خانم کا ٹیکس

دلّی اور لکھنو کے ’’بازار‘‘ بڑے مصروف تھے، ان بازاروں کے لوگ بھی نامی گرامی تھے۔



PESHAWAR: دلّی اور لکھنو کے ''بازار'' بڑے مصروف تھے، ان بازاروں کے لوگ بھی نامی گرامی تھے۔ اتنے نامی گرامی کہ ان پر ناول تک لکھے گئے، کیا جھوٹ کیا سچ مگر جو احوال وہاں تھا کہ ''اوپری حصے'' روشن ہیں مکانوں کے اور ان میں ''سیم و زر'' کے سودے ہو رہے ہیں۔ ان ''حصوں'' کی بھی کیا کیا کہانیاں ہیں، کوئی لاکھ کا تھا خاک کا ہو کر اس در کا ''نوکر'' ہے، جس نے اسے TAX کیا تھا بڑی مہارت سے اپنے وقت میں وہ اب بالواسطہ ''حکومت کا حصہ'' ہے یعنی سکہ رائج الوقت کچھ بھی ہو نام ''خانم'' کا چل رہا ہے۔ خانم کے بغیر ''سکہ'' ۔۔۔۔ ''سقہ'' بن کر رہ جاتا ہے۔

اب اس دنیا کے کھیل بھی بہت پراسرار پان کی دکان سے پھولوں کی دکان اور دکان در دکان تو پھر وہ ''سنہری دکان'' آپ ساتھ سفر کر رہے ہیں تو بات آسان ہو جائے گی۔ ابھی سیڑھیوں کا مرحلہ ہے، اس پر بھی کوئی راہ میں ہے کہ راستا ''صاف'' ہو پھر ''نظارہ گاہ'' تک پہنچتے پہنچتے نقد اور وعدوں وعیدوں کا ایک سلسلہ دراز، وہاں پہنچے تو سازندگان سے رقص کنندگان تک ہر ہاتھ بہت سلیقے اور ادب سے جیب سے کچھ نہ کچھ نکالتا جا رہا ہے، ٹم ٹم، بگھی کو تو آپ نے دیکھا ہی تھا کہ پہلے ہی نمٹایا اور رکنے کا کہہ دیا کہ یہ وہ آخری ادائیگی ہوگی جو پچھلے پہر کی جائے گی۔

محفل میں آؤ بھگت کے پہلے ''پان'' سے ہی آپ کے جیب کی گرمی کم ہونا شروع ہو جاتی ہے، بس پھر کیا ہے ہر تھوڑی دیر بعد یہ مہنگا ترین ''پان'' آپ کے پاس ''کیش'' ہونے آ جاتا ہے اور دس بارہ پان تو آپ کو ''کیش'' کرنے ہی پڑتے ہیں اور ''پان'' بھی کیا خوب ہے کہ ادھر منہ میں رکھا اور اُدھر گھلنا شروع، گویا پان نہ ہوا ''عاشق زار'' ہے کہ محبوب کے ہجر میں نڈھال ہوا جاتا ہے۔ لو بھئی! اب بیگم جان کی آمد ہے، سلام کے توڑے پہلے، موسیقی اور تھاپ کے الگ اور وہ جو پیروں کی ''تھرکن'' کا سودا ہے وہ تو ابھی ہونا باقی ہے۔ دیکھا نا یہ تماشا، یہ تھا خانم کا ٹیکس کا نظام جس میں ہر آدمی مشغول کمائی رہتا تھا اس سے بے پرواہ کہ جو لٹ رہا ہے وہ کون ہے اور اس کا انجام کیا ہو گا، یہاں سے ہی پاکستان کا ٹیکس کا نظام شاید ترتیب پایا ہے۔

ایک فلم تھی جس میں جانی واکر محفل کے اختتام پر جانے والوں سے انعام، بخشش یا کچھ بھی کہہ لیں میں تو TAX ہی کہوں گا وصول رہے ہوتے ہیں تو ایک مولوی صاحب بھی سامعین میں سے رخصت ہو رہے ہوتے ہیں تو جانی واکر ان کو بھی ''جھاڑ'' لیتے ہیں تو خانم ان سے کہتی ہیں کہ ''میاں اللہ والوں کو تو چھوڑ دیا کیجیے'' تو جانی واکر جواب دیتے ہیں ''خانم! اللہ والوں کو چھوڑ دوں تو کیا بالکل کافر ہو جاؤں؟''

ہمارے وزیر خزانہ مجھے بالکل یہی انداز اپنائے ہوئے لگتے ہیں 0.6 فیصد آپ کو سزا کے طور پر دینا ہو گا کہ آپ نے پچاس ہزار کی رقم چیک کے ذریعے ادھر سے ادھر کیوں کی، رکھی کیوں نہیں رہنے دی، تا کہ ادھر دوسرا ود ہولڈنگ ٹیکس لگایا جا سکے، کیونکہ ہمارے وزیر خزانہ کسی کے بھی اکاؤنٹ میں رقم برداشت نہیں کر سکتے تاوقتیکہ وہ رقم غیر ملکی قرضوں کی طرح ''کار سرکار'' میں نہ آ جائے۔ اب کار سرکار کی تفصیل کے لیے پھر ہمیں خانم کی طرف جانا پڑے گا لہٰذا چھوڑیے آپ خود سمجھدار ہیں جانتے ہیں کہ ''کار سرکار'' کیا ہوتے ہیں۔

اب سنا ہے کہ ٹینڈر دینے کی روایت کو بھی کوئی زیادہ بہتر نہیں سمجھا جا رہا اور انتخاب خویش کا سلسلہ دراز سے دراز کیا جا رہا ہے بجلی کا کام ایک ایسے رشتے دار کو دے دیا ہے کہ وہ پوری قوم کے لیے ''آفت اور بجلی'' بنا ہوا ہے، بیانوں کے میٹر کے میٹر روز ایشو ہو رہے ہیں۔ سندھ کے لوگ ادائیگیاں کر کے بھی بجلی سے محروم نظر آتے ہیں 35 منٹ بجلی ہوتی ہے اور دو دو گھنٹے بجلی بند اور کمال یہ ہے کہ دن رات لوڈ شیڈنگ نہ سونے کا کوئی وقت نہ جاگنے کا کوئی شیڈول بس لائٹ گئی، لائٹ آئی اب یہ تو الگ ایک کہانی ہے اس کی ناول الگ لکھیں گے ایک دن۔ امیروں کے ساتھ یا کاروبار کرنے والوں کے ساتھ تو یہ 0.6 فیصد کا سلسلہ ہے مگر غریبوں کو کون سا چھوڑ دیا ہے۔

غریب ریڈیو، ٹی وی کے فنکاروں اور لکھنے والوں سے 5 فیصد ٹیکس لیا جا رہا تھا گزشتہ حکومت میں جو زیادتی تھی اب ان پر بھی TAX کی ''ڈار'' پڑ گئی ہے اور آپ سن کر حیران نہیں ہوں گے کیونکہ آپ اور ہم سن کر حیران ہونا بھول چکے ہیں اب ان غریب آرٹسٹوں سے حکومت 15 فیصد ٹیکس وصول کر رہی ہے۔ دنیا بھر کے ملک فن و ثقافت کے شعبوں کو برقرار رکھنے اور ترقی دینے کے لیے ان شعبوں کو امداد دیتے اسپانسر کرتے ہیں یہاں ان غریبوں کے حلق سے 15 فیصد وصول کیا جا رہا ہے اور وہ بھی گزشتہ فروری سے اب تک کی وصولی کے ساتھ کٹ چکا ٹیکس واپس نہیں ملے گا اور کٹتا رہے گا، طوطی ہیں ہم ہماری آواز کوئی نہیں سنے گا۔

یہ ایک ایسا نقار خانہ ہے جہاں صرف ڈھول کی تھاپ ہی سنائی دے رہی ہے جو ٹیکس ٹیکس پکار رہی ہے۔ اس ملک کے عوامی نمایندے جن کو عوام ہمیشہ خود پر ظلم کرنے کا حق ووٹ دے کر دیتے ہیں اسلام آباد کی فضاؤں میں اڑان بھر رہے ہیں ڈار کے ساتھ، ان کی تنخواہوں میں پوشیدہ طور پر 30 فیصد انھیں اسی عوام کو ''نچوڑ'' کر دیا جائے گا جنھوں نے اس امید پر انھیں ووٹ دیے تھے کہ وہ یہاں آ کر عوام کے وسائل معاف کیجیے گا ''مسائل'' پر گفتگو کریں گے اور حل کریں گے مگر میل ملاپ، چلت پھرت سے انھیں معلوم ہوا کہ پاکستان کے عوام تو بہت مال دار ہیں اور وہ ہر طرح کا ٹیکس بخوشی دیتے ہیں تو ہمیں حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئیں کیونکہ ہمارا ہاتھ بھی تو حکومت کے ہاتھ میں ہے۔

اور جب ہاتھ میں ہاتھ ہے تو پھر ''ملیں گے کر کر لمبے ہاتھ'' سرکاری کام، ٹھیکے، تعمیرات، گرانٹ، عطیے، سرکاری فنڈ، صوابدیدی فنڈ اور نہ جانے کون کون سے فنڈ جن کا مقصد ملک و قوم کی نہیں اپنی ترقی ہے، ملک کا وزیر اعظم ملکوں ملکوں گھوم رہا ہے مجھے اس ملک اور اس لیڈر کا نام یاد نہیں رہا جس نے دوسرے ملک کے دورے سے معذرت کر لی تھی کہ میرے ملک کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ وہ میرے دورے کے اخراجات برداشت کر سکے، اگر مجھے دعوت دی ہے تو سارے اخراجات بھی آپ کو ہی برداشت کرنے پڑیں گے اور ایسا ہی ہوا تھا۔

ہم قرضوں کی دلدل میں پھنسے لوگ اور ہمارے وزیر اعظم جہاز میں دنیا بھر میں اڑان بھرتے پھر رہے ہیں اور کام کی کوئی ایک بھی بات نہیں ہوئی، معاہدے کیے جا رہے ہیں ملک کو مزید قرضوں میں جکڑا جا رہا ہے، ملک کی تجارت کو ناکام کر کے دوسرے ملکوں سے تجارت کی جا رہی ہے کہ ان کا مال یہاں بکے ہمارا مال پڑا گوداموں میں سڑتا رہے گندم کی طرح۔ کسی نے ایک لطیفہ مجھے میسج کیا تھاکہ پاکستان کے وزیر خزانہ صاحب کو وزیر خزانہ کہنا اور سمجھنا ایسا ہی ہے جیسے گاؤں کے اس نائی کو جو سارے ''کام'' کرتا ہے آپ سرجن سمجھنا شروع کر دیں۔

ہے تو لطیفہ ہی مگر کتنا حقیقت سے قریب بلکہ حقیقت لگتا ہے۔ ان سے تو کیا کہنا ہے فقیروں کو اطلاع دینی ہے کہ اپنی خیرات، زکوٰۃ، صدقات کے تحفظ کا بندوبست کریں ٹیکس کی ''ڈار'' اب آپ کی طرف آنے والی ہے کیونکہ بجلی، گیس کے بلوں، مختلف ظالمانہ ٹیکسوں کے ادا کرنے کے بعد عوام کا خون خشک ہو رہا ہے اور اب صرف آپ ہی موٹے تازے نظر آ رہے ہیں ٹیکس کا ''شِکرا'' جلد آپ پر ایک ''ڈار'' کی صورت حملہ آور ہونے ہی والا ہے۔ خواجہ سراؤں اور دوسرے اس قسم کے کاریگروں کو بھی اپنے بچاؤ کا بندوبست کر لینا چاہیے ان کی طرف بھی ٹیکس کا ریلہ آنے ہی والا ہے۔ یا اللہ ہم ٹیکس دے دیں گے آپ ناراض ہو کر ہوا، اور پانی بند نہ کر دیجیے گا ورنہ ہم کہاں جائیں گے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں