سنگیت بہار سے شرمیلی تکپہلاحصہ
نورالدین کیسٹ خالد خورشید کےفنانسنگ پارٹنر کے ساتھ ساتھ ان کی فلموں کی سندھ، بلوچستان میں فروخت میں بھی مدد کرتے تھے۔
GILGIT:
یہ میرا لاہور کا وہ زمانہ تھا جب میں لاہور میں نیا نیا آیا تھا اور فلمی دنیا کے ماحول میں خود کو کسی طرح سمونے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ میں لاہور کے فلم اسٹوڈیوز سے نگار ویکلی کراچی کے لیے ہر ہفتے ''ایک دن ایک فلم کے سیٹ'' پر ایک خصوصی مضمون بھیجا کرتا تھا جب کہ لاہور میں شاعرکلیم عثمانی ''نگار'' کے لیے لاہور کی فلمی ڈائری لکھا کرتے تھے۔
انھی دنوں لاہور ٹیلی ویژن سے میوزک پروڈیوسر رفیق وڑائچ ایک بہت ہی خوبصورت موسیقی کا پروگرام ''سنگیت بہار'' پیش کیا کرتے تھے میں ان کے نام سے کراچی ہی سے واقف تھا۔ ایک دن ایورنیو اسٹوڈیو میں ایک فلم کے گانے کی ریکارڈنگ کے لیے آئے ہوئے ایک میوزیشن ناصر نے مجھے بتایا کہ کراچی سے آپ کے دوست موسیقارکریم شباب الدین آئے ہوئے ہیں ، میں دوسرے دن ہی سمن آباد کریم شہاب الدین کے گھر پہنچ گیا۔ ہم دونوں بڑے دنوں بعد ملے تھے دونوں مل کر بہت خوش ہوئے۔
میں نے کریم سے پوچھا وہ لاہور کب آئے اس نے ایک مختصر سی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ مجھے کراچی سے لاہور انکل نورالدین کیسٹ نے یہ کہہ کر بھیجا ہے کہ تم خود پہلے لاہور جاؤ پھر میں تمہاری بات ہدایت کار خالد خورشید سے کروں گا کہ وہ تمہیں اپنی کسی آیندہ فلم میں بطور موسیقار لے لیں گے۔ نورالدین کیسٹ خالد خورشید کے ان کی فلم ''داغ'' میں بھی پارٹنر تھے۔ ''داغ'' میں محمد علی اور شبنم نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔
نورالدین کیسٹ خالد خورشید کے فنانسنگ پارٹنر کے ساتھ ساتھ ان کی فلموں کی سندھ، بلوچستان میں فروخت میں بھی مدد کرتے تھے۔ ہدایت کار خالد خورشید بمبئی فلم انڈسٹری سے ہجرت کرکے لاہور آئے تھے وہاں کرن کمار کے نام سے کئی فلمیں پروڈیوس کیں اور ان کی ڈائریکشن دے چکے تھے۔ لاہور میں ان کی ایک فلم ''فرض اور مامتا'' نے بھی بڑی نمایاں کامیابی حاصل کی تھی۔ جس کا ایک گیت نیرہ نور کی آواز میں ریکارڈ کیا ہوا اور شاعر کلیم عثمانی کا لکھا ہوا ایم اشرف کی موسیقی میں بڑا ہٹ ہوا تھا۔ جس کے بول تھے:
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں' ہم ایک ہیں
شبنم اور ندیم فلم کے مرکزی کردار تھے اور اس گیت نے ساری ملک میں ایک دھوم مچا دی تھی۔ آج بھی یہ گیت قومی گیت کا سا درجہ رکھتا ہے۔
اب میں پھرکریم شہاب الدین کی طرف آتا ہوں۔ کریم شہاب الدین نے لاہور آکر جب پروڈیوسر رفیق وڑائچ سے ملاقات کی تو انھوں نے کریم شہاب الدین سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے اپنے میوزک پروگرام ''سُرساگر'' اور ''سنگیت بہار'' میں ساتھ رکھ لیا۔ کریم نے لاہور آتے ہی مجھے تلاش کرکے بلوالیا۔ اور پھر میں نے بھی ''سنگیت بہار'' کے لیے لکھا۔ انھی دنوں احمد رشدی بھی لاہور میں نئے نئے مشہور ہوئے تھے مگر وہ فلموں کے ساتھ ساتھ ٹیلی ویژن سے بھی پروگرام کرتے تھے۔ اور ''سنگیت بہار'' کے لیے میرا پہلا لکھا ہوا گیت گلوکار احمد رشدی کی آواز میں لائیو ریکارڈ کیا گیا جس کے بول تھے:
دل میں تُو ہے آنکھوں میں تُو ہے
تیرے لیے جیتے ہیں ہم
دھڑکن میں تُو سانسوں میں تُو
یہ تیری میری محبت کا رشتہ نہ ٹوٹے
میرے صنم۔۔۔ ۔دل میں تُو ہے
یہ گیت بھی میں نے کریم شہاب الدین کی بنائی ہوئی خوبصورت دھن پر لکھا تھا۔ اس گیت کو ٹیلی ویژن کے گیتوں میں بڑی پذیرائی ملی تھی اور یہ ان دنوں پر ٹی وی اسٹیشن سے بار بار نشر ہوتا تھا۔ انھی دنوں ایک دن اداکار ناظم میرے پاس آیا اور اس نے ایک خوشخبری سناتے ہوئے کہا کہ اسے ایک پروڈیوسر زیڈ چوہدری مل گیا ہے اور اس کے لیے میں بطور کو پروڈیوسر کام کر رہا ہوں اور فلم کی ساری ذمے داری میرے کاندھوں پر ہی ہے۔
ہدایت کار، رائٹر اور کاسٹ فائنل کرنے کی بھی میری ہی اب ذمے داری ہے۔ پھر ناظم نے مجھے پروڈیوسر زیڈ چوہدری سے ملوایا پھر ہم تینوں نے مل کر فلم کی ہدایت کاری کے لیے اقبال اختر کو سائن کیا۔ ان کی فلم ''پھول میرے گلشن کا'' سپر ہٹ ہوچکی تھی جس میں زیبا، محمد علی، ندیم اور وحید مراد نے کام کیا تھا۔ اقبال اختر کی کراچی میں بھی فلمساز قدیر خان کی بنائی ہوئی فلم ''نادان'' بھی سپرہٹ ہوئی تھی جس میں ندیم اور نشو نے کام کیا تھا اور اس فلم نے سارے پاکستان میں بڑی دھوم مچائی تھی۔ ہدایت کار اقبال اختر اور ہدایت کار نذرالاسلام میں ایک قدر مشترک تھی کہ دونوں پہلے فلم ایڈیٹر تھے اور ایڈیٹنگ میں شہرت پا کر ہی فلم ڈائریکشن کے شعبے میں آئے تھے اور دونوں ہی فلموں کے لیے ان دنوں ہاٹ کیک ہدایت کار تھے۔
ہدایت کار اقبال اختر نے فلم کی کہانی کے لیے جلیل افغانی سے رابطہ کیا۔ انھوں نے ایک کہانی سنائی جو سب کو بہت پسند آئی اور فلم کی کہانی سن کر فلم کا نام بھی ''شرمیلی'' منتخب کرلیا گیا۔ اب فلم کی کاسٹ فائنل کرنے کا پیچیدہ مسئلہ تھا۔ فلمساز زیڈ چوہدری کی اداکارہ ممتاز سے اچھی دوستی تھی اور ممتاز پہلے ہی سے ہیروئن منتخب کرلی گئی تھی۔ فلمساز کی خواہش تھی کہ ممتاز کے ساتھ ندیم کو ہیرو کاسٹ کیا جائے۔ اس غرض سے ندیم کو سائن کرنے کے لیے اداکار ناظم بطور فلمساز بریف کیس میں سائننگ اماؤنٹ لے کر ندیم کے گھر گیا۔ مگر ندیم نے یہ کہہ کر فلم سائن کرنے سے معذرت کرلی تھی کہ وہ اب تک اتنی فلمیں سائن کرچکا ہے کہ آنے والے آٹھ دس سالوں تک اب وہ کوئی نئی فلم سائن کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
جب ندیم کے انکار کی بات مجھے ناظم نے سنائی تو میں نے کہا کوئی پرابلم نہیں۔ ضروری نہیں کہ اس فلم میں ندیم ہی ہیرو ہو۔ محمد علی اور شاہد میں سے کسی کو لے لو یا پھر اس فلم میں وحید مراد بھی بہت سوٹ کرے گا۔ مگر فلمساز زیڈ چوہدری کی ضد تھی کہ اگر فلم بنے گی تو اس میں ندیم ہی ہوگا ورنہ فلم نہیں بنے گی۔
ندیم جو بھی معاوضہ مانگے اسے ہم دے سکتے تھے۔ یہ بات جب ہدایت کار اقبال اختر کے سامنے بیان کی گئی تو وہ بولے بھئی! یہاں بات پیسے کی نہیں وقت کی ہے اگر ندیم کے پاس نئی فلم کے لیے آٹھ سال تک تاریخیں ہی نہیں ہیں تو پھر فلم کیا دس سال کے منصوبے کے ساتھ بنائی جائے گی۔ مگر فلمساز کی یہاں بھی ضد ندیم پر آکر رک گئی تھی۔ اب اداکار ناظم اور میں نے جب یہ اندازہ کرلیا کہ اس طرح یہ فلم سرمایہ ہونے کے باوجود صرف ندیم کے نہ کرنے سے نہیں بنے گی تو ہم دونوں بھی پریشان ہوگئے تھے۔
ناظم کو یہ بات پتہ تھی کہ ندیم جب صرف نذیر بیگ تھا۔ تو کراچی میں میرا کالج فیلو تھا۔ ناظم نے یہی پتہ پھینکتے ہوئے کہا۔ یار ہمدم! ندیم تمہارا کلاس فیلو بھی ہے۔ وہ تمہاری بات ضرور سنے گا۔ اب آخری بار تم ہی ندیم سے بات کرو، یہ میرے اور تمہارے بھی مستقبل کا سوال ہے۔ ہمارے پاس سپرہٹ فلموں کا ہدایت کار اقبال اختر اور نامور اداکارہ ممتاز سائن ہیں۔ اس دن میں رات بھر نہیں سویا اورکوئی طریقہ سوچتا رہا کہ ندیم کو کیسے راضی کیا جائے۔
اسی دوران مجھے کریم شہاب الدین کا خیال آگیا کریم شہاب الدین نے ندیم کو اس وقت سہارا دیا تھا جب وہ کراچی سے بحیثیت گلوکار ڈھاکہ گیا تھا اور کریم شہاب الدین سے ملا تھا تو کریم نے اس کی مشکل آسان کی تھی اور اسے اپنی دو تین فلموں میں چانس دیا تھا۔ خاص طور پر فلم ''کیسے کہوں'' اور ''بیگانہ'' میں سولو اور ڈوئیٹ گیت فردوسی بیگم کے ساتھ گوائے تھے دوسرے دن میں ندیم سے ملنے اس کے گھر گیا۔ میرے اس طرح اچانک آنے پر بیگ صاحب کچھ حیران ہوئے پھر میں نے نذیر بیگ سے کہا یار! بیگ صاحب فلم ''شرمیلی'' میں تم نے کام کرنے سے انکار کردیا ہے اور اس فلم کے مکالمے اور گیت تمہارا دیرینہ دوست لکھ رہا ہے اور دوسری بات یہ بھی کہ ''شرمیلی'' میں تمہارا ڈھاکہ کا موسیقار دوست کریم شہاب الدین موسیقی دے رہا ہے۔ تیسری بات ڈھاکہ ہی کے تمہارے بزرگ دوست جلیل افغانی نے ''شرمیلی'' کی کہانی لکھی ہے۔
اب تمہارے تین دوست ایک فلم میں یکجا ہوں تو پھر تمہارا فلم ''شرمیلی'' میں کام کرنے سے انکار بنتا نہیں ہے۔ ندیم نے مسکراتے ہوئے مجھے دیکھا۔ پھر کہا۔ بات یہ ہے ہمدم! کہ واقعی میرا شیڈول بہت بزی ہے اتنا بزی کہ میں دس سال تک بھی کسی نئی فلم کے لیے وقت نہیں دے سکتا۔ میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے تم لوگوں کو پریشانی اٹھانی پڑے۔ میں نے جواب میں کہا۔کوئی فکر کی بات نہیں ہم انتظار کرلیں گے۔ بس تم فلم سائن کرلو۔ تین چار سال تک تو تم سے شوٹنگ کا تذکرہ بھی نہیں کریں گے۔ آہستہ آہستہ فلم بنائیں گے اور پھر یار! کریم شہاب الدین بھی لاہور آکر پریشان پھر رہا ہے۔ ندیم نے پھر کہا۔ چلو ٹھیک ہے میں فلم سائن کرلیتا ہوں۔ مگر ابھی کسی قسم کا چرچا نہ کرنا۔
(باقی آیندہ)