سبزہ اور سمندر
سری لنکا کے لوگ فطرت کی طرح سادہ ہیں۔ ان کا مزاج سندھی اور تھری لوگوں کا سا ہے۔
BAHAWALPUR:
قدیم سنسکرت ادب میں سری لنکا کو Sindha Divipa کہا جاتا تھا یعنی سنہالی لوگوں کا جزیرہ۔ اس ملک کی تاریخ کئی دلچسپ پہلو لیے ہوئے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شمالی انڈیا کے ایک جلاوطن شہزادے نے اس خوبصورت جزیرے کو اپنا نشیمن بنا لیا۔ 380 قبل مسیح میں انورادھا پورہ سری لنکا کا پہلا دارالخلافہ بنا جو کولمبو سے 205 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
تیسری صدی میں بدھ ازم کے ساتھ انڈین آرین کلچر یہاں متعارف ہوا۔ اس دور میں کئی خوبصورت شہر تشکیل دیے گئے جن میں ''دگاباس'' شہر قابل ذکر ہے۔ یہ شہر دلکش محلات، سرسبز لہلہاتے باغات، رنگا رنگ تہذیب، منفرد عمارت سازی اور مربوط آبپاشی نظام کی وجہ سے اہرام مصر سے مشہور تھے۔جن کی اہرام مصر سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ جنوبی انڈیا کے حملہ آوروں کے بعد یہ اقتدار پولا ناروا منتقل ہو گیا۔ سولہویں صدی کے دوران مغربی بیوپاری جب سری لنکا میں داخل ہوئے تو، اس ملک کی سیاسی، سماجی و معاشرتی صورتحال بدل گئی۔
سری لنکا پر صدیوں تک ڈچ، برطانیہ اور پورجوگیز حکمرانی کرتے رہے۔ 1815ء میں کینڈین حکومت کے زوال کے بعد برطانیہ نے اس ملک پر قبضہ کر لیا اور 1948ء میں سری لنکا نے برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کرلی۔ سری لنکا کی تاریخ ہمارے ملک اور بالخصوص سندھ کی تاریخ سے مختلف نہیں، جہاں حملہ آوروں کے گھوڑوں کی ٹاپ اور بارود کی بو فضاؤں میں رچی بسی رہتی۔ مگر اس ملک کی ترقی، خوشحالی اور نظم و ضبط قابل رشک ہے۔ پرانا سیلون اور آج کا سری لنکا یہ ایک ایسا ملک ہے جو سبزے اور سمندر میں گھرا ہوا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر بادل امڈ آتے اور یکایک بارش ہونے لگتی۔ لیکن مٹی کی سوندھی خوشبو ویسی نہیں تھی جیسی اپنے ملک میں محسوس ہوتی ہے۔
سری لنکا کے لوگ فطرت کی طرح سادہ ہیں۔ ان کا مزاج سندھی اور تھری لوگوں کا سا ہے۔ جس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ سندھ اور خاص طور پر تھر میں جین اور بدھ مت کے مذہب کے آثار و مندر جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔ یہ لوگ دھیمے مزاج کے ہیں۔ چہروں پر سکون چھایا رہتا ہے۔ لہجے نرم اور شائستہ ہیں۔ 20 ملین آبادی میں سنہالیوں کی اکثریت ہے جو کہ بدھ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب کہ تامل اقلیت میں ہیں۔ اس کے علاوہ ہندو، عیسائی اور مسلمان شامل ہیں۔
سنہالی اور تامل قومی زبانیں ہیں۔ تقریباً تیس سال سے سری لنکا تامل اور سنہالیوں کے مابین ہونے والے لسانی فسادات، خون خرابے اور خانہ جنگی میں مبتلا رہا ہے۔ دہشت گردی کی اس جنگ میں 100,000 لوگ مارے گئے یا لاپتہ ہو گئے۔ 2006ء میں تامل انتہا پسندوں کو سری لنکا کی حکومت نے زیر کرلیا۔ لیکن ان تمام مسائل کے باوجود بھی سری لنکا ترقی کے راستے پر گامزن رہا۔ 98 فیصد تعلیمی تناسب کی وجہ سے اس ملک کو ایشیا کے کئی ممالک پر سبقت حاصل ہے۔
کچھ عرصہ پہلے سری لنکا گورنمنٹ نے ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے کئی اچھے اقدامات متعارف کروائے، لیکن حکومت اس وقت تک کچھ نہیں کرسکتی، جب تک عوام کا تعاون شامل نہیں ہوتا۔ لہٰذا کمرشلز ایریاز، فوڈ ریسٹورنٹس، پارکس، سڑکیں و تفریحی مقامات انتہائی صاف ستھرے دکھائی دیے۔ دکانیں صبح سویرے کھل جاتی اور شام سات بجے کاروبار بند ہو جاتا۔ کہیں بھی بجلی بند ہوتے نہیں دیکھی۔
یہ بات مجھے اچھی لگی کہ لوگوں میں خود انحصاری ہے کیونکہ ذاتی ذمے داری کئی مسائل کا خاتمہ کر دیتی ہے۔ ان کے پاس ری سائیکلنگ کا فن ہے۔ بلاضرورت خریداری نہیں کرتے۔ ہر وقت بازار بھرے دکھائی دیتے ہیں۔ درحقیقت سلیقے اور ہنرمندی نے ان لوگوں کی قسمت بدل دی۔ سری لنکا کی عورت بہت سادہ، خود انحصاری کی طرف مائل اور حقیقت پسند لگی۔
آفس جانے والی خواتین عام سے کپڑوں اور بغیر میک اپ میں دکھائی دیں۔ کہیں بھی بناوٹ یا دکھاوا نہیں تھا۔ بہت سی خواتین سے گفتگو ہوئی مگر کہیں بھی خود رحمی یا شکایتی رویے نہیں تھے۔ وہ عورت تھوڑے میں خوش رہتی ہے۔ اور ہر حال میں نباہ کرنا چاہتی ہے۔ دکانوں اور خاص طور پر فروٹ کے ٹھیلوں پر پڑھی لکھی عورت نظر آئی۔ اسے موٹرسائیکل بھی چلاتے دیکھا۔ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے یا سفر کرتے ہوئے ہر کسی کے سر پر ہیلمٹ تھا۔ وہ عورت محنتی، جفاکش اور محبت بھرے دل کی مالک ہے۔ ان کے دل میں گھریلو زندگی کے لیے نرم گوشہ موجود ہے۔
اس عورت کے بھی بہت سارے مسائل ہیں۔وہ بھی جنسی تفریق کے مسائل سے نبرد آزما ہے۔ اس کی بھی حق تلفی کسی نہ کسی موڑ پر کی جاتی ہے۔ مگر وہ ان تمام مسائل کو حقیقت پسندانہ انداز میں دیکھتی اور سلجھاتی ہے۔ اسے گر کر اٹھنا اور خود سنبھلنا آتا ہے۔ اطمینان، ایثار، سکون قلب اور مسکراہٹ اس عورت کی شخصیت کا خاصا ہیں۔ ان ہی خوبیوں سے گھر بنتے سنورتے ہیں۔ اور رشتے فروغ پاتے ہیں۔ بہرحال قسمت کا بننا یا بگڑنا کسی حد تک زبان اور عمل کے ہنر کے اردگرد گھومتا ہے۔ سعادت مندی، اطاعت، تعمیل اور مثبت سوچ مقدر کے بند دروازوں کو کھول دیتی ہے۔ خیر۔۔۔۔۔
کولمبو کے سمندر پر پہنچ کے ایک الگ ہی سماں نظر آیا۔ ایسا لگا کہ یہ پیاس کے صحرا سے سبزے اور سمندر کی طرف کا سفر ہے۔ اپنے ملک میں ہر سمت تشنگی کا احساس دیکھا ہے۔ پیاسے چہرے اچھے احساس کو ترستے ہوئے۔ حتیٰ کہ روح تک خشک اور بے جان تازہ جھونکے سے محروم نظر آتی ہے مگر یہ لوگ مختلف تھے۔ یہ خوشی منانا جانتے ہیں۔ نئی نسل بے فکر، آزاد اور مطمئن تھی۔ کسی کے چہرے پر خوف یا بے یقینی کا ہلکا شائبہ بھی نہ تھا۔ نوجوان گا رہے تھے۔ ان کے قہقہوں کے مدھر سُر فضاؤں میں لہرا کر لہروں میں جذب ہو جاتے۔ لہریں مست ہو کر ساحل پر رقص کرنے لگتیں۔ آسمان کے بدلتے رنگ لہروں پر حسین دکھائی دیتے۔
وقت کی بے کراں روح ہر طرف موجزن تھی۔ وقت، انسان اور فطرت اکائی تھے۔ یہ اکائی توانائی سے بھرپور تھی۔ کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ تمام راستے کھلے تھے۔ احساس زمین سے آسمان تک آزاد پرندے کی طرح پرواز کر رہا تھا۔
ذہن، جسم و روح متحد تھے۔ ایک عجیب ہی سماں تھا جب ذہن میں سُر بکھرتے ہیں اور روح میں ساز بجتے ہیں۔ اور آپ وہ نہیں رہتے جو ہیں۔ فقط کُل کا حصہ۔ لامحدود اور بے کراں۔ چلتے چلتے تھک گئی تو بینچ پر بیٹھ گئی۔ وہاں کوئی شخص بیٹھا تھا۔ خاموش تھا جیسے سمندر کا حصہ ہو۔ ''آپ کا تعلق کس ملک سے ہے؟'' پوچھنے لگا۔
''پاکستان سے۔'' میرا جواب سن کر حیرت اور تفکر اس کے چہرے سے ظاہر ہونے لگا۔ اس کا نام ویراج تھا اس نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر امریکا سے کیا تھا۔ کولمبو میں اس کا بزنس تھا۔ اس کے پاس پاکستان کے سیاسی منظرنامے کے حوالے سے بے تحاشا سوالات تھے۔ میں نے اس سے فقط یہ کہا کہ سری لنکا اور میرے ملک کے حالات کافی مشابہت رکھتے ہیں۔ تاریخ بھی ملتی جلتی ہے۔ آپ نے ہم سے ایک سال بعد برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔
مگر جو فرق ہے وہ عوامی شعور، ذاتی تنظیم اور ذمے داری کا ہے۔ میں آپ کا ملک دیکھ کر بہت حیرت زدہ ہوں۔ ہر قدم پر ایک آئینہ میرے سامنے ہے۔ انتشار میں بھی یکجہتی کا سبق ملا، جو ہم بھول چکے ہیں۔ یہ سن کر وہ بہت خوش ہوا اور کہنے لگا۔ ''ہم اخلاقی اور مذہبی قدروں کے ساتھ چلتے ہیں اور ہم نے کسی قیمت پر انھیں کھونے نہیں دیا۔''
میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا کیونکہ ہم ذات کی وحدت کھو چکے ہیں۔ (جاری ہے۔)