افغان پارلیمنٹ پہ ’’را‘‘ کا حملہ گریٹ گیم میں علاقاتی طاقتوں کا ٹکراؤ شدت اختیار کرنے لگا

پاکستان اور افغانستان میں بڑھتی ہوئی قربت سے پریشان بھارتی ایجنسیاں اوچھے ہتھکنڈوں پراُتر آئیں‘ چشم کشا تحقیقی رپورٹ


بھارت کا حکمران طبقہ خفیہ وعیاں طریقوں سے پاکستان پر حملے کرتا ہے تاکہ اسے کمزور کیا جا سکے فوٹو : فائل

پچھلے ماہ 22 جون کی بات ہے' افغان دارالحکومت کابل میں افغانی پارلیمنٹ کا اہم اجلاس شروع ہوا۔ اس میں افغان رہنما' محمد معصوم ستانکزی نے بہ حیثیت وزیر دفاع حلف اٹھانا تھا۔ اجلاس شروع ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ بارود سے بھری ایک گاڑی پارلیمنٹ کے باہر پھٹ گئی۔ اس نے پوری عمارت کو ہلا کر رکھ دیا۔ارکان پارلیمنٹ تتربتر ہونے پہ مجبور ہو گئے۔

اسی دوران چھ سات جنگجو سکیورٹی فورسز سے جنگ کرنے لگے۔ گو سبھی حملہ آور مارے گے' مگر فوراً ہی مغربی ٹی وی نیٹ ورکس پر یہ خبریں چلنے لگیں کہ یہ طالبان کی دہشت گردی ہے... اور یہ کہ اس حملے کے پیچھے پاکستان کی خفیہ ایجنسی، آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے۔ یہ خبریں سن کر بھارتی حکمران خوشی سے پھول گئے ہوں گے ۔کیونکہ بھارتی خفیہ ایجنسی،را کے اسپانسر شدہ اس حملے کا مقصد پورا ہو گیا جو ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتی تھی:پاک ۔افغان دوستی کا خاتمہ اور افغانوں کی بھارت سے دوستی!



ایک خوشگوار موڑ
نو ماہ قبل افغان صدر' اشرف غنی کے برسراقتدار آتے ہی پاکستان اور افغانستان کے تعلقات معمول پر آنے لگے۔نئے افغان صدر پاکستانیوں کی مدد سے جنگوں سے تباہ حال اپنے دیس میں امن لانا چاہتے تھے۔اسی باعث عہدہ سنبھالتے ہی انھوں نے سب سے پہلے سعودی عرب،چین اور پاکستان کے دورے کیے۔چین بھی افغانستان میں امن چاہتا ہے تاکہ وہاں موجود معدنی خزائن سے مستفید ہو سکے اور افغانوں کو بھی خوشحال بنائے۔اشرف غنی چھ ماہ بعد بھارت پہنچے مگر اس سے پہلے بھارتی اور حامد کرزئی حکومتوں کے مابین ہوا اسلحہ معاہدہ ختم کر کے بھارتیوں کو پیغام دیا کہ ہمارا تمھارا ہنی مون انجام کو پہنچ چکا۔اہم بات یہ ہے کہ افغانستان اور افغانی طالبان کے درمیان اسلام آباد میں مذاکرات منعقد ہوئے۔

بھارتیوں کی سازشیں
افغانستان میں اپنی کم ہوتی اور مٹتی اہمیت دیکھ کر بھارتی حکومت کو سخت مایوسی ہوئی جو پچھلے دس بارہ سال میں وہاںاربوں روپے کی سرمایہ کاری کر چکی تھی۔ سچ یہ کہ امریکی فوج افغانستان سے رخصت ہوئی' تو بھارتی حکمرانوں کو افغانوں کے ہاں وہ پذیرائی نہیں ملی جس کی اسے توقع تھی۔

اس امر نے بھارتیوں کو غم و غصّے سے بھر دیا۔چناںچہ جارح پسند بھارتی وزیراعظم،نریندر مودی اپنے مشیروں کے تعاون سے ایسے منصوبے بنانے لگے جن کی مدد سے افغانستان اور پاکستان کے مابین غلط فہمیاں اور اختلافات پیدا کیے جا سکیں۔انہی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بھارتی وزیراعظم کے مشیر اور پاکستان کے خلاف ''جارحانہ دفاع'' (Offensive Defense)ڈاکٹرائن تخلیق کرنے والے سابق انٹیلی جنس افسر، اجیت دوال نے عراق کا خفیہ دورہ کیا۔ اجیت نے وہاں داعش ( آئی ایس آئی ایس) کے لیڈروں سے ملاقاتیں کیں۔

اجیت دوال نے انہیں پیش کش کی کہ بھارتی حکومت بھارت' پاکستان ' بنگلہ دیش اور افغانستان میں قدم جمانے کی خاطر داعش کو ہر ممکن امداد دے گی۔ بدلے میں مطالبہ کیا گیا کہ وہ پاکستانی اور افغان حکومتوں کے خلاف جنگ شروع کر دے۔ یہ سودا طے پا گیا۔یہی وجہ ہے ،چند ماہ قبل اچانک بھارتی میڈیا زور و شور سے داعش کی خبریں دینے لگا۔ یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ داعش جنوبی ایشیا آ پہنچی اور اس نے علاقہ خراسان (ایران' پاکستان' افغانستان' بھارت) میں اپنا کمانڈر مقرر کر دیا ہے۔

یاد رہے' داعش کے انتہا پسند لیڈر موجودہ اسلامی حکومتوں کو غیر اسلامی اور مغرب کا پٹھو سمجھتے ہیں۔نیزعالم اسلام میں یہ خبریں بھی پھیلی ہوئی ہیں کہ داعش،بوکوحرام اور ان جیسی دیگر متشدد تنظیمیں اسلام دشمن طاقتوں کی آلہ کار ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ ان کے ذریعے اسلامی دنیا خصوصاً مشرق وسطی میں فساد' بدامنی اور ہنگامے مستقل جاری رہیں اور مسلم ممالک کبھی سیاسی،معاشی اور عسکری طور پہ مستحکم وطاقتور نہ ہونے پائیں۔

را بامقابلہ آئی ایس آئی
پچھلے دس سال کے دوران افغانستان میں بھارتی خفیہ ایجنسی، را اچھا خاصا اثر و نفوذ پیدا کر چکی ۔ را کے ایجنٹوں کی مد د سے بعض افغان علاقوں کے ایسے جنگی سردار (وار لارڈ)داعش کے ساتھ جا ملے جو پہلے طالبان کی صفوں میں شامل تھے۔ اس تبدیلی میں ڈالروں کی چمک نے خوب کام دکھایا۔ یوں افغان طالبان کے اتحاد میں دراڑیں پیدا ہو گئیں۔اب مشرقی افغانستان میں اضلاع پہ قبضے کی خاطر داعش اور طالبان کے درمیان جنگیں چھڑ چکیں۔

صدر اشرف غنی افغان طالبان سے مفاہمت چاہتے ہیں تاکہ وہ ہتھیار پھینک کر سیاسی عمل میں شریک ہو جائیں اور یوں ملک میں امن جنم لے۔ اس ضمن میں پچھلے نو ماہ سے دونوں کے مابین مذاکرات بھی جاری ہیں۔ اس تبدیلی نے بھی بھارتی حکومت کو چراغ پا کر دیا۔ وجہ یہ کہ طالبان پاکستان کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ لہٰذا طالبان سیاسی عمل میں شامل ہوئے' تو قدرتاً افغانستان میں بھارت کا اثر و نفوذ بہت کم رہ جائے گا۔

پاکستان،افغانستان اور طالبان کے مابین جاری مفاہمتی عمل کا اہم موڑ 19مئی کو سامنے آیا۔اس دن آئی ایس آئی اور افغان خفیہ ایجنسی،نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی کے مابین مفاہمت کی یادداشت پہ دستخط ہوئے۔یہ پاکستان کی زبردست کامیابی تھی کیونکہ اس کے بعد افغانستان میں را کے ایجنٹوں کا کھلم کھلا کام کرنا مشکل ہو جاتا اور انھیں اپنا بوریا بستر لپیٹنا پڑتا۔افغان خفیہ ایجنسی نے پاکستانیوں کو بتایا کہ اس نے حکومت پاکستان سے نبردآزما پاکستانی طالبان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔یہ بھی پاکستان کے لیے بڑی خوش خبری تھی۔

مگر یہ مفاہمتی عمل بھارتی حکمرانوں کی نگاہوں میں کانٹا بن کر کھٹک رہا تھا۔ پاک۔ افغان مفاہمتی عمل روکنے اور طالبان و افغانی حکومت کے مذاکرات سبوتاژ کرنے کی خاطر بھارتی حکومت نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے افغان پارلیمنٹ پر حملہ کرا دیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ نئے افغان وزیر دفاع' محمد معصوم پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ان کا انتخاب نو ماہ جاری رہنے والی گفت و شنید کے بعد ہوا۔ایک امکان یہ ہے کہ پاکستانی طالبان کے کسی گروہ مثلاً حقانی نیٹ ورک نے افغان پارلیمنٹ پہ حملہ کیا۔یہ گروہ پاکستانی و افغان خفیہ ایجنسیوں کے اتحاد پر چراغ پا ہیں۔مگر دیکھنا چاہیے کہ اس حملے سے سب سے زیادہ فائدہ کسے ہوا؟

فوائد کسے ملے؟
حقیقت یہ ہے کہ حملے سے بھارت بہت فائدے میں رہا۔ را کے اسپانسر میڈیا نے یہی پروپیگنڈا کیا کہ حملہ آئی ایس آئی نے کرایا ہے۔افغان حکومت کے بعض وزیر بھی یہی راگ الاپنے لگے۔

 

یوں افغان حکومت کو پاکستان سے بدظن کرنے کی سرتوڑ کوشش ہوئی۔ حتیٰ کہ افغان وزیر خارجہ نے اپنا دورہ پاکستان منسوخ کر دیا۔اس طرح دونوں ممالک کے درمیان جاری مفاہمتی عمل کو خاصا نقصان پہنچا۔ امید ہے کہ اختلافات کا یہ دور عارضی ہے۔کچھ عرصہ گزرنے کے بعد افغان و پاکستانی حکومتوں کے تعلقات معمول پر آ جائیں گے۔ پاکستان کے لیے اشد ضروری ہے کہ وہ افغان حکومت سے تعلقات خوشگوار رکھے تاکہ اپنی مغربی سرحد محفوظ بنا سکے۔ تب وہ مشرقی سرحدوں پر ایک بڑے عیار دشمن کا مقابلہ دلجمعی سے کر سکے گا۔



تزویراتی ماہرین کا کہنا ہے کہ افغان پارلیمنٹ پر خود کش حملہ بھارتی کمانڈوز نے کیا۔ دراصل حب الوطنی کا جذبہ بہت طاقتور ہے۔ اسی نے جنگ عظیم دوم میں جاپانی ہوا بازوں کو اتنی ہمت دی کہ وہ اپنے طیارے دشمنوں پر جاگراتے۔ خودمرتے مگر دشمنوں کو بھی مار ڈالتے۔اسی طرح روایت ہے، جنگ ستمبر 1965 ء میں ہمارے دلیر جوان سینوں پر بم باندھ کر بھارتی ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے تھے۔ یہ مادر وطن سے محبت کا جذبہ ہی ہے۔

جس نے ان جوانوں کو اتنا بہادر بنا ڈالا کہ انہوں نے ہنستے کھیلتے موت کو گلے لگا لیا۔لیکن جذبہ حب الوطنی کسی قوم سے مخصوص نہیں' یہ بھارتیوں میں بھی ملتا ہے۔ لہٰذا بھارتی حکومت کو سوا ارب آبادی میں ایسے سیکڑوں لوگ مل جاتے ہیں جو قومی مفاد کی خاطر اپنی جانیں تک دے ڈالیں ،ختنے کرانا تو عام بات ہے۔ویسے بھی دہشت گردی کے ماہرین کا کہنا ہے ' کسی عمارت پر بارود سے بھری گاڑی کے ساتھ حملہ را کا مخصوص طریقہ واردات ہے۔

فریقین چوکنا رہیں
نریندر مودی جیسے ہی برسراقتدار آئے، وہ سعی کرنے لگے کہ جنوبی ایشیا اور عالمی سطح پہ پاکستان کو تنہا کر دیا جائے۔اسی لیے انھوں نے پڑوسی ممالک کے پے درپے دورے کیے۔تاہم افغانستان کے محاذ پہ سفارتی و سیاسی شکست نے انھیں بوکھلا کر رکھ دیا۔اسی واسطے ان کی بھرپور کوشش ہے کہ پاکستان،افغان حکومت اور طالبان کے مابین جاری مفاہمتی عمل سبوتاژ ہو جائے۔تینوں فریقین کو بھارتی سازشیں مدنظر رکھتے ہوئے احتیاط سے قدم اٹھانے چاہئیں۔

غداروں کو پہچانیئے
بھارت ہمارا کھلا دشمن ہے۔ اس کا حکمران طبقہ خفیہ وعیاں طریقوں سے پاکستان پر حملے کرتا ہے تاکہ اسے کمزور کیا جا سکے۔ لیکن عیاں دشمنوں سے زیادہ پوشیدہ دشمن خصوصاً غدار خطرناک ہوتے ہیں۔وجہ یہی کہ قوم میں انہیں اپنا دوست و ہمدرد سمجھا جاتا ہے' مگر وہ حقیقتاً مخالف ہوتے ہیں کہ انھیں بیرونی قوتیں خرید لیتی ہیں۔ مثلاً بنگال میں انگریزوںکو میر جعفر مل گیا۔ چناں چہ انہوں نے اس کی مدد سے نواب سراج الدولہ کی حکومت ختم کر ڈالی جو انگریز دشمن تھے۔ سرنگا پٹم میں ٹیپو سلطان غدار محمد صادق کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ اسی طرح مشرقی پاکستان میں بھارتی حکمرانوں نے شیخ مجیب الرحمن کو اپنا پٹھو بنایا اور متحدہ پاکستان توڑنے میں کامیاب رہے۔

دور جدید میں مشہور ہے کہ عبداللہ محسود اور ابوبکر البغدادی امریکا کے ایجنٹ ہیں۔یہ دونوں طویل عرصہ امریکیوں کی قید میں رہے۔اس دوران امریکی خفیہ ایجنسی،سی آئی اے نے انھیں خرید لیا۔چناںچہ وہ استعماری ایجنڈے کے مطابق کام کرنے لگے۔ عبداللہ محسود نے پاکستانی طالبان کی بنیاد رکھی اور اکلوتی اسلامی ایٹمی طاقت کو کمزور کرنے کی سازشیں کرنے لگا۔اسے را و موساد کی مدد بھی حاصل تھی۔ ابوبکر البغدادی داعش کا رہنما بنا اور عراق،شام،ترکی ،اردن ،کویت ،سعودی عرب وغیرہ میں فساد کھڑا کر دیا۔یہ صورت حال دیکھ کر اسرائیل بہت خوش ہے۔

عالم اسلام میں گھسے ایجنٹ
وہ جاسوس یا ایجنٹ بھی نہایت خطرناک ہیںجنہیں بیرونی طاقتیں خصوصی تربیت دے کر کسی اسلامی ملک بجھواتی ہیں تاکہ وہ مخصوص کام کر سکیں... مثلاً شہریوں کے مابین فرقہ ورانہ،لسانی اور معاشی اختلافات پیدا کرنا یا انہیں ایک دوسرے سے لڑانا' قومی و عسکری تنصیبات میں جا کر جاسوسی کرنا ' ایسے اقدامات کرنا کہ ملک کمزور ہو جائے' مقامی غداروں کی سرگرمیوں میں مدد دینا وغیرہ۔ یہ غیر ملکی جاسوس بھی نہایت خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ ان کی اصلیت پوشیدہ ہوتی ہے۔یہ عموماً اس قوم کے لوگوں کی تہذیب ومعاشرت میں ڈھل جاتے ہیں،لہٰذا انھیں پہچاننا بہت مشکل ہوتا ہے۔

درج بالا قسم کے غیر ملکی جاسوس سب سے پہلے برطانیہ میں تخلیق ہوئے۔ چار پانچ سو سال قبل دنیا کی سپر طاقتوں میں تین مسلمان سلطنتیں ... ترک عثمانی' مغل اور صفوی بھی شامل تھیں۔ انگریزوں نے انہیں باہم لڑا کر کمزور کرنے کی خاطر نہ صرف عالم اسلام میں غدار تلاش کیے بلکہ ایسا خفیہ مرکز کھول لیا جہاں برطانوی باشندوں کو مسلمان بننے کی خصوصی تربیت دی جاتی۔

یہ جعلی یا بہروپیے نومسلم ظاہر میں پکے و سچے مسلمان ہوتے' مگر درحقیقت اپنے شرانگیز نظریات سے مسلمانوں کے مابین تفرقہ پھیلاتے اور انہیں آپس میں لڑوا دیتے۔ یوں ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہو تی جو اسلامی حکومت کو کمزور کر دیتی۔ اسلامی ممالک کو کمزور کرنا ہی ان کی بنیادی ذمہ د اری ہوتی ۔ اسی قسم کے غیر ملکی ایجنٹ آج بھی پورے عالم اسلام میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ بظاہر مسلمان ہیں ' مگر اپنی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے انہوںنے اسلامی دنیا کو جنگ وجدل کا نشانہ بنا رکھا ہے۔

جعلی مسلمان گھڑنے کی ایک برطانوی فیکٹری کامشاہدہ مشہور ہندوستانی رہنما' نواب چھتاری نے کیا تھا۔ بعدازاں نواب چھتاری کی زبانی ساری داستان سن کر ان کے ایک قلمکار دوست' محمد آصف دہلوی نے ایک مضمون لکھا جو 1935 ء میں عثمانیہ یونیورسٹی ' حیدر آباد دکن کے رسالے میں شائع ہوا۔یہ مضمون نہایت چشم کشا اور حیرت انگیز ہے۔ یہ مسلمانوں کے خلاف غیر ملکی طاقتوں کے ہتھکنڈے واضح کرتا اور بتاتا ہے ' وہ مسلم اتحاد پارہ پارہ کرنے کی خاطر کیسی خوفناک سازشوں میں مصروف ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں