لیے کیا کریں جو باعمل بھی ہو۔ اب باتیں کرنے کا وقت گزر چکا ہے۔ نائیجیریا ایک مثال ہے اس وقت مسلم امہ سخت الجھاؤ میں ہے اس کے لیے حکمت عملی کی سخت ضرورت ہے اتحاد میں برکت ہے لیکن اپنی صفوں کو سیدھا رکھنے کے لیے اتحاد کے علاوہ نیک نیتی کی بھی سخت ضرورت ہے۔