بے روزگاری میں کمی نہیں اضافہ ہوا
بھارت میں سالانہ دو کروڑ 10 لاکھ ٹن گندم ضایع ہو جاتی ہے جب کہ اسی بھارت میں 34 کروڑ لوگ بیروزگار ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک معروف ادیبہ اور دانشور نے کہا کہ سائنس کی نت نئی ایجادات اور ترقی سے دنیا کی ثقافت، ہیئت اور اس کی حیثیت تبدیل ہو جائے گی۔ ان کے الفاظ کچھ یوں تھے ''وہ وقت دور نہیں جب کروڑوں کارکن صنعتی پیداوار کا حصہ نہیں ہونگے لیکن وہ بیروزگار بھی نہیں رہیں گے کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ نئی ٹیکنالوجی روزگار کے لیے موقعے بھی پیدا کرتی جائے گی۔''
سائنسی ترقی اور ایجادات نے تو 16 ویں صدی سے ہی ترقی کرنی شروع کر دی تھی لیکن 18 ویں صدی میں عروج پہ آ گئی اور اب 21 ویں صدی میں تو گھر بیٹھے سب کچھ مل جاتا ہے یہاں تک کہ مریخ کی بکنگ بھی شروع ہو گئی ہے مگر اس کا کیا کیا جائے کہ صرف 85 ارب پتی آدھی دنیا کے مالک ہیں جب کہ ہر منٹ میں اس دنیا میں 3125 آدمی صرف بھوک سے مر رہے ہیں۔ کارل مارکس نے 167 برس قبل کہا تھا کہ ''جوں جوں سائنسی ٹیکنالوجی میں اضافہ ہو گا، دولت ایک جانب مرکوز ہو گی اور دوسری جانب افلاس زدہ لوگوں کی فوج۔'' اسلام آباد میں ویمن چیمبر کی بانی صدر ثمینہ فاضل نے بتایا کہ اس وقت امریکا اور یورپ میں عوام سبزی خریدنے کے بعد نصف مقدار کوڑے دان میں پھینک دیتے ہیں جب کہ غریب ممالک میں ایک ارب افراد بھوک کا شکار ہیں۔
بھارت میں سالانہ دو کروڑ 10 لاکھ ٹن گندم ضایع ہو جاتی ہے جب کہ اسی بھارت میں 34 کروڑ لوگ بیروزگار ہیں۔ اس وقت دنیا کی 7 ارب کی آبادی میں ساڑھے 5ارب غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جب کہ دوسری جانب صرف نظروں سے فون کو حرکت میں لایا جا سکتا ہے۔ اب بھلا اس دانشور خاتون کا کیا کیا جائے جن کی نظروں سے اربوں بیروزگار فاقہ کش، افلاس زدہ اور غربت کے مارے بلک بلک کر مرنیوالے اوجھل ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ سائنسی ٹیکنالوجی کی ترقی سے بیروزگاری کا خاتمہ ہو گا۔ دنیا کے معروف ترین ادیب، ناول نگار، افسانہ نگار، مصنف اور فلسفی لیو تالستوے (ٹالسٹائی) نے 1906ء میں کہا تھا کہ ''دنیا کے عوام کو برابری کی سطح پر لانے کے لیے ضروری ہو گا کہ سائنسی ٹیکنالوجی کو روکا جائے اس کے سوا برابری پر لانا ناممکن ہے۔ انھوں نے آگے چل کر مزید کہا کہ اب روس کے عوام اتنے باشعور ہو گئے ہیں کہ وہ ''ریاست'' کے بغیر ہی کارہائے زندگی کو انجام دے سکتے ہیں۔
مفکر، فلسفی اور انارکسٹ رہنما کامریڈ میخائل الیگزنڈر باکونن نے کہا کہ ''ریاست جبر کا ادارہ ہے یہ طبقاتی خلیج کو بڑھاتا جاتا ہے اور سائنسی ایجادات کو بورژوازی اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے، ٹیکنالوجی کی تیز تر ترقی سرمایہ داروں کے منافعوں میں اضافہ اور پیداواری قوتوں کو زندہ درگور کرتی جائے گی۔'' سائنسی ایجادات اور ترقی یقینا انقلابی اقدامات ہیں مگر اس کا فائدہ عام شہریوں، محنت کشوں اور پیداواری قوتوں کو پہنچنا ضروری ہے ورنہ اس لوٹ مار کے مہذب معاشرے سے وہ پسماندہ معاشرہ بہتر ہے جہاں لوگ مل کر پیداوار کریں اور مل کر کھانا بانٹ لیں۔
کوئی ارب پتی ہو اور نہ کوئی گداگر۔ سنڈے میگزین روزنامہ ایکسپریس میں مرزا ظفر بیگ نے اپنے مضمون میں شمالی برازیل اور جنوبی وینزویلا کا ایک قدیم قبیلہ ''یانومامی'' کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہاں کے لوگ مشترکہ گھر میں رہتے ہیں۔ یہ اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ 400 افراد تک اس میں رہتے ہیں۔ ''یانومامی'' لوگ مساوات کے قائل ہیں، وہ اپنی برادری کے مکھیا (سربراہ) کی بات بھی نہیں مانتے۔ ہر فیصلہ سبھی لوگوں کی باہمی رضا مندی اور اتفاق رائے سے کیا جاتا ہے۔ ہر فرد کو اپنی بات کرنے کا حق ہوتا ہے اور اکثر معاملات پر طویل بحث کی جاتی ہے۔ مرد باہر جا کر شکار کرتے ہیں اور خواتین باغات کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ ہر شکاری اپنا شکار خود نہیں کھاتا بلکہ اوروں کو کھلاتا ہے اور اسے دوسرے اپنا شکار کھلاتے ہیں۔
مچھلی کا شکار مرد عورت سب مل کر کرتے ہیں۔ وہ تقریباً 500 پودے اپنی خوراک اور دوائیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ گھنے جنگل میں بہت سے ٹکڑوں کو صاف کر کے کھیتی باڑی بھی کرتے ہیں۔ خواہ یہ طرز زندگی انتہائی پسماندہ ہی کیوں نہ ہو کراچی کی طرح ایک ہفتے میں 1500 آدمی گرمی سے نہیں مرتے۔ کوئی ذخیرہ کرتا ہے اور نہ کوئی بھوکا رہتا ہے۔ ہر ایک سب کا اور سب ہر ایک کا خیال رکھتے ہیں۔ ہمارے دانشور حضرات جب اپنی ایئرکنڈیشنڈ گاڑی میں ڈرائیور کے پیچھے بیٹھ کر گھر سے نکلتے اور واپس جاتے ہیں تو نہ جانے کتنے بھکاری ہاتھ پھیلائے دو پیسوں کے لیے منتظر رہتے ہیں ایسی ٹیکنالوجی اور سائنسی ترقی سے عوام کو کیا فائدہ جہاں ایک جانب لوگ چاند پر چہل قدمی کرتے ہوں تو دوسری طرف تھر کے ریگستان میں قحط سے لوگ مر رہے ہوتے ہیں اور ترقی یافتہ شہر کراچی میں گرمی سے ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہوں۔
ٹیکنالوجی کا عروج ہمیں پسماندگی کے گڑھے میں دھکیل رہا ہے، اس طبقاتی نظام سرمایہ داری سے نجات کا واحد راستہ ایک غیر طبقاتی آزاد سوشلسٹ اور کمیونسٹ معاشرے کا قیام ہے جس کا خواب بابائے سوشلزم روبرٹ اووین، چارلس فریئر اور سینٹ سائمن نے دیکھا تھا۔ سینٹ سائمن مطلق سوشلزم کے بانی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت یا ریاست کی سرپرستی میں سوشلزم نافذ کیا جا سکتا ہے یعنی پرولتاری آمریت۔ انھی کے نظریے پر عملدرآمد کرتے ہوئے کارل مارکس نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں پرولتاری آمریت کا منشور پیش کیا اور کہا کہ اس مطلق سوشلزم کو مطلق کمیونسٹ سماج میں تبدیل کیا جائے گاجب کہ برطانیہ کے روبرٹ اووین اور فرانس کے چارلس فریئر آزاد سوشلزم کے بانیوں میں سے تھے۔ ان کا موقف یہ تھا کہ ریاست کے بغیر سوشلزم قائم ہو سکتا ہے جو کہ ریاست کا متبادل ہو گا۔ اتھاریٹیرین سوشلزم کی جگہ انھوں نے لبریٹیرن سوشلزم کا نظریہ پیش کیا۔
اوون اور فریئر کا کہنا تھا کہ ریاست کو برقرار رکھتے ہوئے اگر سوشلزم نافذ کیا جائے گا تو طبقاتی خلیج بڑھے گی اور سماج کمیونسٹ معاشرے کی جانب پیش قدمی کرنے کی بجائے رد انقلاب یعنی سرمایہ داری کی جانب پلٹے گا۔ اس نظریے کو میخائل باکونن نے مارکس سے اختلاف کرتے ہوئے آگے بڑھایا۔ دنیا کے بڑے انقلابات اور تحریکیں ریاست کی مدد کے بغیر چلیں۔ 1789ء کا انقلاب فرانس، 1871ء کا پیرس کمیون،1886ء کی شکاگو کی مزدور تحریک، 1936-39ء اسپین کی عوامی جنگ اور پھر حالیہ وال اسٹریٹ قبضہ تحریک بغیر ریاستی مدد سے چلیں جن میں کامیابی اور ناکامیابی دونوں عوامل شامل ہیں جب کہ ریاستی مدد سے سوشلزم نافذ کرنے کی درجنوں ممالک کی کوششیں ناکام ہوئیں۔
سوویت یونین میں ''پرولتاریہ آمریت'' لفظ کو عوامی بنانے کے لیے ترانسکی ''مزدور جمہوریت'' کا لفظ استعمال کیا جب کہ کمیونسٹ مینی فیسٹو میں مارکس ایگلز نے پرولتاری آمریت اورلینن نے بھی پرولتاریہ آمریت کا لفظ استعمال کیا۔ مزدور جمہوریت کی بات کرنیوالے ترانسکی نے لینن کے ساتھ مل کر 1920ء میں 15000انارکو کمیونسٹوں یا انارکسٹوں کو قید، تشدد، قتل اور جلاوطن کیا جب کہ انھی انارکسٹوں نے 1917-20ء تک بالشیکوں کے ساتھ مل کر زار شاہی کی سفید فوج میشنیکوںکو شکست دی۔ معروف انارکسٹ پیسترکرویو تکن 1920ء میں روس میں ہی اپنے فارم ہاؤس میں نظر بندی کے دوران انتقال کر گئے جو کہ ایک عظیم انقلابی تھے اور 1917ء کے انقلاب روس میں اہم کردار ادا کیا۔ سوویت یونین کی پرولتاری آمریت کے دوران چیکا (خفیہ پولیس) نے مزدوروں، کسانوں اور انارکسٹوں کے ساتھ وہی برتاؤ کیا جو زار شاہی انارکسٹوں سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کے ساتھ کرتی تھی۔ یہی صورتحال ایران میں بھی ہوئی تھی۔ شہنشاہ ایران نے کمیونسٹوں، اسلامی مارکسٹوں اور دیگر انقلابیوں کے ساتھ جس طرح تشدد اور قتل و غارتگری کی اس سے بڑھ کر انقلاب کے بعد خمینی اور اسلامی حکومت نے کی۔
50 ہزار مارکسٹوں اور کمیونسٹوں کو منشیات فروش کہہ کر پھانسیاں دیں۔ بہرحال محنت کشوں کی تحریک اور انقلابی عمل جاری و ساری ہے۔ ترکی میں بایاں بازو 200 سے زیادہ نشستیں حاصل کر کے مضبوط حزب اختلاف بن گئی ہے۔ تیونس میں بھی بایاں بازو مضبوط حزب اختلاف بن گیا ہے۔ بنگلہ دیش میں بایاں بازو حکومت میں شامل ہے۔ اسپین کے 7 بڑے شہروں میں سے 6 میں بائیں بازو کے میئرز بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کر چکے ہیں اور یونان میں بائیں بازو کی حکومت قائم ہوئی ہے۔ اب وہ دن دور نہیں جب دنیا کی ساری دولت سارے لوگوں کی ہو گی۔