مستقبل کی نقشہ بندی
جمہوری عمل کی ساکھ بحال کرنے کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی انتخابی نظام میں اصلاحات کی کوشش کر رہی ہے
BARCELONA:
پی ٹی آئی کے چیف کونسل عبدالحفیظ پیرزادہ جو فی الوقت یو کے کے ایک اسپتال میں زیر علاج ہیں' انھوں نے جوڈیشل کمیشن (جے سی) کے سامنے یہ ثابت کرنے کی پوری کوشش کی کہ پنجاب میں 2013ء کے انتخابات میں حکمران مسلم لیگ ن نے درجنوں نشستوں پر دھاندلی کی کوشش کی۔
پیپلز پارٹی کے قانونی مشیر سینیٹر اعتزاز احسن نے بھی اس موقف میں اپنا وزن شامل کیا، لیکن میرے یہ دوست اندرون سندھ میں ان کی اپنی پارٹی کے لیے انتخابی دھاندلی کا کوئی ذکر نہ کر سکے جس کے ثبوت ایجنسیوں نے اکٹھے کر رکھے ہیں۔ جوڈیشل کمیشن کے سامنے جو شواہد پیش کیے گئے تھے ان کے مطابق مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں کو انفرادی طور پر قابل احتساب ٹھہرایا جانا چاہیے۔
فراڈ یقیناً ہوا ہے لیکن اس کے شواہد اظہر من الشمس نہیں ہیں بہر حال انتخابات کے بعد جو بحرانی کیفیت نظر آئی کیا ہم اس کو خیراندیشانہ صرف نظر سے تعبیر کر سکتے ہیں؟ الیکشن کمیشن کے طرز عمل سے سب سے زیادہ فائدہ مسلم لیگ ن کو پہنچا کیونکہ بہت سے انتخابی مواد کی تصدیق ہی نہیں کی جا سکی۔ آئین میں بیلٹ بکس کے تقدس پر بہت زور دیا گیا ہے اور ووٹ کو فرد کی مقدس امانت قرار دے کر مکمل آزادی کے ساتھ حق رائے دہی استعمال کرنے کی تلقین کی گئی ہے، جس کے بعد ووٹوں کی درست گنتی کو یقینی بنانے کی ہدایت بھی واضح ہے لیکن 2013ء کا انتخابی عمل نقائص سے مبرا ہر گز نہیں تھا لہٰذا اس عمل کی بنیاد پر ایک جمہوری حکومت کا اقتدار میں آنا آئین کے منافی تھا۔
جمہوری عمل کی ساکھ بحال کرنے کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی انتخابی نظام میں اصلاحات کی کوشش کر رہی ہے تاہم یہ ایک ایسا کام ہے جسے نہایت سنجیدگی کے ساتھ انجام دیا جانا چاہیے۔ اس حوالے سے بہت سیدھے سادے اور صاف نظر آنے والے اصولوں پر عمل کیا جانا چاہیے، جن میں: -1سینیٹ کے انتخابات بلواسطہ نہیں ہونے چاہئیں بلکہ اسی طرح بلا واسطہ ہونے چاہئیں جس طرح کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ہوتے ہیں۔ -2 چونکہ بلدیاتی انتخابات جمہوریت کی بنیادی ضرورت ہیں لہٰذا عام انتخابات کے بعد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جانا چاہیے -3 وہ تمام امیدوار جو اسمبلیوں اور سینیٹ میں نشستیں حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔
ان سب کو لوکل باڈی کے انتخابات کے ذریعے آگے آنا چاہیے -4 اگر کسی کو انتخاب میں واضح اکثریت حاصل نہ ہو تو پھر ''رن آف الیکشن'' لازمی قرار دیا جانا چاہیے -5 تمام سٹیک ہولڈرز کو گورننس میں حصہ دینے کے لیے متناسب نمایندگی کا اہتمام کیا جانا چاہیے -6 تمام امیدوار ٹیکس دہندگان ہونے چاہئیں نادہندگان کو انتخابی عمل میں شرکت کی اجازت نہیں ملنی چاہیے -7 بائیو میٹرک اور الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کو متعارف کرانا چاہیے۔ ملک کی مکمل آبادی میں نہایت شدت سے تبدیلیاں پیدا ہو گئی ہیں لہٰذا یہ بات ناگزیر ہے کہ قومی سطح پر مردم شماری کروائی جائے (واضح رہے آخری مردم شماری 1998ء میں ہوئی تھی) لہٰذا اس نئی مردم شماری کی بنیاد پر اسمبلیوں کی نشستوں کا تعین کیا جانا چاہیے۔ 2008ء اور 2013ء میں ہونے والے انتخابات ملک کے رائے دہندگان کی درست نمایندگی نہیں کرتے۔
سندھ میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے رینجرز کے ذریعے فوج کو خصوصی اختیارات دیے گئے ہیں سندھ حکومت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کرپٹ صوبائی حکومت ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ جب رینجرز نے حکومت میں پیپلز پارٹی کے مقرر کردہ کرپٹ عناصر کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تو حکومت نے واویلا مچانا شروع کر دیا۔ فوج ان فنڈز کا سراغ لگانے کے لیے پرعزم ہے جن کو دہشت گردی کی سہولت کاری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ وفاقی حکومت کو جی ایچ کیو کی طرف سے تلقین کی گئی کہ سندھ میں رینجرز کی تعیناتی کو مزید ایک سال کے لیے توسیع دے دی جائے اس توسیعی سال کا آغاز 20 جولائی سے ہو گیا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو اس کا متبادل گورنر راج کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مجرموں کو ان کی سیاسی وابستگی سے قطع نظر احتساب کے شکنجے میں لایا جانا چاہیے۔جنرل راحیل شریف نے عیدالفطر اپنے ان فوجی دستوں کے ہمراہ منائی جو عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جب کہ ہماری بڑی سیاسی پارٹیوں کے سربراہان میاں نواز شریف' شہباز شریف اور آصف علی زرداری نے اپنی عید اپنے اہل خاندان اور احباب کے ہمراہ علی الترتیب جدہ' لندن اور دبئی میں منائی۔ صرف اسی ایک بات سے ہی ساری صورت حال واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے کہ مشکل اور خطرناک جگہ پر لیڈروں کی جسمانی موجودگی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں ان لوگوں کا خیال ہے جن کا انھیں ذمے دار بنایا گیا ہے اور وہ محض زبانی جمع خرچ سے کام نہیں لیتے کہ بیرون ملک سے عید کے گھڑے گھڑائے پیغامات ارسال کرتے رہیں۔
ذرا اندازہ لگائیں کہ شہباز شریف لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے سیلاب سے بچاؤ کی ہدایات جاری فرما رہے ہیں جب کہ آصف زرداری سندھ حکومت کے کلیدی حکام کا دربار دبئی میں منعقد کر رہے ہیں جس میں ان کی مبینہ اقربا پروری کے ثبوت واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس سے ہماری جمہوریت کی منافقت بھی نمایاں ہوتی ہے۔ ہمیں حقیقت پسندی سے اس بات کا جائزہ لینا ہو گا کہ ہم اپنے بچوں کے لیے کس قسم کی حکمرانی کو اختیار کرنا چاہتے ہیں تا کہ ہمارے آباؤ اجداد کی وہ قربانیاں جو انھوں نے وطن عزیز کے حاصل کرنے کے لیے دیں رائیگاں نہ جائیں حالانکہ ہم نے ان سے جو وعدے کیے تھے کہ ملک میں جمہوریت کا دور دورہ ہو گا ہم ان وعدوں کو عرصہ ہوا فراموش کر چکے ہیں۔
میں نے ''جمہوری راستے سے قومی سلامتی کا اصول'' کے عنوان سے جو مقالہ تحریر کیا تھا وہ پاکستان آرمی کی گرین بک 2014ء میں شامل کیا جا چکا ہے۔ اس میں لکھا گیا تھا کہ اس بارے میں کوئی کوتاہی نہیں کی جانی چاہیے کہ ہماری قومی سلامتی کو شدید خطرات درپیش ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس حقیقت کو تسلیم کریں اور متبادل لائحہ عمل کے بارے میں مستحکم فیصلہ کر سکیں۔ برطانیہ کی جمہوریت جسے ''ویسٹ منسٹر نمونے'' کا نام دیا جاتا ہے وہ ہمارے یہاں کامیابی سے کام نہیں کر سکی۔ شہری آزادیاں ان لوگوں کے ہاتھ میں دے دی گئی ہیں جن کا ذہن آزادانہ نہیں۔ تو ظاہر ہے کہ وہ اپنے اختیارات کا لامحالہ طور پر غلط استعمال ہی کریں گے۔ سنگا پور کے لیڈر لی کوان یو نے آزاد خیال جمہوری اقدار کو مسترد کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کی ایک ہی قسم سب لوگوں کے لیے مفید ثابت نہیں ہو سکتی۔
ان کے جانشینوں نے آزادانہ اظہار خیال پر قدغن عاید کر دی۔ اب پاکستان چونکہ ایسی صورت حال کا شکار ہے جہاں سلامتی کے لیے خطرہ موجود ہے لہٰذا ہمیں بھی اپنے بارے میں کھلے دل سے سوچ بچار کرنی چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ ہمیں کس قسم کا نظام راس آ سکتا ہے تاکہ قومی سلامتی کے لیے مضبوطی اور استحکام کے ساتھ کردار ادا کیا جا سکے۔انتخابی عمل میں اصلاح کے بغیر ہمارا موجودہ جمہوری نظام سماجی اور اقتصادی ترقی میں کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ جوڈیشل کمیشن کو جمہوریت کی صحیح خطوط پر بحالی کے لیے ایک روڈ میپ دینا چاہیے تا کہ جمہوریت کو آئین کی روشنی میں درست راستے پر ڈالا جا سکے۔ اگر ہم اس مقصد میں ناکام ہو گئے تو ہمارا حال بھی خدا نخواستہ لیبیا' شام' یمن' عراق اور افغانستان وغیرہ کی طرح کا ہو سکتا ہے۔