امی جان عید مبارک ہو
ظلم کرنے والے بھی کیسے ظالم ہوتے ہیں کہ بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی انسان ہیں وہ بھی کسی کی اولاد ہوں گے
بہت سخت گرمیوں میں یہ روزے ہیں۔ برداشت کرلیں گے اور دوسری مشکلات بھی ہوں تو برداشت، مگر کیسے برداشت کروں گی یہ آنے والی عید، جب عید کی نماز ختم ہوگی اور ہمارا بیٹا ہمارے ساتھ نہیں ہوگا جو ہمیشہ ہر عید پر نماز پڑھ کر گھر آتا اور گلے لگ کر کہتا ''امی جان! عید مبارک ہو!'' یہ احساسات ہیں۔ 16 دسمبر کو آرمی اسکول میں شہید ہونے والے طالب علم کی والدہ کے ۔ والدین کا کلیجہ پھٹ پھٹ جائے گا جب وہ اپنے جگر کے ٹکڑوں کے خالی کمرے، خالی بستر اور ان کے کپڑوں سے بھری الماریاں دیکھیں گے مگر ان کمروں میں بسنے والے، بہت دور جاکر بس گئے ہیں ہم سب کی دعائیں ہیں کہ اللہ ان تمام شہزادوں کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے والدین کو صبر جمیل عطا ہو۔
یہ جو عید ہوتی ہے نا یہ کبھی کبھی بہت رلانے والی ہوتی ہیں۔ ان تمام والدین کو سلام اور ان تمام والدین کے دکھ میں ہم شریک ہیں جو اس عید پر آنسوؤں سے بھری بھری آنکھوں کے ساتھ ایک دوسرے کو تسلی دیں گے کہ بے شک یہ شہزادے اب گھروں میں نہیں بلکہ تمام دلوں میں بس گئے ہیں اور ہمیشہ بسے رہیں گے۔
ظلم کرنے والے بھی کیسے ظالم ہوتے ہیں کہ بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی انسان ہیں وہ بھی کسی کی اولاد ہوں گے اور کوئی ان کی بھی اولاد ہوگی، مگر شیطانیت کا جن جب ان میں گھس جاتا ہے تو یہ اندھے ہوجاتے ہیں، محسوسات سے عاری!16 دسمبر کا آرمی اسکول کا سانحہ کبھی نہ بھولنے والا دردناک سانحہ جس میں معصوم طالب علموں کو انتہائی بے دردی سے قتل کیا گیا، بربریت اور دہشت گردی کی ایسی مثال جس میں ان شہید طالب علموں کے والدین، بہن بھائی، دوست اور اساتذہ ہمیشہ درد و کرب محسوس کریں گے اور سوچیں گے کہ آخر ان طالب علموں کا قصورکیا تھا؟ہماری عسکری قیادت پل پل ان والدین کے دکھ میں شامل رہی ہے اور ان ظالم کرداروں کو کیفر کردار تک بھی پہنچایا گیا۔
سلام ہے اسکول کی پرنسپل طاہرہ پر بھی جو اپنی زندگی کے آخری لمحے تک اپنا فرض نبھاتی رہیں۔ خوشیوں سے بھری عیدیں کبھی کبھی آنکھوں کو بار بار آنسوؤں سے بھر دیتی ہیں کہ جو بچھڑے ہیں وہ اب لوٹ کے آنے والے نہیں۔ باپ کے کندھے سے کندھا ملا کر چلنے والا، راستے میں ہی جدا ہوگیا، ماں سے لاڈ اٹھانے والا، فرمائشیں کرنے والا ہمیشہ کے لیے چپ ہوگیا، بہن بھائیوں کے ساتھ مستیاں اور ہنسی سے گونجتے ہوئے درودیوار سب کچھ ویسا ہی رہے گا مگر وہ ان میں موجود نہیں، مائیں کہاں سے وہ جگر لائیں گی کیسے کیسے اپنے دلوں کو سمجھائیں گی یہ دکھ، یہ تکلیف بہت زیادہ ہے ۔
قتل و غارت، چوری، ڈاکے یہ برائیاں ان معاشروں میں تیزی سے پھلتی پھولتی ہیں، جہاں عدل و انصاف نہ ہو، جہاں حق داروں کو حق نہ ملے، جہاں بے روزگاری بڑھتی جائے اور جہاں حکمراں عیاش اور عوام کی طرف سے گونگے اندھے ہوجائیں، یہ برائیاں کسی جادوکی چھڑی سے ایک دم نہیں ہوجاتیں بلکہ آہستہ آہستہ اپنی جڑیں مضبوط کرلیتی ہیں اور اگر خوش قسمتی سے حکمراں دیانت دار اور مخلص نظر رکھتا ہے تو فوری طور پر اس کو الارم ہوجاتا ہے اور وہ اس معاملے کو درستگی کی طرف لے چلتا ہے۔
ہم اگر اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو چھوٹے سے لے کر بڑے پیمانے پرکرپشن، رشوت اور بے ہنگمی کی فضا نظر آتی ہے اور بدقسمتی سے چھوٹے سے لے کر بڑے انسان تک میں نظر آتی ہے۔ غربت و افلاس، جہالت نے معاشرے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے، نہ روایات رہیں نہ محبتیں، نہ خلوص، ہر طرف لالچ، حرص وحسد، غلاظت سے بھری سوچیں۔
حد تو یہ ہے کہ ہمارے ملک کے ہمارے ہی اپنے حکمراں جو دن کے 24 گھنٹے عوام کے دکھ میں پریشان رہتے ہیں ایسے اچھے اچھے لفظ ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے ہیں ایسی میٹھی میٹھی زبان کے ساتھ، دکھ بھرے لہجے میں تقاریر کرتے ہیں کہ لگتا ہے بس ان سے اچھا تو کوئی ہو ہی نہیں سکتا اور عمل دیکھیے کہ کروڑوں، اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کرتے ہیں، رہتے یہاں ہیں، کھاتے پیتے عوام کا ہیں، عوام کے ہی ٹیکسوں سے عیاشیاں کرتے ہیں اور عوام کے حق پر ہی ڈاکہ ڈالتے ہیں بے بس اور مجبور، بے روزگار شہری جب اپنے اوپر کے لوگوں کو بڑے دھڑلے کے ساتھ، چوریوں، ڈاکوں میں ملوث دیکھے گا تو وہ کون سی فرشتوں والی صفتیں اپنے آپ میں پیدا کرے گا؟ جب ریاست کے کرتا دھرتا ہی اپنی ریاست کو چوری کے ، بدمعاشی کے نت نئے طریقے سکھائے، اپنی ہی عوام کو برائیوں کی طرف اکسائیں تو پھر کیا کیجیے؟
نفسا نفسی کا یہ عالم ہے کہ اولاد اپنے سگے بوڑھے والدین کو پاگل، ذہنی مریض قرار دے کر فلاحی اداروں میں چھوڑ دے،نوزائیدہ بچوں کو کوڑھے کے ڈھیر میں پھینک دیا جائے، وہ کاروبار کھلے عام ہو جس میں انسانیت حرام و حلال سب کچھ بھول جائے، ایک Cell فون کے لیے ایک گھر کے سربراہ کو قتل کردیا جائے، عورتوں کے ہاتھوں سے چوڑیاں اور گلے سے Chain اتروا لی جائیں، کہیں ناگہانی آفت میں والدین فوت ہوجائیں تو ان کے بچوں کو اسمگل کردیا جائے یا ناپاک ارادوں کے لیے بیچ دیا جائے ظلم کی انتہا ہے یہ سب! اور اس انتہائی ظلم کو سب کھلی آنکھوں سے دیکھیں اور تماشائی بن جائیں، بیرونی ملکوں کی سیاستیں قرار دیں اور اپنے عمل ''صرف زیرو''۔
اس زبوں حال معاشرے میں والدین کیسے اپنے بچوں کی تربیت کریں کیسے انھیں حضرت عمر فاروقؓ کے راستے پر چلنے کی ہدایت کریں کیسے انھیں سمجھائیں کہ مساجد تو اللہ کا گھر ہیں یہ کوئی جاگیر یا قبضہ کرنے کی جگہ نہیں، یہ سیاستیں چمکانے کا ذریعہ نہیں یہ تو خالص اللہ اور رسول کے ذکر پاک کے لیے ہیں عبادتوں کے لیے ہیں، بشر کی خیر اور بھلائی کے لیے ہیں۔ قرآن پاک کا ایک ایک لفظ سچا اور کھرا، 14 سو سالوں سے قیامت کے دن تک کے لیے رہنمائی۔
قرآن پاک کا عملی نمونہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ، خلفائے راشدین کی زندگی، صحابہ کرام کا طرز عمل، گویا ایک پورا ضابطہ حیات ہمارے پاس موجود ہے۔ اعلیٰ ڈگریوں والے علم کے حصول کے بعد ہی اگر عقل و شعور اپنے دروازے نہ کھولیں، اور ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ سے سب اپنے مسکن بنا لیں گے تو پھر حالات زبوں حالی کی طرف ہی جائیں گے۔
قربانیاں، مہر و وفا، محبتیں، خلوص کیا صرف کتابی باتیں رہ جائیں گی ایک انسان اپنے آپ کو بنانے کے لیے کتنے انسانوں کا استعمال کرے گا اور اگر اس کے بعد وہ سوچیں کہ وہ کامیاب ہے اس نے ایک کامیاب زندگی حاصل کرلی اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے تو یہ صرف اس کی نادانی اور بے وقوفی ہی ہوگی پھر اس کے بعد اس کی اولاد کا ان کے گھرانوں کا جو حشر ہوتا ہے وہ سب دیکھتے ہی ہیں، وقت ابھی کچھ ہاتھ میں ہے کہ ہم سنجیدگی سے خلوص کے ساتھ ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوطی سے تھامیں کہ پھر کوئی ہاتھ ہمارے جگر کے ٹکڑوں کو ہم سے الگ نہ کرسکے۔ کوئی اداس عید نہ ہو، کوئی ماں بھری آنکھوں سے دروازہ نہ تکے۔