پیپلز پارٹی کی چِکنی ڈھلوان
سیاست اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ اور حصولِ زر کا دوسرا نام بن جائے تو مستقل وفاداری ثانوی حیثیت اختیار کرجاتی ہے
اقتدار پرستوں کا مقتدر پانیوں سے باہر رہ کر زندگی گزارنا مشکل ہوجاتا ہے۔ کسی بھی سیاست کار کے لیے آزمائش اور کمٹمنٹ کے لیے یہی لمحات عوام کے دلوں میں زندہ رہ جاتے ہیں۔ مگر جب سیاست اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ اور حصولِ زر کا دوسرا نام بن جائے تو مستقل وفاداری ثانوی حیثیت اختیار کرجاتی ہے۔ پھر سیاسی پرندے ہوا کا رُخ دیکھ کر اور گرم ہوا برداشت نہ کرتے ہوئے اپنے پرانے گھونسلے چھوڑ کر نئے گھونسلوں کی جانب اڑان بھرتے ہیں۔
ضلع اوکاڑہ سے پی پی پی کے صمصام بخاری اور محمد اشرف خان سوہنا ، ضلع نارووال سے طارق انیس چوہدری اور منڈی بہاؤالدین سے چند شخصیات اس امر کی تازہ مثالیں ہیں۔ پچپن سالہ سوہنا صاحب جیالے رہے ہیں، گرچہ وہ ایک کاروباری شخصیت بھی ہیں۔ ان کا دو بار صوبائی اسمبلی کا رکن بننا اس امر کا غماز ہے کہ اوکاڑہ میں ان کا حلقہ انتخاب کمزور ہے نہ وہ کوئی غیر عوامی آدمی ہیں۔ وہ لیبر کے صوبائی وزیر بھی رہے ہیں۔
یہ دراصل پیپلز پارٹی کی طاقت اور برکت تھی جس نے انھیں وزارت کے منصب پر فائز کیا تھا۔ اب مگر اقتدار اور اختیار سے باہر رہنا پڑا ہے تو حوصلہ ہار بیٹھے اور عمران خان کے حلقہ ارادت میں شامل ہو گئے۔ ان ایسے پیپلز پارٹی کے نظریے کے عاشق کے لیے یہ بات قطعی مناسب نہ تھی کہ وہ پارٹی اختلافات کا شکار ہوکر اس دائرے ہی سے نکل جاتے! ان کا یہ فیصلہ پیپلز پارٹی کے لیے ایک دھچکا تو ہے ہی، پارٹی وفاداروں اور جیالوں کے لیے بھی پریشان کن ہے۔
اشرف سوہنا نے پارٹی نظم سے خود کو آزاد کرتے ہوئے اپنے صوبائی صدر کے بارے میں جو شکوے کیے ہیں، ایسے گلے شکوے تو ہر پارٹی کے مرکزی یا صوبائی سربراہ سے تقریباً ہر سیاسی کارکن کو ہوتے رہتے ہیں: ''کہ صدر صاحب نے پارٹی میں اپنے رشتہ داروں کو ہر اہم عہدہ بخش دیا ہے۔'' کیا اس الزام یا شکوے سے کوئی پارٹی خود کو آزاد سمجھ سکتی ہے؟ محمد اشرف خان سوہنا نے، محسوس یہی ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کو تج دینے اور اڑان بھرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ محض کسی بہانے کے متلاشی تھے۔
صمصام بخاری اور اشرف سوہنا کا اڑان بھر کر دوسری سیاسی جماعت کی شاخ پر جا بیٹھنا کیا اس امر کی بھی نشاندہی نہیں کہ پیپلز پارٹی میں Damage کنٹرول کرنے والا کوئی ہے نہ کسی کو اس کی خاص کوئی فکر؟ عجب وقت آپڑا ہے۔ بھٹو نے ایک آمر سے ٹکر لے کر جس پارٹی کی بنیاد رکھ کر اسے مقبولیت کے عروج تک پہنچایا اور اپنی جس پارٹی کی جڑیں ایک دوسرے آمر کے دور میں اپنی جان دے کر سینچیں، آج وہ پارٹی کمزور تنکوں کی طرح بکھرتی جارہی ہے۔
بھٹو کے نواسے کو درس دیے جارہے ہیں کہ اگر انھیں آگے بڑھ کر شمع تھامنی ہے تو انھیں فوری طور پر دو فیصلے کرنا ہوں گے: یا تو والدہ اور نانا کا سیاسی اثاثہ سنبھال لیں یا والد کی مفاہمتی پالیسی۔کوئی یہ مشورہ دیتا ہوا سنائی دے رہا ہے کہ انھیں پارٹی قیادت کے لیے وہی راستہ اور اسلوب اختیار کرنا پڑے گا جو راستہ ان کی والدہ نے اپنی والدہ کے حوالے سے اختیار کیا تھا۔
پیپلز پارٹی سے اڑ کر کسی دوسرے درخت کی شاخ کو ''رونق'' بخشنے والے پرندوں میں بخاری صاحب اور اشرف سوہنا تنہا نہیں ہیں۔ طارق انیس چوہدری بھی اڑان بھر کر اسی شاخ پر بسیرا کرچکے ہیں جس شاخ کو بخاری اور سوہنا نے ''اعزاز'' بخشا ہے۔ طارق انیس چوہدری کا تعلق شکر گڑھ سے ہے۔
وہ کئی بار رکنِ صوبائی اسمبلی بھی رہے اور قومی اسمبلی کے ممبر بھی ۔ صوبائی اقتدار سے بھی حصہ وصول کیا اور مرکزی اقتدار سے یوں لُطف اٹھایا کہ سید یوسف رضا گیلانی کابینہ کے وزیرِ مملکت بنائے گئے۔ جناب صمصام بخاری بھی تو گیلانی صاحب کی کابینہ میں وزارتِ اطلاعات کے وزیرِ مملکت تھے یعنی آدھے وزیر۔ انھیں اس بات کا ہمیشہ قلق رہا لیکن وہ صبر کرتے ہوئے لب کشا نہ ہوئے۔ یقینا طارق چوہدری ایک دبنگ اور دلیر سیاستدان ہیں۔ کئی پھڈوں سے کامیابی کے ساتھ گزرے اور کئی مقدمات میں سرخرو رہے۔ 2008ء کے انتخابات میں آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے لیکن پیپلز پارٹی میں شامل ہوکر خوب صِلہ پایا۔
وہ وزیراعظم گیلانی کے معتمد بن گئے تھے۔ اس کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی خواہش پر وزیراعظم گیلانی نے دوبار شکر گڑھ ایسے دور دراز اور نہایت پسماندہ علاقے کا دَورہ کیا اور کئی تحفوں سے طارق انیس کے ووٹروں کو نوازا۔ جب ملک بھر میں گیس کی شدید لوڈ شیڈنگ تھی، سید یوسف رضا گیلانی کی پُرزور سفارش پر طارق انیس کے حلقے میں گیس کا نیا کنیکشن دیا گیا۔ اہلِ شکر گڑھ کے لیے یہ اتنی بڑی نعمت تھی جس کا انھوں نے کبھی خواب نہ دیکھا تھا۔ گیلانی صاحب یعنی پیپلز پارٹی کی حکومت اور توسط سے طارق انیس اپنے حلقے میں دو تین اہم ترین اور مہنگے پُل تعمیر کرنے ، اپنے شہر میں پاسپورٹ کا ریجنل آفس قائم کرنے اور شہر بھر میں سیوریج سسٹم بچھانے کے مشکل ترین کاموں میں کامیاب رہے۔
طوفانی نالوں پر ان کے تعمیر کردہ پُلوں سے لاتعداد لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔ طارق انیس چوہدری نے جو چاہا، پیپلز پارٹی کی زرداری اور گیلانی حکومت نے وہ عوامی خواہش پوری کی۔ اب مگر وہ پیپلز پارٹی چھوڑ گئے ہیں۔ دانیال عزیز پر کرپشن کا کوئی داغ دھبہ نہیں ہے اور وہ اپنے صاف ستھرے سیاسی کردار کی وجہ سے اپنے حلقے میں مسلسل مقبول بھی ہیں۔ چوہدری طارق انیس 2013ء کے الیکشن میں دانیال عزیز سے شکست کھا چکے ہیں۔
ممکن ہے طارق انیس اپنے ذاتی تعلقات کی بِنا پر آیندہ قومی انتخابات میں کامیاب ہوجائیں لیکن وہ اپنی نئی پارٹی کی بنیاد پر جیت نہ سکیں گے کہ ان کے حلقے میں پی ٹی آئی اجنبی ہے۔ سارا ضلع نارووال مسلم لیگ ن کے مقابل پی ٹی آئی کے لیے کمزور حیثیت رکھتا ہے۔ گلوکار ابرار الحق نے مئی 2013ء میں پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا مگر شکست کھا گئے۔ دراصل احسن اقبال، دانیال عزیز اور رانا منان کی عوامی خدمات نے اس ضلع کو مسلم لیگ ن کا مضبوط قلعہ بنا دیا ہے۔ آخری نتیجہ مگر کیا ہوگا، یہ تو صرف خدا جانتا ہے۔