کون کس کا احتساب کرسکتا ہے

ہمارے یہاں مسئلہ یہ رہا ہے کہ کچھ ادارے اور شخصیات مملکت اور آئین سے بالاتر سمجھی جاتی ہیں۔


نجمہ عالم July 17, 2015
[email protected]

ہمارے یہاں مسئلہ یہ رہا ہے کہ کچھ ادارے اور شخصیات مملکت اور آئین سے بالاتر سمجھی جاتی ہیں۔ لہٰذا ان کی کسی خامی یا غیر ذمے دارانہ رویے کا اگر برسبیل تذکرہ بھی تحریر یا تقریر میں ذکر کر دیا جائے تو وہ ''توہین'' ہی نہیں بلکہ غداری کے زمرے میں آ جاتا ہے۔ وجہ شاید اس کی یہ ہے کہ یا تو صاحبان اختیار کو لفظ ''غداری'' یا ''ملک دشمنی'' کے معنی ہی واضح نہیں یا پھر جان بوجھ کر اصل معنی عوام الناس سے چھپائے جاتے ہیں۔ یعنی کسی ادارے، کسی اہم سیاسی یا حکومتی شخصیت کی کسی غلطی کی نشاندہی کرنا ''غداری'' سمجھا جاتا ہے۔

اس کی اصل وجہ یہ خوش گمانی ہے کہ ان اداروں کو چلانے والے انسان نہیں فرشتے ہیں جن سے کسی غلطی کا امکان ہی نہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، حکمران، حکومتی و نیم سرکاری ادارے بہرحال انسان ہی چلاتے ہیں، اور انسان ازل سے خطا کا پتلا ہے۔ لہٰذا کچھ افراد یا ادارے دانستہ یا نا دانستہ طور پر ملکی معیشت کو نقصان پہنچاتے ہیں اربوں بلکہ کھربوں کی لوٹ مار کرتے ہیں، اور یہ لوٹی ہوئی دولت بیرون ملک بینکوں میں جمع کی جائے یا دوسرے ممالک میں جائیداد بنانے، کاروبار کرنے میں استعمال کی جائے تو ملکی معیشت ہی نہیں بلکہ ملکی سلامتی کو بھی براہ راست متاثر کرتی ہے۔

اب اگر کوئی درد مند صاحب عقل و دانش، اعلیٰ ظرف اور باہمت ان شخصیات اور اداروں کی بدعنوانی کی نشاندہی کر دے تو فوراً ملک دشمن غدار اور ان شخصیات و اداروں کی توہین کا مرتکب قرار پائے گا۔ حالانکہ غدار وہ ہے جو نہ صرف ملکی خزانے کو لوٹ رہا ہے بلکہ اپنی آیندہ نسلوں کے لیے ''ممالک غیر'' میں مستقلاً شاد و آباد کرنے کے منصوبوں پر عمل پیرا ہے۔ ہماری ایک شاعرہ نے شاید یہی ''انداز لوٹ مار'' دیکھ کر کہا تھا:

ملک بیچ دیتے ہو بے ضمیر ہو اتنے
کیا تمہارے بچوں کا اور کوئی ٹھکانہ ہے؟

نہ جانے انھوں نے حقائق جانتے ہوئے یہ سوال کیوں اٹھایا اور پھر خود بھی اپنے بچوں کے نئے ٹھکانے کا بندوبست کر لیا۔ بہرحال یہ تذکرہ تو درمیان میں یوں ہی آ گیا۔

کھیل دراصل سارا طاقت کا ہے، طاقت میں سب سے بڑی طاقت دولت ہے۔ ایک دھان پان شخص جو بظاہر کسی صحت مند کا ایک مکا بھی برداشت نہیں کر سکتا ہے۔ اپنے دونوں کمزور ہاتھوں سے ملکی دولت لوٹ کر اتنا طاقتور ہو جاتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والوں اور ملک کے دفاعی اداروں کو بھی للکار سکتا ہے اور اس کی طاقت کے آگے ذمے داران سوائے چند نمائشی بیانات کے ان کے خلاف کوئی باقاعدہ کارروائی کرنے کی ہمت نہیں کرتے (دراصل ایسا کرنے میں کرنے والوں کے اپنے بھی کچھ مسائل ہوتے ہیں) بلکہ شور مچا کر وہ ملک سے یوں صاف نکل جاتے ہیں جیسے مکھن سے بال، ہمارے ایک صحافی نے ایک محترمہ کو Mother of Corruption کا خطاب دیا وہ بھی کھا کما کر صاف نکل گئیں۔

غرض جس نے لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیا اور محنت کش عوام کے خون پسینے کی کمائی کو شیر مادر سمجھ کر ہضم کرلیا تو پھر سب اس کے بے دام غلام ہو گئے چاہے وہ ادارے ہوں یا شخصیات۔

گزشتہ دنوں یہ خبر پڑھ کر بڑی طمانیت محسوس ہوئی کہ نیب نے بدعنوانوں کی ایک طویل فہرست سپریم کورٹ میں جمع کرائی ہے اور اب یہ ادارہ بڑی تیزی سے ان بدعنوان افراد کو گرفت میں لے کر تمام لوٹا ہوا مال ''اگلوائے'' گا۔ ہم نے سکھ کا سانس لیا کہ اب ہمارے ملکی حالات انشا اللہ سدھر جائیں گے۔ مگر ہماری یہ خوشی شیطان مردود کو ایک آنکھ نہ بھائی۔ ہمارے ایک تجزیہ کار صحافی جو تحقیقی واقعہ نگاری (Research Reporting) میں بڑا نام اور کام رکھتے ہیں۔

ایک ہم عصر اخبار کی 8 جولائی کی اشاعت میں ان کا نیب کی کارکردگی پر اظہاریہ پڑھ کر اس خوشی نے آخری ہچکی لے کر دم توڑ دیا، انھوں نے نیب کے گزشتہ کئی چیئرمینز کے نام بہ نام کارناموں کا تذکرہ کیا ہے (کیونکہ نام لے کر لکھا گیا ہے اس لیے ان کی صداقت پر شک نہیں کیا جا سکتا) کہ کس نے کس کس شخصیات کو اربوں بلکہ کھربوں کے معاملات کی گرفت میں آنے سے کیسے باآسانی بچایا اور کس کے اشارے پر۔ کتنے ایسے افراد ہیں جن پر بڑے بڑے فراڈ کے کیس بنے مگر نیب کے ذمے داران نے ان کو صاف بچا لیا۔

ان میں سے کئی وہ حضرات ہیں جو بعد میں اسی وطن عزیز جس کو انھوں نے لوٹ کر اربوں کا نقصان پہنچایا تھا کہ صدر، وزیر اعظم، وزیر دفاع، داخلہ یا کسی اہم اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز ہوئے بقول ان محترم صحافی کے ''عدالت میں بھی کئی دفعہ انھیں کہا گیا کہ وہ ملزمان کے وکیل ہیں یا انھیں جیل بھجوانے والے؟'' مطلب یہ ہے کہ جو ادارہ تمام ملکی اداروں اور صاحبان اقتدار کے احتساب کے لیے ہو، وہاں طاقتوروں، دولت مندوں، بدعنوانی کے مرتکب افراد کو بچانے کی بھرپور کوشش کی جائے تو پھر کون، کس کا احتساب کر سکتا ہے۔

پڑھنے والے یہ سب حقائق پڑھتے اور سمجھتے ہیں۔ یہاں میں نے صرف اشارتاً یہ ذکر کیا ہے اگر آپ دوبارہ وہ اظہاریہ جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے ایک بار بغور پڑھ لیں تو میری بات باآسانی آپ کی سمجھ میں آ جائے گی کہ اس سفید ہاتھی (نیب) کی کارکردگی کیا رہی ہے۔

جہاں تک ملکی سیاسی صورتحال ہے تو آج کل لگ رہا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں، حکمران، قانون نافذ کرنے والے، قانون بنانے والے اور تمام وزرا جلتے توے پر بیٹھے ہیں اور گلا پھاڑ پھاڑ کر ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے، ہر مسئلے پر دوسروں کو مورد الزام اور خود کو بری الذمہ ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں کوئی کسی دوسرے کی سننے کو تیار نہیں۔ باضمیر اور اعلیٰ ظرف عوام (جو دو چار ہی بچے ہیں) اس منظر کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ ان کا اس صورتحال میں کوئی کردار نہیں سوائے ایک خاموش تماشائی کے۔ یہ سب دراصل نمائشی کھیل ہے اصل سیاسی صورتحال جو جاری ہے اس کو سمجھنے کے لیے بجائے اس کے کہ میں اپنا اظہاریہ طویل کروں آپ ہفتہ 11 جولائی کے ایکسپریس میں جناب راؤ منظر حیات کا اظہاریہ ''سانپ اور سیڑھی'' سے استفادہ کیجیے۔

مختلف اخبارات کے مختلف مضامین کا مطالعہ ہماری آنکھیں کھولنے اور حالات کے ادراک میں معاون ثابت ہوتا ہے (لیکن حکمران اور ذمے داران شاید یہ سب کچھ نہیں پڑھتے) اور یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ اس ملک کا صرف ایک اور بنیادی مسئلہ ہے اور وہ ہے ''جاگیردارانہ، وڈیرانہ نظام'' عوامی سطح سے اٹھنے والی سیاسی جماعتوں کو (خاص کر جن کے پیچھے کوئی اعلیٰ شخصیت اور جاگیردار نہیں) سر اٹھانے کی کڑی سے کڑی سزا دی جائے تو وہ بھی کم ہے۔

تاکہ عام آدمی کاحوصلہ اتنا پست کردیا جائے کہ پندرہ سو سے لے کر دو ہزار تک افراد کی اموات کے بارے میں کسی سے سوال کرنے کی جرأت نہ کرسکیں اور ازخود کوئی اس کی ذمے داری بھی قبول نہ کرے عوام پانی اور بجلی کو ترستے رہیںاور خاموشی سے بل ادا کرتے ہیں۔ بقول پیرزادہ قاسم:

شہر اگر طلب کرے تم سے علاجِ تیرگی
صاحبِ اختیار ہو آگ لگا دیا کرو

لہٰذا جاگیرداروں، دولت مندوں کو بہت بہت مبارک ہو کہ کم از کم اس صدی (بلکہ آیندہ بھی کئی صدیوں) میں کوئی ان کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکتا، کوئی ان سے حقِ حکمرانی نہیں چھین سکتا، کوئی عام شہری باوجود اعلیٰ تعلیم، صلاحیت اور اہلیت کے اسمبلی میں ان کے برابر بیٹھنے کی جرأت نہیں کرے گا، کیونکہ انھیں جرأت اظہار کی خوب سزا مل چکی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں